"RS" (space) message & send to 7575

عوامی خدمت بمقابلہ تصادم

سیاست کا جوہر محض اقتدار کی کرسی کا حصول نہیں بلکہ عوامی خدمت‘ محرومیوں کا ازالہ اور ریاست و عوام کے درمیان اعتماد کے پل کی تعمیر ہے۔ اسی بنا پر سیاستدان کو عوامی نمائندہ کہا جاتا ہے جو اپنے حلقے کی آواز‘ ان کے دکھوں کا امین اور ان کے خوابوں کا محافظ ہوتا ہے۔ سیاستدان خود کو قوم کا خادم کہلوانا پسند کرتے ہیں‘ سیاست کی کامیابی کا راز عوامی مزاج رکھنے میں مضمر ہے یعنی وہ فہم و بصیرت جو کسی رہنما کو عوام کے ساتھ یکجا ہونے‘ ان کی ضروریات کو اپنی ترجیح بنانے اور مشکل حالات میں ان کے درمیان موجود رہنے کی صلاحیت بخشے۔ بدقسمتی سے آج کے سیاسی منظرنامے پر یہ اصول پامال ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ہمیں ایسے کئی چہرے دکھائی دیتے ہیں جو عوامی مزاج اور خدمت کے جذبے سے عاری ہیں۔ ان کا تعلق حلقے سے اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ منتخب ہونے کے بعد پھر انہیں اپنے حلقے میں جانے کا موقع نصیب نہیں ہوتا۔ یہ رویہ عوامی نمائندگی کے بنیادی معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ جب خدمت کا یہ جذبہ ماند پڑتا ہے تو اس کی جگہ اقتدار کی ہوس اور مفادات کی سیاست لے لیتی ہے جس کا نتیجہ عوام سے دوری اور انتہا پسندی کی طرف جھکاؤ کی صورت میں نکلتا ہے۔ سیاسی میدان میں دھمکی آمیز رویہ زہرِ قاتل کے مترادف ہے جو جمہوریت کی پوری عمارت کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ سیاست دلیل‘ تہذیب اور رائے کے تبادلے کا نام ہے‘ نہ کہ طاقت کے زور پر جبر کا۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سیاست میں جس دھمکی آمیز رویے اور تصادم کا آغاز بانی پی ٹی آئی نے کیاآج ان کے نام لیوا اسی نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا کوہاٹ جلسے میں جوشیلے انداز میں یہ کہنا کہ جب خان صاحب کا حکم آئے گا وہ نکل پڑیں گے۔ پھر اس عزم کا اظہار کہ اس بار ڈی چوک سے آزادی لے کر یا کفن میں واپس پہنچیں گے‘ انتہائی تشویشناک ہے۔ آئینی عہدے پر فائز شخص کی زبان سے نکلے یہ الفاظ محض سیاسی بیان بازی نہیں بلکہ ایسی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں جو پُرامن حل کے بجائے تصادم کو اپنی اصل قوت سمجھتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں احتجاج بنیادی حق ہے لیکن اس حق کو غیرمشروط دھمکی اور ریاست کو یرغمال بنانے کی کوشش کے طور پر استعمال کرنا عوامی نمائندگی کے فرائض کی خلاف ورزی اور آئین کی روح کے منافی ہے۔ ماضی میں جب علی امین گنڈا پور کے جارحانہ مزاج پر شکوے کیے جاتے تھے تو یہ سیاسی رویے کا ایک انفرادی مسئلہ لگتا تھا مگر اب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا اسی جارحانہ مزاج کو اختیار کرنا بلکہ اپنے پیشرو سے دو قدم آگے نکل جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ انفرادی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا نظریاتی مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ سوچ جو عوامی خدمت کے بجائے دھمکی اور تصادم کو اپنی اصل طاقت کے طور پر پیش کرتی ہے‘سیاست کو مخاصمت کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔ جب سیاسی قائدین مخالفین پر تنقید کو ہی اپنا اصل کام سمجھنے لگتے ہیں‘ جیسا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے وزیر اعلیٰ پنجاب پر تنقید کرتے ہوئے کیا تو اس سے صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان نہیں بلکہ عوام کے درمیان بھی نفرت اور تقسیم بڑھتی ہے۔ جمہوری ریاست میں قیادت کا فرض ہے کہ عوام کو اخلاقی بلندی سکھائے نہ کہ انہیں ہجوم کی جارحیت کی طرف دھکیلے۔
آج کے جدید دور میں عوامی شعور اور معلومات تک آسان رسائی کے باعث یہ ممکن نہیں رہا کہ کوئی بھی رہنما محض دعوے کرے اور عوام آنکھیں بند کرکے اسے تسلیم کر لیں۔ اب سیاسی بقا کا دار و مدار خدمت اور کارکردگی پر ہے۔ اگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو پنجاب کا مقابلہ کرنا ہے تو انہیں یہ جنگ تصادم کے بجائے کارکردگی کے میدان میں لڑنا ہو گی۔ پنجاب میں ترقیاتی کام خدمت کی سیاست کا مظہر ہیں۔ غیرجانبدار حلقے اور عالمی ادارے بھی ان اقدامات کے معترف ہیں۔ پنجاب حکومت کے اقدامات اور کارکردگی نے ثابت کیا ہے کہ سیاسی قوت کا اظہار تصادم کے بیانیے کے بجائے خدمت اور مؤثر اصلاحات کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال ویسٹ مینجمنٹ کے شعبے میں عالمی معیار کا حصول ہے۔ صوبے کا ویسٹ مینجمنٹ منصوبہ ایک قابلِ تقلید ماڈل بن چکا ہے جو صرف شہروں کی صفائی تک محدود نہیں رہا بلکہ فضلے کو توانائی اور معاشی فائدے میں بھی تبدیل کر رہا ہے۔ اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تفصیلات کوپ 30 جیسے عالمی فورمز پر پیش کی گئیں‘ اور بلوم برگ جیسے عالمی جریدے نے اسے ایک اہم منصوبہ قرار دیا۔ اسی طرح پنجاب حکومت کے تعمیراتی منصوبے بھی اعلیٰ معیار کی علامت ہیں۔ سہولت بازار منصوبے کو سوئٹزرلینڈ کے ایک مستند عالمی ادارے کی طرف سے اعلیٰ معیار کا انٹرنیشنل سرٹیفکیٹ کا اجرا انتظامی نظم و ضبط اور اداروں میں شفافیت کے عزم کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ ہی صوبے میں انتظامی جرأت اور قانون کی عملداری کا مظاہرہ بھی کیا گیا ہے۔ ماضی میں کوئی بھی حکومت تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنے سے مصلحت کا شکار ہو کر گریزاں رہتی تھی‘ لیکن موجودہ پنجاب حکومت نے یہ مشکل کام کرکے دکھایا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی زمینوں‘ پلاٹوں اور گھروں پر طاقتور گروہوں کے قبضے اور غیرقانونی تعمیرات کا وہ دیرینہ مسئلہ جو کئی دہائیوں سے عوامی اذیت اور حکومتی کمزوری کی علامت بنا ہوا تھا‘ اس کے خلاف بھی قانونی اصلاحات اور فوری انصاف کی بنیاد پر عملی اقدامات کا آغاز کیا گیا ہے‘ جس سے قانون کی بالادستی کا تصور مضبوط ہوا ہے۔ پنجاب میں شہری نظم و ضبط کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد جو برسوں سے ایک خواب تھا‘ اسے پنجاب حکومت نے عملی جامہ پہنایا ہے۔ ان اقدامات کے علاوہ کسانوں کیلئے مراعات کا مؤثر نظام‘ ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری اور دیگر متعدد فلاحی منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پنجاب حکومت نے عوامی مسائل کے دیرینہ حل اور حقیقی گورننس پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے جو کہ تصادم کی سیاست سے کہیں زیادہ تعمیری اور پائیدار ہے۔
اس کے برعکس خیبرپختونخوا میں سیاسی قیادت کی ترجیحات میں کارکردگی کی وہ جھلک دکھائی نہیں دیتی جو بطور مثال پیش کی جا سکے۔ یہاں گنتی کے چند ایسے منصوبے بھی نہیں ملتے جن کی کارکردگی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا سکے یا جنہیں پنجاب کی اصلاحات کے مقابل کھڑا کیا جا سکے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب خیبرپختونخوا کی قیادت کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اگر وہ واقعی پنجاب سے مقابلہ چاہتے ہیں تو انہیں تصادم اور دھمکیوں کے کھوکھلے بیانیے کو ترک کرنا ہو گا۔ انہیں اپنی تمام تر صلاحیتیں‘ وسائل اور توانائیاں حکومتی اصلاحات‘ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر‘ سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور عوام کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنا ہوں گی۔ سیاست ایک عوامی امانت ہے۔ دھمکی اور تصادم کی فکر اس امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔ یہ ہماری قومی زندگی کو خطرے سے دوچار کرتی اورآئندہ نسلوں کیلئے ایسی وراثت چھوڑ کر جاتی ہے جہاں دلیل کو گولی اور غصے سے رد کیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ خدمت کے جوہر کو پہچانیں‘ اپنے رویوں میں اعتدال‘ تحمل اور بُردباری لائیں اور عوامی خدمت کے ذریعے اپنی سیاسی قوت کا جواز پیش کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں