پاکستان کی جغرافیائی خصوصیت و اہمیت اس کا ایک قیمتی اثاثہ رہی ہے جس کا اعتراف پاکستانی رہنماوں اور عوام کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا محلِ وقوع ہے جس کو مناسب انداز میں بروئے کار لایا جاتا تو پاکستان کی اقتصادی ترقی کوئی مسئلہ نہ رہتی‘ لیکن یہ بات افسوس کے ساتھ ہی کہی جا سکتی ہے کہ اپنی آزادی سے اب تک اسے مختلف حوالوں سے داخلی چیلنجز کا سامنا رہا۔ ان مسائل کی وجہ سے ہی وہ اب تک اپنی علاقائی افادیت کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھا پایا ہے۔ داخلی حالات ٹھیک رہتے اور اس جغرافیائی و علاقائی افادیت و اہمیت سے فائدہ اٹھانے کی راہ ہموار رہتی تو پورے تیقن کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ آج پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور اس تنظیم کے پاکستان میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس کی صورت میں پاکستان کو موقع ملا ہے کہ اس اہم جغرافیائی محل وقوع سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے‘ کیونکہ ایس سی او ایک کثیر جہتی اور کثیرالمقاصد پلیٹ فارم ہے جس کا اندازہ اس تنظیم کے ڈھانچے پر ایک نظر ڈال کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ یہ اندازہ بھی کہ اس تنظیم میں پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے کا کتنا پوٹینشل موجود ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم ایک یوریشیائی (یورپ اور ایشیا میں وسعت پذیر) سیاسی‘ اقتصادی اور عسکری تعاون پر مبنی تنظیم ہے جو چین‘ قازقستان‘ کرغزستان‘ روس‘ تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماوں نے 2001ءمیں قائم کی تھی۔ وکی پیڈیا کے مطابق سوائے ازبکستان کے درج بالا تمام ممالک شنگھائی پانچ (Shanghai Five) کے رکن تھے۔ شنگھائی فائیو تنظیم 26اپریل 1996ءکو قائم کی گئی تھی اور اس کے قیام کا مقصد رکن ممالک کے سرحدی علاقوں میں بڑھتے ہوئے فوجی اعتماد کو مزید فروغ دینا تھا۔ ازبکستان 2001ءمیں ہونے والے شنگھائی فائیو کے اجلاس میں اس تنظیم میں شامل ہوا اور اسی اجلاس میں تنظیم کا نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔
پاکستان 2005ءسے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا۔ پاکستان تنظیم کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا اور مناسب انداز میں اپنی رائے کا اظہار بھی کرتا رہا۔ 2010ءمیں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لیے درخواست دی گئی۔ تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے جولائی 2015ءمیں اوفا اجلاس میں پاکستان کی درخواست کی منظوری دی اور پاکستان کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا۔ نو جون 2017ءکو پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی تنظیم کا باقاعدہ رکن بنا لیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہو گئی۔ بعد ازاں ایران کو چار جولائی 2023ءکو اور بیلاروس کو چار جولائی 2024ءکو تنظیم کا باقاعدہ رکن بنا لیا گیا۔ آبادی کے لحاظ سے دو سرفہرست ممالک‘ بھارت اور چین اس تنظیم کے رکن ہیں۔ اسی وجہ سے یہ تنظیم دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد کا ایک متحرک فورم ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کی 40فیصد آبادی کی نمائندہ تنظیم ہے۔
پاکستان اس وقت گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔ اسے سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے جیسے‘ آبادی میں تیز رفتار اضافہ‘ بڑھتا ہوا افراطِ زر‘ کم ہوتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر اور سست شرحِ نمو۔ اس کے ساتھ تیزی سے تغیر پذیر علاقائی اور عالمی حالات کے اپنے الگ تقاضے ہیں کہ بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق خود کو بدلا جائے اور ہر لحاظ سے مستحکم بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس سارے تناظر میں پاکستان کو نئی معاشی شراکت داریوں کی اشد ضرورت ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم مطلوب شراکت داریاں فراہم کرنے کے حوالے سے ایک اہم پلیٹ فارم ثابت ہو سکتی ہے۔ رکن ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھا کر اور انہیں مستحکم و مضبوط بنا کر پاکستان علاقائی مارکیٹوں‘ انفراسٹرکچر کی سرمایہ کاری اور بڑھتی ہوئی تجارتی ترقی‘ بالخصوص چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان وسط ایشیا کے ممالک اور روس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت اور اپنی اقتصادی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کے ساتھ شراکت داریاں سرمایہ کاری میں اضافے اور تجارت بڑھانے کے صورت میں مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ تنظیم میں متحرک کردار ادا کرکے پاکستان اقتصادی فوائد اور سفارتی سرمایہ دونوں حاصل کر سکتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کا ایک اہم پہلو پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بریک تھرو کی توقع ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کی دعوت پر بھارت کی جانب سے ابتدائی جواب روکھا پھیکا تھا۔ پہلے اشارہ دیا گیا کہ بھارت کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔ پھر عندیہ ظاہر کیا گیا کہ بھارت کانفرنس میں ورچوئل شرکت کرے گا‘ لیکن آخر کار بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت کا اعلان کیا‘ لیکن وزیراعظم نریندر مودی شریک نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اپنی جگہ اپنے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو کانفرنس میں شرکت کا ٹاسک سونپا۔ ایس جے شنکر کانفرنس میں شریک ہوئے‘ تاہم حکمران پارٹی مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین نواز شریف نے کہا کہ نریندر مودی خود آتے تو بہتر ہوتا۔ اس کانفرنس میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے حوالے سے کسی بریک تھرو کی توقع نہیں تھی‘ پھر بھی بھارت کی شرکت سے برف کے کچھ پگھلنے کے آثار نمایاں ہو سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے سربراہِ حکومت ڈاکٹر محمد یونس حالیہ دو ماہ میں کئی بار سارک کو بحال اور فعال کرنے کی ضرورت پر زور دے چکے ہیں۔ سارک کے اجلاس بھارت کے عدم تعاون کی وجہ سے جمود اور سقوط کا شکار ہیں۔ ممکن ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کے طفیل سارک کی قسمت ہی کھل جائے اور اس علاقائی تنظیم کے اجلاس باقاعدگی سے ہونے لگیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور سارک پوری طرح متحرک ہو جائیں تو اس خطے کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے 23ویں سربراہی اجلاس کے اختتام پر کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق رکن ممالک کی جانب سے آٹھ دستاویزات پر دستخط کیے گئے۔ کانفرنس کے شرکا نے آستانہ میں ہوئے سربراہی اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ ایس سی او کی رکن ریاستیں لوگوں کے آزادانہ جمہوری‘ سیاسی‘ معاشرتی اور معاشی حقوق کے استعمال کا احترام کرتی ہےں۔ وفد کے سربراہان نے تنظیم کی 2024-25ءکی چیئر چین کو دینے کی حمایت کی۔ اجلاس کے شرکا نے ایک محفوظ‘ پُر امن اور خوشحال سرزمین کے لیے تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ فورم کے شرکا نے ممالک کے تنازعات کا بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تنظیم نے یو این جنرل اسمبلی کی امن‘ ہم آہنگی اور ترقی سے متعلق قرارداد کی حمایت کی۔
یہ ایک نہایت مثبت اعلامیہ ہے جس کو عملی شکل دینے کے نتیجے میں وہ سارے خواب پورے ہو سکتے ہیں‘ جن کی تعبیر کی تلاش میں شنگھائی تعاون تنظیم قائم کی گئی اور جن کی خاطر تنظیم کی اسلام آباد کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم مستقبل میں نیٹو کے پائے کا اتحاد ثابت ہوتا ہے یا نہیں‘اس کا فیصلہ جاری کےے گئے حالیہ اور سابق اعلامیوں پر عملدرآمد کی رفتار کرے گی۔