نومبر کا موسم گلابی جاڑوں کا موسم ہوتا ہے۔ نہ زیادہ گرمی نہ زیادہ سردی‘ لیکن پت جھڑ کی وجہ سے فضا میں ایک عجیب سی اداسی چھائی رہتی ہے۔ اس کے باوجود یہ موسم اچھا لگتا ہے کہ شدید گرمی اور ساون بھادوں کے حبس کے بعد کچھ راحت ملتی ہے‘ سکون نصیب ہوتا ہے۔ یہ شاعروں کا موسم ہے لیکن عام بندے کیلئے بھی اس میں کرنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ نرم دھوپ میں بیٹھ کر موسمبیاں کھائی جا سکتی ہیں‘ کوئی کتاب پڑھی جا سکتی ہے اور دفتر میں ہفتہ بھر کی مصروفیت کے بعد کچھ لمحے فرصت کے گزارے جا سکتے ہیں۔ ماضی میں ایسا ہوتا ہو تو ہوتا ہو‘ افسوس کہ اب ایسا ممکن نہیں۔ سموگ کے روگ نے یہ سب کچھ ممکن نہیں رہنے دیا ہے۔
یاور ماجد کا ایک شعر ہے:
وہم کی کالی گھٹا نظروں سے ہٹتی ہی نہیں
دھند ایسی دِل پہ چھائی ہے کہ چھٹتی ہی نہیں
وہم کی کالی گھٹا تو ممکن ہے کبھی ہٹ جائے اور امکان غالب یہ ہے کہ دل پہ چھائی دھند بھی کبھی نہ کبھی چھٹ ہی جائے گی‘ لیکن پنجاب‘ خصوصاً لاہور اور اس کے مضافات میں معلق سموگ کے ہٹنے یا چھٹنے کا دور دور تک کوئی آثار‘ کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ سموگ کی تہہ کتنی دبیز ہو چکی ہے‘ اس کا اندازہ میڈیا رپورٹس سے لگایا جا سکتا ہے جو بتاتی ہیں کہ آج‘ یعنی بروز بدھ بھی آلودگی کے لحاظ سے لاہور کا دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔ شہر میں سموگ کی اوسط شرح 499ر یکارڈ کی گئی ہے۔ ڈیفنس کا ایئر کوالٹی انڈیکس 900 تک پہنچ چکا ہے جبکہ لاہور کے دیگر علاقوں‘ غازی روڈ انٹرچینج کا ایئر کوالٹی انڈیکس 647 اور جوہر ٹاؤن کے علاقے کا ایئر کوالٹی انڈیکس 425 ریکارڈ کیا گیا۔ صورتحال کی گمبھیرتا کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے مخصوص اضلاع میں تعلیمی اداورں کو بند کیا گیا تھا‘ لیکن اب پورے صوبے کے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ اگلے جمعہ کے روز صوبے بھر میں نمازِ استسقاء کا اہتمام کیا جائے گا۔ نمازِ استسقاء کے ذریعے اجتماعی توبہ کی جائے گی اور باری تعالیٰ سے بارانِ رحمت طلب کی جائے گی۔ صوبے میں اس وقت بارش کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بارش ہو گی تو ہوا میں معلق مضر صحت گیسیں اور پارٹیکلز زمین بوس ہوں گے‘ اس طرح سموگ کے اثرات کچھ کم ہو سکیں گے۔ یاد رہے کہ استسقاء کے معنی بارش مانگنے کے ہیں۔ جب خشک سالی بڑھ جائے اور عرصے تک بارش نہ ہو تو اہلِ علاقہ کسی کھلے میدان میں یہ نماز ادا کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ سے عاجزی و انکساری کے ساتھ گڑگڑاتے ہوئے بارش طلب کی جائے۔ نمازِ استسقاء ادا کرنے کے بعد چند روز میں بارانِ رحمت ضرور برستا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عاجزی سے مانگی گئی دعا ضرور قبول کرتا ہے۔ ہمارے خطے کو اس وقت شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں درجہ حرارت میں اضافہ‘ شدید سیلاب اور سموگ اہم ترین ہیں۔ ہم اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے کتنا تیار ہیں؟ سموگ اتنی زیادہ ہے کہ ان دنوں سکولوں میں چھٹیاں ہیں اور سننے میں آیا ہے کہ اگر سموگ کی شدت کم نہ ہوئی تو تعلیمی اداروں میں تعطیلات میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ اس طرح شہریوں کی صحت کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم کا بھی بڑا نقصان ہو رہا ہے۔
میرے بتانے کی ضرورت نہیں کہ سموگ میں کیا ہوتا ہے۔ سموگ میں سانس لینے والا ہر انسان‘ چرند‘ پرند حتیٰ کہ نباتات‘ غرض ہر ذی روح بخوبی جانتا ہے کہ سموگ کتنی بڑی تباہی ہے اور اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔ جب کوئی بندہ سموگ سے بھری ہوا میں سانس لیتا ہے تو دراصل آلودہ کثافتیں سانس کے ذریعے اس کے اندر جاتی ہیں۔ پھیپھڑوں میں ان کثافتوں کی پھر ایک تہہ جم جاتی ہے جو آکسیجن والی ہوا کو پھیپھڑوں میں جذب ہونے سے روکتی ہے۔ اس سے نظامِ تنفس میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں جو اگر زیادہ دیر جاری رہیں اور بروقت ان کا علاج یا تدارک نہ کیا جائے تو جان لیوا روگ میں بدل سکتی ہیں۔ سموگ کے شدید ہونے پر لاہور کے کچھ علاقوں میں گرین لاک ڈاؤن لگایا گیا‘ جس کا زیادہ فائدہ نہ ہو سکا‘ کیونکہ جن علاقوں میں گرین لاک ڈاؤن لگایا گیا وہاں نہ صرف سموگ کی شدت برقرار رہی بلکہ وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے علاوہ حکومتِ پنجاب سموگ کے خاتمے کے لیے بھارت کے ساتھ سفارت کاری کے بارے میں بھی سوچ رہی ہے۔
تیز رفتار میڈیا کی وجہ سے لوگ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہو چکے ہیں کہ سموگ دراصل دھویں‘ فضائی آلودگی اور دھند کے ملنے سے بنتی ہے۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس طرح کی فضائی آلودگی نائٹروجن آکسائیڈ‘ سلفر آکسائیڈ‘ اوزون‘ گاڑیوں‘ کارخانوں‘ فیکٹریوں اور دھان کی فصل کی باقیات جلانے سے پیدا ہونے والے دھویں یا نظر نہ آنے والی آلودہ گیسوں مثلاً کاربن مونو آکسائیڈ اور کلورو فلورو کاربن کے ذرات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پٹرول و ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے نکلنے والی مضر گیسیں‘ صنعتی پلانٹس سے خارج ہونے اور فضا میں پھیل جانے والی آلودگی‘ فصلوں کی باقیات جلانے سے پیدا ہونے والی کثافتیں انسانی صحت کے لیے کتنی خطرناک ہو سکتی ہیں۔
سموگ کوئی ایک دن میں پیدا نہیں ہو گئی اور نہ ایک دن میں اس نے شدت اختیار کی ہے۔ حالات کو اس نہج تک پہنچنے میں طویل عرصہ لگا ہے‘ لیکن ہماری اور ہمارے قائدین کی بطور قوم وہی پُرانی تساہل پسندی سموگ کے سدِ باب اور بروقت تدارک کے آڑے آ رہی ہے۔ ہماری حکومتوں اور حکمرانوں کا وتیرہ بن چکا ہے کہ اُس وقت تک حرکت میں نہیں آتے جب تک پانی سر سے اوپر نہ ہو جائے۔ سموگ کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ سموگ کا مکمل خاتمہ بتدریج ہی ممکن ہو سکتا ہے اور اس عمل میں سات‘ آٹھ سال لگ جائیں گے جبکہ سموگ کی وجہ انسانی صحت پر جس تیزی سے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ ان کا تقاضا ہے کہ اس آلودگی کے خاتمے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں تاکہ پہلے مرحلے میں اسے انسانی صحت کیلئے بدستور مضر لیکن کسی حد تک قابلِ قبول سطح تک لایا جائے اور پھر اس کے مکمل خاتمے کیلئے چاہے سست روی سے کام کر لیا جائے۔
ایک اور معاملہ یہ ہے کہ یہاں جب بھی کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا ہے‘ افواہوں اور قیاس آرائیوں کا ایک پورا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سموگ کے سلسلے میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جب ہوائیں پاکستان سے بھارت کی طرف چلتی ہیں تو ایسے میں پاکستانی حکمرانوں کا یہ دعویٰ درست کیسے ہو سکتا ہے کہ بھارت میں دھان کی فصل کی باقیات کو لگائی جانے والی آگ کی وجہ سے پاکستان میں بھی سموگ پھیلتی ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ بھارت میں دھان کی باقیات کو لگنے والی آگ سموگ کی سب سے بڑی وجہ ہے تو بڑے شہروں میں ٹریفک کی اوور کراؤڈنگ کو کیا نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ یہ وقت الزام تراشیوں اور مسائل سے پہلو تہی اختیار کرنے کا نہیں ہے‘ بلکہ سموگ کے لاحق روگ کے علاج کے لیے عملی اقدامات کرنے کا ہے۔