"IYC" (space) message & send to 7575

معیشت: حکومت کیا کرے؟ …(10)

ہماری معیشت پر معاشی تقاضوں کو سمجھنے اور حالات کو پیشِ نظر رکھ کر بروقت مناسب اور درست فیصلے کرنے کے فقدان کے علاوہ بھی کچھ بوجھ ہیں جن کو اتارنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بوجھ بلا جواز اور بے مقصد ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک طرف ٹیکسوں کے اور ملکی و غیرملکی قرضوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ریونیو اکٹھا کرنے کی کوشش کی جائے اور دوسری طرف اس قیمتی زرِ مبادلہ کو بے مصرف اُڑا دیا جائے۔ یہ بوجھ وہ ادارے ہیں جو منافع کمانا تو دور کی بات اپنے اخراجات پورے کرنے کے قابل بھی نہیں اور انہیں چلتا رکھنے کے لیے حکومت کو ہر سال ان کے لیے رقم مختص کرنا پڑتی ہے۔
پی آئی اے کا شمار حکومتی سرپرستی میں چلنے والے انہی اداروں میں ہوتا ہے جو قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ پی آئی اے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2022ء میں ایئر لائن کو 88ارب روپے خسارہ ہوا جو حکومت کو بھرنا پڑا۔ اسی طرح 2023ء کے صرف ابتدائی چھ ماہ میں اس ادارے کا خسارہ 60ارب روپے ہو چکا تھا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ پی آئی اے کے کل اثاثوں کی مالیت 57ارب روپے کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے‘ جبکہ اس کے ذمہ 600ارب کا قرضہ ہے۔ حالات کس قدر گمبھیر ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تین درجن جہازوں کے لیے 7200مستقل ملازمین کام کرتے ہیں۔ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ملازمین اس کے علاوہ ہیں۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ حکومت پی آئی اے کی نجکاری کر رہی ہے۔ اسے اس کی فروخت سے 85 ارب روپے حاصل ہونے کی توقع تھی‘ لیکن فروخت کے سلسلے میں جو بولی لگی ہے وہ محض 10ارب روپے کی ہے۔
پاکستان سٹیل ملز کا معاملہ بھی پی آئی اے جیسا ہی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ سٹیل ملز کے حالات کیا ہیں‘ اس کا اندازہ 15اگست 2024ء کو میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان سٹیل ملز کے نقصانات 224ارب اور ادائیگیوں کا بوجھ 335ارب ہو چکا ہے۔ اس طرح مجموعی بوجھ تقریباً 600ارب تک پہنچ چکا ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ سٹیل ملز کی 305ایکڑ زمین پر تجاوزات ہیں اور سٹیل ملز میں تاحال چوری کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ سٹیل ملز نیشنل بینک کی 258ارب روپے کی نادہندہ بھی ہے۔
اُدھر پاور ڈویژن کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق جولائی 2023ء سے جون 2024ء تک 33آئی پی پیز کو 979ارب 29کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگیاں کی گئیں۔ اگر پاکستان میں آئی پی پیز کی کل تعداد 100ہو تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرضوں میں ڈوبے اس ملک میں پیسے کی کیسے لوٹ مار ہو رہی ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کا گھریلو ٹیرف خطے کے دیگر ممالک کے قریب یا ان سے کچھ زیادہ ہے‘ لیکن صنعتوں اور کاروباروں کو بجلی کی قیمتیں جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ادا کرنا پڑتی ہیں۔ ان حالات میں کیسے ممکن ہے کہ تجارت کو فروغ مل سکے یا صنعتیں عالمی سطح پر ملنے والے آرڈر ہی پورے کر سکیں؟
پاکستان کے خزانے اور خزانے سے زیادہ صارفین کی جیبوں پر ایک اور بڑا بوجھ لائن لاسز کا ہے۔ یہ بوجھ کتنا زیادہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ امسال ستمبر میں سامنے آنے والی توانائی ڈویژن کی دستاویز کے مطابق ڈسکوز کے مجموعی لائن لاسز 11.7سے بڑھ کر 18.2فیصد ہو گئے ہیں جن میں پیسکومیں سرفہرست ہے جبکہ سیپکو‘ حیسکو‘ کیسکو بھی لائن لاسز والی بجلی تقسیم کار کمپنیوں میں شامل ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ پاکستان میں پاور سیکٹر کا گردشی خسارہ دو ہزار 700ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے‘ اورہر ماہ تقریباً 49ارب کی بچلی چوری ہو رہی ہے جس کی قیمت عوام بجلی مہنگی ہونے کی صورت میں چکا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ مارچ 2024ء تک بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2794ارب روپے جبکہ جنوری 2024ء تک گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ 2083ارب روپے ریکارڈ کیا گیا تھا۔ وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ 15 فروری 2025ء سے گیس ٹیرف میں مزید اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔
زرِ مبادلہ کے ذخائر پر ایک اور بڑا بوجھ کرنسی‘ تیل اور اجناس کی بڑھتی ہوئی سمگلنگ ہے۔ پاکستان میں سمگلنگ ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کا ملکی معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحدوں پر مختلف اشیا کی غیرقانونی تجارت ایک مستقل مصیبت ہے۔ سمگل شدہ مصنوعات نے پاکستان کی معیشت کے متعدد شعبوں میں در اندازی کی ہے جس میں سیل فون‘ ایندھن اور روزمرہ کی ضروریات کی چیزیں جیسے باتھ روم مصنوعات اور چائے شامل ہیں۔ یہ غیر قانونی سرگرمی رسمی معیشت اور تجارت کو ریگولیٹ کرنے کی حکومتی کوششوں کو مشکلات سے دوچار کرتی ہے۔ یہ سمگل شدہ اشیا پاکستانی منڈیوں میں طلب کے ایک اہم حصے کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ غیر قانونی طور پر ملک میں لائی جانے والی سرفہرست اشیا سالانہ تین ارب تیس کروڑ ڈالر کا حصہ ڈالتی ہیں۔
پاکستان کی دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت بھی پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر بوجھ ہے کیونکہ ہماری درآمدات برآمدات کی نسبت ہمیشہ زیادہ رہتی ہیں۔ اس طرح بجائے اس کے کہ بین الاقوامی تجارت پاکستان کے لیے معاشی استحکام کا سبب بنتی‘ یہ الٹا معاشی کمزوری کا باعث بن رہی ہے۔ امسال مارچ میں سامنے آنے والی ایک خبر کے مطابق مالی سال 2023-24ء کے ابتدائی سات ماہ کے دوران پاکستان کا خطے کے نو ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ چار ارب 54 کروڑ ڈالر ہو گیا تھا‘ جو مالی سال 2022-23ء کی اسی مدت میں چار ارب 51 کروڑ 60 لاکھ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اب بھی اس توازن میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آزادی کے 77برسوں میں ہم اپنی عالمی تجارت کو ہی اپنے حق میں کرنے کے قابل نہیں ہو سکے ہیں اور ایک طرح سے کنزیومر سوسائٹی بن چکے ہیں۔
پاکستان کا شمار اُن دس ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے حالانکہ موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل کو بڑھانے میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی پاکستان کے لیے بھاری قیمت کیا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2022ء میں آنے والے سیلاب میں پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ جون اور اگست 2022ء کے درمیانی عرصے میں ملک بھر میں ہونے والی شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ ان میں دو کروڑ چھ لاکھ کو زندگی کے تحفظ کے لیے مدد کی ضرورت رہی جن میں نصف تعداد بچوں کی تھی۔
حکمران اگر ملک کو معاشی مسائل کی دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے بھاری اضافی اخراجات کا باعث بننے والے ان اداروں اور شعبوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اس کے بغیر معاشی استحکام کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں