معیشت پر اب تک کی گئی ساری گفتگو‘ تجزیے‘ تبصرے یا بحث کا نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 77برسوں میں یہاں جتنی بھی حکومتیں برسر اقتدار رہیں انہوں نے ملک کو مضبوط اور مستحکم معاشی بنیاد فراہم کرنے کے بجائے محض وقتی ضروریات پوری کرنے کی طرف اپنی انتظامی توجہ مبذول رکھی۔ وہ اپنی ان کوششوں میں تو کامیاب رہیں لیکن عارضی سہاروں پر استوار کی گئی اقتصادیات کی وجہ سے ملک کو ایسا معاشی پولیو ہو گیا کہ وہ آج تک قرضوں کی بیساکھیوں کے سہارے چل رہا ہے اور ان بیساکھیوں سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ابھی گزشتہ روز ہی یہ خبر پڑھی کہ حکومت آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر مزید مالی معاونت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ آئی ایم ایف نے ابھی گزشتہ ماہ پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دی تھی اور اس نے مزید فنڈ کو Resilience and Sustainability Trust کے تحت فنانسنگ کے ذریعے مشروط کیا ہے۔
صورتحال کو اس قدر گمبھیر بنا دیا گیا ہے کہ ہمیں بحیثیت ایک قوم اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے اور ہمیں پہلے سے واجب الادا قرض اور ان پر جمع ہو چکے سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔ جب پاکستان بنا تو یہ طے ہو گیا تھا کہ اس کی معیشت زرعی ہے‘ یعنی زراعت سے جو پیداوار ہوتی ہے اس سے نہ صرف مقامی غذائی ضروریات پوری کی جائیں گی بلکہ ان میں سے کچھ اجناس برآمد کر کے زرِ مبادلہ بھی کمایا جائے گا اور معیشت کی توجہ زرعی شعبے پر ہی مرتکز رہے گی۔کاش ایسا ہو جاتا‘ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ اگر اس ایک شعبے پر ہی بھرپور توجہ مبذول کر لی جاتی تو آج نہ صرف ہم خوراک کے لحاظ سے خود کفیل ہوتے بلکہ ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی صورتحال بھی یہ نہ ہوتی جو اس وقت ہے۔ ہم خود کو معاشی دلدل میں دھنسا ہوا اور بے بس محسوس نہ کر رہے ہوتے۔
دوسری ضرورت صنعتی ترقی کی تھی‘ اور ہمیں یہاں ایسی صنعتیں لگانے کی ضرورت تھی جو Agri Based ہوں یعنی جنہیں ہمارے زرعی شعبے سے خام مال میسر آتا اور ہمیں خام مال کے لیے دوسرے ممالک اور دوسری قوموں کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کرنا پڑتا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اس مسئلے پر مناسب توجہ دی گئی‘ اور اس طرح ملک میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ ملا۔ ایک دور میں ہم اس قابل ہو گئے تھے کہ اپنی کپاس اور گندم کی ضروریات مقامی سطح پر ہونے والی پیداوار سے پوری کر سکتے تھے‘ لیکن پھر ہوا یہ کہ زرعی شعبے پر مناسب توجہ باقی نہ رہی جس کی وجہ سے ایگری بیسڈ انڈسٹریز بھی متاثر ہونا شروع ہو گئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہم نہ صرف اپنی ضرورت کی خوراک پیدا نہیں کر سکتے بلکہ ٹیکسٹائل کے شعبے کے لیے کپاس بھی ہمیں بیرونِ ملک سے منگوانا پڑتی ہے۔
پاکستان میں ربیع کے موسم میں تقریباً نو ملین ہیکٹر رقبے پر گندم کاشت کی جاتی ہے جو کل کاشتہ رقبے کا تقریباً 80فیصد بنتا ہے۔ پاکستان رقبے اور پیداوار کے لحاظ سے گندم کاشت کرنے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے۔ وقت کے ساتھ گندم کی نئی اقسام دریافت کی گئی ہیں‘ جو عمومی طور پر ملکی سطح اور خصوصی پر پنجاب بھر میں گندم کی پیداوار بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ 1947-48ء میں گندم کی ملکی پیداوار 2.63ملین ٹن تھی‘ جو آج بڑھ کر 25تا 30ملین ٹن سے تجاوز کر چکی ہے‘ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ خوراک کی ضروریات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے گندم کی پیداوار میں اضافے کے باوجود ہمیں خاصی بڑی مقدار میں گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔ ہم کتنے بڑے حجم میں گندم درآمد کرتے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مارچ 2024ء میں چھ لاکھ 91ہزار 136میٹرک ٹن‘ فروری 2024ء میں سات لاکھ 78ہزار 112میٹرک ٹن‘ جنوری 2024ء میں چھ لاکھ 13ہزار 147میٹرک ٹن‘ دسمبر 2023ء میں تین لاکھ 12ہزار 399میٹرک ٹن‘نومبر 2023ء میں چار لاکھ 97ہزار 734میٹرک ٹن اور اکتوبر 2023ء میں تین لاکھ 94ہزار 602 میٹرک ٹن گندم درآمد کر لی گئی تھی۔ گندم کی کاشت پر خصوصی توجہ دے کر پیداوار اتنی بڑھائی جا سکتی ہے کہ خوراک میں خود کفالت حاصل کی جا سکے اور اس بھاری اور قیمتی زرِ مبادلہ کو بچایا جا سکے جو ہر سال گندم کی درآمد پر ہمیں خرچ کرنا پڑتا ہے۔
بزنس ریکارڈر کی ایک رپورٹ کے مطابق 1990ء کی دہائی تک بھارت کپاس کی پیداوار میں پاکستان سے پیچھے تھا‘ لیکن آج اس حوالے سے بھارت نہ صرف پاکستان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے بلکہ 2023-24ء کے سیزن میں روئی کی 34.7ملین گانٹھوں کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں سرفہرست بھی آ چکا ہے اور یہ دنیا کی کل پیداوار کا 25فیصد ہے۔ فاروق احمد لغاری سیاستدان ہونے کے علاوہ ایک بڑے زمین دار بھی تھے۔ جب وہ ملک کے صدر تھے تو زراعت کے حوالے سے ایک کانفرنس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان کو نہ صرف سفید کپاس کی پیداوار بڑھانے پر بھرپور توجہ دینی چاہیے بلکہ رنگ دار کپاس اگانے کے لیے بھی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ باقی دنیا میں رنگ دار کپاس بھی اگائی جا رہی ہے لیکن ہم اپنی سفید کاٹن کی ضروریات ہی پوری کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ٹیکسٹائل مارکیٹ کا حجم تقریباً دس کھرب ڈالر ہے جس میں سے چین 266ارب ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر ہے۔ بنگلہ دیش کپاس کی پیداوار میں 40ویں نمبر پر ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل میں 39ارب ڈالر کی برآمدات کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ ایک خبر کے مطابق 2022ء میں یورپی یونین کو گارمنٹس برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بنگلہ دیش تھا۔ کہاں گیا ہمارا زرعی ملک ہونا اور کہاں گئی ہماری ایگری بیسڈ صنعتیں؟ پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر سب سے بڑا صنعتی شعبہ ہے جس کے ساتھ ملک کی کل صنعتی لیبر کا کم و بیش 40فیصد منسلک ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ملک کی کل ٹیکسٹائل ملز میں سے آدھی بند پڑی ہیں۔ اس سیکٹر میں تنزلی کی متعدد وجوہات میں سے ایک ملکی سطح پر کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی بھی ہے۔ دیگر وجوہات کمزور ملکی معیشت‘ توانائی کا بحران‘ شرحِ سود میں اضافہ‘ قومی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی‘ بڑھتا ہوا افراطِ زر اور پیداواری لاگت میں اضافہ ہیں۔ 1997ء میں ہمارے ملک میں کپاس کا زیرِ کاشت رقبہ 32لاکھ ہیکٹر تھا‘ لیکن پھر اس کاشتہ رقبے میں کمی واقع ہونے لگی اور اربابِ بست و کشاد میں سے کسی نے اس اہم مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ کاشت میں اس کمی کی وجوہات کیا ہیں۔ زیر کاشت رقبے میں کمی کے باوجود 2010ء تک کپاس کی سالانہ پیداوار ڈیڑھ کروڑ گانٹھیں تھی۔ 2021ء تک کپاس کا زیر کاشت رقبہ کم ہو کر 22لاکھ ہیکٹر اور پیداوار صرف 74لاکھ گانٹھیں ہو گئی۔ حالات یہ ہیں کہ پاکستان کو اپنی ٹیکسٹائل صنعت کی ایک کروڑ 60لاکھ گانٹھوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خاصی بڑی مقدار میں روئی درآمد کرنا پڑتی ہے۔ ایسے میں معاشی ترقی کے اہداف پورے ہوں تو کیسے ہوں؟