مولانا فضل الرحمن بیک وقت اپوزیشن اور حکومت کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں‘ وجہ مجوزہ آئینی پیکیج کی منظوری میں ان کی حمایت ہے۔ قبل ازیں مولانا فضل الرحمن کے عدم تعاون کی وجہ سے حکومت کے لیے 15ستمبر کو آئینی پیکیج کی منظوری ناممکن ہو گئی تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے جس طرح اس معاملے کو ہینڈل کیا یہ انہی کا خاصا ہے۔ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں ان سے خوش ہیں۔ اپوزیشن اس لیے خوش ہے کہ مولانا نے بظاہر ان کے مؤقف کی تائید کی ہے کیونکہ مولانا حکومت کی حمایت کر دیتے تو مجوزہ آئینی پیکیج اب تک منظور ہو چکا ہوتا جبکہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں ابھی تک مولانا سے آس لگائے ہوئے ہیں کہ جو کام پہلے نہیں ہو سکا وہ چند روز بعد ہو جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن کی جگہ کوئی دوسراہوتا تو اس کے لیے عدم تعاون کے باوجود تمام فریقوں کو راضی رکھنا آسان نہ ہوتا۔
اگلے روز دیرینہ دوست کاشف الدین سید کی ہمرہی میں مولانا فضل الرحمن سے طویل ملاقات ہوئی۔ مولانا وضع داری کی علامت ہیں۔ مہمانوں سے اپنائیت کا اظہار کیسے کرنا ہے‘ یہ کوئی ان سے سیکھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کے لوگوں میں یکساں مقبول ہیں۔ ملفوف انداز میں گفتگو اور سخت سے سخت سوال کا جواب بھی ہنس کر دینا ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ تنویر نقوی کا شعر ''کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے‘‘ مولانا کے طرزِ گفتگو کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتا ہے۔ ملاقات کے دوران جب ہم نے مولانا کو فکر مند پایا تو اس فکر مندی کی وجہ جاننے کی جسارت کر دی۔ انہوں نے ایک سرد آہ بھری اور گویا ہوئے کہ ملک کی موجودہ صورتحال پر فکر مند ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے برملا اس امر کا اظہار کیا کہ اس وقت عوام اور اداروں کے درمیان جو دوریاں ہیں انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں یہ دوریاں اس سے پہلے نہیں دیکھیں۔ ہم نے مولانا سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے اصرار پر انہوں نے آئینی پیکیج کی منظوری میں تعاون کیوں نہیں کیا؟ مولانا کا کہنا تھا کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے کو دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اس میں کچھ قابلِ اعتراض نکات شامل تھے‘ جو منظور ہو جاتے تو اس خطرناک کھیل میں وہ بھی شامل ہو جاتے۔ انہوں نے کہا کہ وقتی طور پر تو انہوں نے آئینی پیکیج کی منظوری کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی ہے لیکن یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ دینی مدارس کے گرد شکنجہ کسنے کی جو منصوبہ بندی کی گئی ہے اسے عملی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی۔ ہماری مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ملاقات گھنٹوں جاری رہی‘ اس دوران ملک کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سرکردہ رہنما ان سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے رہے۔ جب سے مذہبی طبقے کو معلوم ہوا ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے ذریعے مدارس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے تو مولانا سے ان کی توقعات بڑھ گئی ہیں حتیٰ کہ دوسرے مکاتب فکر کے علما بھی مولانا سے رجوع کرکے اُن سے اس ضمن میں کردار ادا کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔ دوسرے مسالک کے لوگ بھی مولانا کی تقلید میں آگے بڑھنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے اس بات کا اظہار تو نہیں کیا لیکن ہم نے محسوس کیا کہ سیاسی و مذہبی قیادت ان سے جو توقعات لگائے ہوئے ہے وہ اسے بھاری بوجھ اور ذمہ داری سمجھتے ہوئے دباؤ میں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بہت سے لوگوں کے رویے سے نالاں اور دل برداشتہ تھے‘ انہوں نے برملا کہا کہ ملاقات کرنے والے لوگ ایک دن کوئی بات کرتے ہیں تو اگلے روز اپنی بات سے رجوع کر لیتے ہیں۔ آئینی اصلاحات کے حوالے سے مولانا کا دو ٹوک مؤقف تھا کہ ایوان کے اندر تمام جماعتوں کی مشاورت سے متفقہ طور پر اصلاحات کا عمل ہونا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن نے اس ملاقات میں سات ستمبر کو جمعیت علمائے اسلام اور عالمی مجلسِ تحفظِ ختم نبوت کے مینار ِپاکستان کے گراؤنڈ میں یومِ فتح منانے کے لیے منعقد کی گئی گولڈن جوبلی کانفرنس کا بھی ذکر کیا جس میں ملک بھر سے لوگ شریک ہوئے تھے۔ اس کانفرنس کے انتظامات جمعیت علمائے اسلام کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کے رضا کاروں نے سنبھالے اور منظم انداز میں کانفرنس کے پُرامن انعقاد کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انتظامیہ نے مجمع کے جو اندازے لگائے تھے لوگوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ تھی۔ مینارِ پاکستان کا گراؤنڈ اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ پڑ گیا ۔ آس پاس کی شاہراہوں پر بھی لوگ کئی گھنٹے تک کھڑے ہو کر جلسے کی تقاریر سنتے رہے۔ میڈیا کوریج نہ ہونے کے باوجود جمعیت علمائے اسلام نے جب جب اپنے لوگوں کو بلایا ہے وہ جماعت کی آواز پر دیوانہ وار چلے آئے ہیں۔
دیکھا جائے تو انسان کی شخصیت ہی اس کا حقیقی سرمایہ ہے۔ ایک خوبصورت اور باوقار شخصیت انسان کو ہر جگہ عزت اور احترام دلاتی ہے۔ ایسی شخصیت کے مالک لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ ان میں نرم طبیعت‘ خوش اخلاقی‘ تحمل‘ بردباری اور جرأت جیسے اوصاف موجود ہیں۔ ضرورت کے وقت مخالفین اور حامی دونوں ان سے رجوع کرتے ہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کے بعد مولانا فضل الرحمن کو یہ مقام حاصل ہے کہ کیا اپنے کیا پرائے‘ سبھی ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست ایک ایسا میدان ہے جہاں ہزاروں آنکھیں آپ پر لگی رہتی ہیں۔ سیاستدان کی شخصیت‘ اس کا اندازِ بیان اور اس کا لباس یہ سب کچھ عوام کی نظروں میں اس کی شخصیت کا آئینہ بن جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام سیاستدانوں کو وضع داری اور اخلاقی اقدار کے بلند مقام پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اسے اپنے عہدے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ محنت کرنا ہوتی ہے۔ اس کے فیصلوں سے بہت سے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں‘ اس لیے اسے یہ فیصلے بہت احتیاط سے کرنا ہوتے ہیں۔ یہ مقام کسی بھی شخص کے لوگوں کے ساتھ تعلقات کا دائرہ وسیع کرتا ہے۔ ایسے افراد کو بیک وقت سیاسی حلیفوں اور حریفوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہوتے ہیں۔ یہ کام بہت مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ اس مقام و مرتبے کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے متعلقین کو مطمئن کر سکے۔ کہنے کی حد تک یہ بات بہت خوش کن نظر آتی ہے کہ ایک ایسا شخص ہے جس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بڑی بڑی جماعتیں اس کے پاس حاضری دینا ضروری سمجھتی ہیں لیکن سب کے اعتماد اور توقعات پر پورا اترنے کے لیے اسے کس چکی میں پِسنا پڑتا ہے‘ یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔مولانا کو یہ فن خوب آتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن سمجھتے ہیں کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے معاملے پر جب تک اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہو تا وہ اپوزیشن کا ساتھ دے سکتے ہیں نہ کھل کر حکومت کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی بصیرت سے مجوزہ آئینی پیکیج کی منظوری کی پہلی کوشش ناکام بنا دی ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے مرحلے میں ان کی حکمت عملی کیا ہوتی ہے کیونکہ حکومتی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کے ووٹوں کے بغیر آئینی ترامیم کو منظور کرانے کا عندیہ دے چکی ہیں۔