"RS" (space) message & send to 7575

شخصی انا یا قومی مفاد؟

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی سیاسی زندگی کے دو ادوار بالخصوص تاریخ کا حصہ رہیں گے۔ ایک وہ جب 2013ء کے بعد اقتدار سے دور رہے‘ چونکہ انہیں لانے والوں نے یقین دہانی کرائی تھی اس لیے اقتدار سے محرومی پر خان صاحب کی خواہش شدت اختیار کر گئی اور انہوں نے ٹھان لی کہ کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کیا جائے۔ وہ اس زعم میں تھے کہ ان کا ووٹ بینک دوسری جماعتوں سے زیادہ ہے۔ ان دنوں خان صاحب کی تقاریر اور جارحانہ لب و لہجہ ریکارڈ کا حصہ ہے‘ جس میں وہ برملا شیخ مجیب الرحمان کا نام لیتے ہوئے سوال کرتے تھے کہ بنگالی ہم سے کیوں الگ ہوئے؟ دوسرا دور تب شروع ہوا جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وہ اقتدار سے بے دخل ہوئے۔ ایک بار پھر انہوں نے انتباہ کرنا شروع کر دیا کہ ملک میں بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا نہ کیے جائیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ خان صاحب شیخ مجیب الرحمان کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔ خان صاحب شیخ مجیب کو اپنے تئیں مظلوم پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شیخ مجیب کی طرح وہ بھی مظلوم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام شیخ مجیب کی فیملی کو اقتدار سے بے دخل کر چکے ہیں‘ شیخ مجیب کی تصویر والے نوٹوں کو مسترد کیا جا چکا ہے‘ چوک چوراہوں سے ان کے مجسمے ہٹائے جا چکے ہیں‘ یہاں تک کہ جہاں جہاں شیخ مجیب اور اس کے خاندان کا نام تھا اسے کھرچ کر اس کے نشانات تک مٹا دیے گئے ہیں۔ شیخ مجیب کی وارث ان کی صاحبزادی شیخ حسینہ واجد ملک سے فرار ہو کر بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوئیں۔ بنگلہ دیش کی یہ صورتحال انتہائی واضح ہے کہ نفرت پر مبنی بیانیہ زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتا۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص شیخ مجیب کو اپنا ہیرو سمجھے یا ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرے تو اس کی سیاسی بصیرت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بھی میڈیا بریفنگ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسا شخص دوسروں میں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہا ہے جو خود تاریخ کے متنازع کردار سے متاثر ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی اُفق پر ابھرنے والے ہر ستارے کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ نقطۂ عروج کے بعد زوال کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ شخصیات آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں مگر قومی معاملات اور ملکی مفادات مستقل حقیقت ہیں جن پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک زندہ قوم کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ افراد کی پرستش کے بجائے اداروں کے احترام اور قومی مفادات کے تحفظ کو اپنا نصب العین بنائے۔ جب کوئی شخصیت اپنے آپ کو ریاست سے بالاتر سمجھنے لگتی ہے تو شعوری یا لاشعوری طور پر تخریب کا راستہ اختیار کرتی ہے اور ملک کو ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں قومی وجود اور سیاسی بقا خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں یہ تقسیم واضح صورت اختیار کر چکی ہے۔ ایک طرف وہ افراد ہیں جو ملک کے بنیادی ستونوں کو اپنی ذاتی سیاسی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے پر تُلے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف قومی ادارے ہیں جو تمام تر مشکلات کے باوجود ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی نے اقتدار سے محرومی کے بعد جو جارحانہ اور جذباتی بیانیہ اپنایا اس نے ملکی سیاسی دھارے کو قومی مفاد کے بجائے ذاتی انتقام کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ بعض لوگ اسے جارحانہ طرز سیاست سے تعبیر کرتے ہیں‘ کیا جارحانہ طرزِ سیاست میں قومی معاملات پس پشت چلے ہیں؟ خان صاحب نے سیاست کے نام پر تصادم پر مبنی انداز اپنایا۔ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی اور ریاستی اداروں پر تنقید کو بغاوت کے مترادف بنا کر پیش کیا گیا۔ اداروں پر تنقید اور شخصیات کی مخالفت میں فرق ہوتا ہے جس کو برقرار رکھنا از حد ضروری ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی اس توازن کو قائم رکھنے میں ناکام رہے۔ ان کا بیانیہ قومی دھارے سے کٹتا چلا گیا۔ جب ایک سیاسی رہنما اپنی ذاتی خواہش کی تکمیل کیلئے ریاستی اداروں کو نشانہ بنائے تو وہ ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر رہا ہوتا ہے۔ قومی ادارے افراد کی تبدیلی کے ساتھ اپنی پالیسیاں اور کردار برقرار رکھتے ہیں۔ وہ ریاست کے تسلسل کی ضمانت ہوتے ہیں۔ اداروں کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز اگر تعمیری تنقید کے دائرے سے باہر نکل جائے تو بالآخر خاموش ہو جاتی ہے‘ مگر اداروں کا وجود اور پالیسیاں برقرار رہتی ہیں۔
سیاسی رہنما کی سوچ‘ بصیرت اور فکری جہت کا صحیح اندازہ اس کے آئیڈیلز اور تاریخی حوالوں سے لگایا جاتا ہے۔ عمران خان کا شیخ مجیب الرحمان کا بار بار حوالہ دینا اور ملک میں بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا کرنے کی دھمکی دینا ان کی سیاسی پختگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اس ضمن میں عسکری قیادت کی جانب سے میڈیا بریفنگ میں جس صورتحال کی طرف اشارہ کیا گیا‘ وہ محض ایک سیاسی بیانیہ نہیں بلکہ ایک نیشنل سکیورٹی تھریٹ ہے۔ پریس بریفنگ میں واضح کیا گیا کہ ایک شخص مسلسل اپنے بیانیے کے ذریعے افواجِ پاکستان اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کی مذموم کوشش کر رہا ہے اور اس بیانیے کا سب سے بڑا سہولت کار بھارتی میڈیا اور دشمن ایجنسیوں کے ٹرول اکاؤنٹس ہیں۔ یہ کیفیت صورتحال کی نزاکت کو انتہا تک لے جاتی ہے۔ یہ عمل محض سیاسی تنقید نہیں رہا بلکہ یہ ''کلوژن‘‘ ہے جس میں ملک دشمن عناصر اور مخصوص سیاسی گروہ افواجِ پاکستان کو کمزور کرنے کے مقصد کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ نو مئی کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ بیانیہ عوام کو فوج کے خلاف بھڑکانے کی حد تک جا چکا ہے۔ یہ وہ افسوسناک لمحہ تھا جب سیاسی مخالفت نے ملک دشمنی کی شکل اختیار کر لی۔ عسکری ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ عوام اور افواج کے درمیان فرق ڈال کر فتنہ پروری کرے۔
قومی معاملات کو سیاسی معاملات پر ترجیح دینے کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم افراد کے عارضی عروج و زوال کے بجائے ریاست کے دائمی مفادات پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ ملک کو درپیش دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ معاشی استحکام اور پیچیدہ علاقائی چیلنجز ایسے سنگین معاملات ہیں جن پر کسی صورت یکجہتی اور قومی اتفاقِ رائے سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ عسکری قیادت کی طرف سے یہ بات صراحت کیساتھ واضح کی گئی کہ دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ پاک فوج کی بے مثال قربانیوں کی مرہونِ منت ہے‘ اسی طرح خیبرپختونخوا پولیس اور عوام بھی عظیم قربانیاں دے رہے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی سیاسی شخصیت کی جانب سے دہشتگردوں کیساتھ بات چیت کا بیانیہ تشکیل دینا ملکی مفادات کیساتھ بے وفائی اور مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔ دہشتگردی کے حوالے سے ریاست کا مؤقف اٹل اور دوٹوک ہے کہ فتنہ الخوارج سے کسی صورت بات چیت نہیں کی جائے گی۔ خان صاحب کی سیاست میں جارحانہ مزاج غالب رہا ہے لیکن کیا ضروری ہے کہ انسان ایک ہی ڈگر پر چلتا رہے اورحالات و واقعات سے کچھ نہ سیکھے؟ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ شدید جارحانہ انداز اپنانے والے سیاسی قائدین کی سیاست قومی دھارے سے کٹ کر بالآخر ختم ہوتی چلی گئی۔ سخت طرزِ عمل کے نتیجے میں خان صاحب کی سیاست پہلے ہی قومی دھارے سے ختم ہو چکی ہے اور اگر مزاحمت پر مبنی یہ روش ترک نہ کی گئی تو ان کی سیاست مکمل طور پر تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے‘ اس کے برعکس قومی ادارے بہر صورت قائم و دائم رہیں گے۔ موجودہ عسکری قیادت یہ سمجھتی ہے کہ خان صاحب ذاتی انا کے اسیر ہو کر قومی مفادات کی راہ پر چلنے کیلئے تیار نہیں ہیں اسلئے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم یہ ادراک کریں کہ ایک فرد کی انا کو کسی قیمت پر قومی سلامتی اور اداروں کے تقدس پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ قومی مفادات کا تقدس ہر چیز پر مقدم ہے اور جو شخص اس اصول کو پامال کرنے کی جسارت کرے گا‘ اسے تاریخ اور قوم مسترد کر دیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں