"IYC" (space) message & send to 7575

معیشت: حکومت کیا کرے …(11)

اس ساری بحث کا لبِ لباب یہ ہے کہ ماضی میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر کئی ایسی غلطیاں سر زد ہوئیں اور کئی ایسے فیصلے ہوئے جن کی وجہ سے قومی معیشت ویسی ترقی نہیں کر سکی جیسی ایک نوزائیدہ مملکت میں کی جانی چاہیے تھی۔ محنت کر کے اپنا کچھ بنانے اور کمانے کے بجائے ہم قرضوں اور امداد کے رسیا ہو گئے۔ سوائے ایوب خان کے دور کے کسی بھی دورِ حکومت میں اور کسی بھی دور میں کوئی ایسا فیصلہ یا اقدام نہ کیا گیا جس سے ملک میں صنعتوں کا جال بچھتا‘ زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا اور دونوں شعبے ایک دوسرے سے تعاون‘ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ترقی اور فروغ کی منزلیں طے کرتے۔ 1950ء کی دہائی میں شروع ہونے والے پانچ سالہ منصوبے چلتے رہتے تو ممکن ہے آج ہمارے ملک کے اقتصادی اور معاشی حالات کچھ مختلف ہوتے‘ لیکن ان منصوبوں کے سلسلے کو جاری رکھنے اور 'جتنی چادر ہو اتنے پاؤں پھیلانے چاہئیں‘ کے محاورے یا مقولے پر عمل کرنے کے بجائے خسارے کے بجٹ پیش کیے جانے لگے‘ یعنی پاؤں چادر سے باہر نکال لیے گئے اور اسے ترقی کا نام دیا گیا‘ حالانکہ ایسی ترقی کو ترقی تو بالکل بھی نہیں کہا جا سکتا‘ البتہ ترقیٔ معکوس ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم ترقیٔ معکوس کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں اور اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ ہم ترقی کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ وہی نکلا ہے جو نکلنا چاہیے تھا‘ یعنی ملک اور قوم‘ دونوں اربوں ڈالر کے مقروض ہو چکے ہیں اور حالات اس نہج تک خراب یا تشویشناک ہو چکے ہیں کہ ہمیں ماضی میں لیے گئے قرضوں کا اصل زر اور ان قرضوں پر واجب الادا سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے حاصل کرنا پڑ رہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق تو پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور ہمارے حکمران اس بات پر خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے نیا قرضہ مل گیا۔ اب جو قرضہ دیتا ہے‘ وہ اپنی شرائط بھی عائد کرتا ہے۔ آج جو ہر پاکستانی بجلی کے ناقابلِ برداشت بلوں سے تنگ ہے‘ اس کی وجہ یہی آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضے ہی ہیں۔ آئی ایم ایف کی متعدد شرائط ہماری حکومتیں تسلیم کر چکی ہیں‘ لیکن ابھی مزید شرائط عائد کرنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ چند خبریں پڑھ کر میرے تو ہوش اڑے ہوئے ہیں۔ آپ بھی سنیے تاکہ آپ کے بھی ہاتھوں کے طوطے اڑتے پھرتے نظر آئیں۔ پاکستان کی جانب سے اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد منی بجٹ لانے کے لیے آئی ایم ایف کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جاری مالی سال کے پہلے چھ ماہ (جولائی تا دسمبر) میں 321ارب روپے کے ٹیکس خسارے کا اندیشہ ہے جس کے بعد آئی ایم ایف نے اگلے ہفتے اپنا ہنگامی مشن پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مذاکرات کیے جائیں اور منی بجٹ کے نفاذ کے ذریعے اصلاحات کے لیے زور دیا جائے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف کا وفد کل یعنی 11نومبر کو پاکستان میں قدم رنجہ فرما رہا ہے۔ ادھر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا ہے کہ اگر موجودہ مالی سال کے اندر ٹیکس میں اضافہ نہ ہوا تو تنخواہ دار طبقے اور صنعتوں پر ٹیکس بوجھ بڑھانا پڑے گا۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ 10برسوں میں بجلی کی قیمت مزید ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا: موجودہ صورتحال برقرار رہی تو بجلی کی قیمتیں بڑھتی رہیں گی۔ جہاں معاملات اس طرح چل رہے ہوں وہاں بہتری کی توقع اور عوام کو بنیادی ترین سہولتوں کی فراہمی کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟
موضوع سنجیدہ ہے پھر بھی ایک لطیفہ سننا چاہیں تو عرض ہے کہ وفاقی حکومت پی آئی اے کی نجکاری کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ 31اکتوبر کو پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پی آئی اے کے 60فیصد حصص کی نجکاری کے لیے 85ارب روپے کی بولی کی خواہاں وزارتِ نجکاری کو ایک کاروباری گروپ کی جانب سے صرف 10ارب روپے کی بولی موصول ہوئی تھی جس کے بعد نجکاری کا عمل روک دیا گیا تھا۔ اب پتا چلا ہے کہ بیرونِ ملک سرگرم ایک پاکستانی گروپ النہانگ گروپ نے سوا کھرب روپے سے زائد کی پیشکش کر دی ہے اور اس گروپ نے قومی ایئر لائن پر واجب الادا 250ارب روپے ادا کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔
یہ ایک اچھی پیشکش ہے اور ممکن ہے کہ اس قیمت پر پی آئی اے کے حصص فروخت کر دیے جائیں۔ اس سارے عمل میں مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت پنجاب اور حکومت خیبر پختونخوا‘ دونوں پی آئی اے کو خریدنے کی خواہش مند نظر آئیں۔ ان خواہشات کے بارے میں پڑھ کر میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو ادارہ وفاق کے ماتحت نہ چل پا رہا ہو‘ وہ صوبائی حکومتوں میں سے کوئی چلا لے؟ ارے بھائی اگر کسی کے پاس اس ادارے کو منافع بخش بنانے کا کوئی فارمولا موجود ہے‘ تو وہ شیئر کرے تاکہ ایک عرصے سے قومی خزانے کو جو نقصان پہنچ رہا ہے‘ اس سے تو نجات مل جائے‘ لیکن نہیں‘ خود خرید کر چلا لیں گے‘ مگر وفاقی حکومت کی زیر نگرانی اس ادارے کو تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جب سوچ ایسی انفرادی ہو تو ملک مجموعی سطح پر کیسے ترقی کر سکتا ہے؟
مجھے اس سے بہتر الفاظ نہیں مل رہے کہ ہماری اور ہمارے حکمرانوں کی اس روش نے ہمیں تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اور معاملہ محض تباہی والا نہیں ہے‘ افسوس اس بات کا ہے کہ اس تباہی کا کسی کو افسوس بھی نہیں۔ وہ جو جون ایلیا نے کہا تھا:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
ہمارا حال بھی بس اس شعر جیسا ہی ہو چکا ہے۔ آج ہمیں اپنی بقا کے لیے کوئی راستہ سُجھائی نہیں دیتا ہے سوائے اس کے کہ پہلے سے ایمان داری سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر ہی ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈال دیا جائے اور اُنہی سے مزید قربانیاں طلب کی جائیں‘ لیکن تا بہ کُجا؟ یہ بوجھ ڈالنے اور قربانیاں مانگنے والا سلسلہ کب تک چل سکتا ہے۔ عوام کی بھی مالی برداشت کی ایک حد ہے۔ یہاں بے روزگاری ہے اور غربت بھی‘ یہاں روزگار کے مواقع سکڑتے جا رہے ہیں اور جو مواقع دستیاب ہیں ان میں استحصال کا معاملہ سب سے نمایاں نظر آتا ہے‘ یعنی کم پیسوں میں زیادہ سے زیادہ کام کرایا جائے۔ اس کا نتیجہ خراب صحت اور بری مالی حالت کی صورت میں نکلتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک بڑا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے جس کو ٹھیک کرنے کیلئے بڑی واضح اور بھرپور منصوبہ بندی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ اور آج کا بڑا سوال یہ ہے کہ انفرادی سے لے کر اجتماعی سطح تک ایسی کوئی منصوبہ بندی کرنے کیلئے کوئی بھی تیار ہے؟ میرے خیال میں تو کوئی بھی تیار نہیں۔ تو پھر آگے کیسے بڑھا جائے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں