جمہوری نظام کی بنیاد آزادیٔ رائے اور ووٹرز کی خود مختاری پر ہے‘ یہی جمہوری نظام کاحسن ہے۔ ووٹر کے ذہن پر کسی قسم کی فکری قدغن یا سیاسی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی‘ ووٹر مکمل طور پر آزاد ہوتا ہے کہ اپنی مرضی‘ فہم اور قلبی میلان کے مطابق کسی بھی امیدوار یا سیاسی جماعت کو اپنا ووٹ دے۔ ووٹرز سے یہ نہیں پوچھا جا سکتا کہ وہ کس بنیاد پر کسی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایوان کے اندر لبرلز کے علاوہ قوم پرست جماعتوں اور مذہبی حلقوں کی نمائندگی موجود ہے۔ اس اصول کی بنیاد پر منتخب ہونے والی سیاسی جماعتیں یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ عوام کے دیے گئے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ عوام کی جانب سے ووٹ کی طاقت سے منتخب ہونے والا فرد یا جماعت اپنے ایجنڈے اور وژن کے مطابق حکومت کرنے کا آئینی حق رکھتے ہیں کیونکہ آئین ہی وہ بنیادی دستاویز ہے جو اقتدار کی منتقلی‘ حکومتی ڈھانچے اور منتخب حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کا مکمل طریقہ کار واضح کرتا ہے۔ آئین ہی ریاست کے اداروں اور افراد کو ایک لائحہ عمل فراہم کرتا ہے۔ اگر ملک میں آئین کی پاسداری کی جائے اور اس میں موجود طریقہ کار پر عمل کیا جائے تو سیاسی یا ریاستی بحران پیدا ہونے کا امکان نہیں۔ مسائل اس وقت سر اٹھاتے ہیں جب کسی فریق کی جانب سے آئین سے روگردانی کی جاتی ہے‘ اس کی تشریح اپنے مفادات کے مطابق کی جاتی ہے یا ریاستی معاملات کو غیر آئینی طریقوں سے چلانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ جس کے نتیجے میں عوامی اعتماد میں کمی آتی ہے اور سیاسی استحکام کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سیاسی بیانیے کی تشکیل میں اب سوشل میڈیا کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس بریفنگ کے تناظر میں جو نئی بحث چھڑی ہے وہ سوشل میڈیا پر زور پکڑ گئی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اس پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ خان صاحب کی سیاست ختم ہو چکی ہے‘ مقتدر حلقے بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی بدولت خان صاحب کی سیاست نہ صرف زندہ اور فعال ہے بلکہ نوجوان حلقوں میں خاص طور پر ان کی مقبولیت برقرار ہے۔ پی ٹی آئی اس وقت بلاشبہ غیرمعمولی سیاسی مشکلات کا شکار ہے‘ اس کے لیے سڑکوں پر نکل کر بڑے عوامی احتجاج کا انعقاد کرنا آسان نہیں ‘ پارٹی کی ایوان کی سیاسی سرگرمیاں بھی محدود ہو چکی ہیں‘ خیبرپختونخوا حکومت بھی پارٹی کو گرداب سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی‘ اسی طرح متبادل قیادت اب تک کوئی بڑا سیاسی کمال دکھانے سے قاصر رہی ہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود پارٹی بیانیہ نوجوانوں میں مقبول ہے‘ تو اس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہے۔ سوشل میڈیا کے سیاسی اُفق پر نمودار ہونے کے بعد سیاست کا پورا خاکہ اور رائے عامہ تک رسائی کا طریقہ کار یکسر بدل گیا ہے۔ ماضی میں وہی لیڈر عوام میں مقبولیت حاصل کرتا تھا جو اپنے ووٹرز سے تعلق واسطہ قائم رکھتا تھا‘ جس کے ڈیرے اور حجرے عوام کے لیے کھلے رہتے تھے۔ ایسی مثالیں بھی دیکھنے کو ملیں کہ عوامی نمائندہ اپنے حلقے کے کسی جنازے میں شریک نہیں ہوا تو لوگوں نے اس سے تعلق ختم کر لیا۔ لیکن اب رجحان تبدیل ہو چکا ہے‘ جو لیڈر سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ فعال اور اپنے حامیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے وہی عوام کی نظروں میں مقبول ٹھہرتا ہے۔ ڈیجیٹل موجودگی اب فزیکل موجودگی سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔
پی ٹی آئی کو اس ضمن میں سبقت حاصل ہے کہ وہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے پہلے سوشل میڈیا پر منظم طریقے سے موجود تھی اور اسے ایک مؤثر سیاسی ٹُول کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔ خان صاحب اگرچہ پچھلے کچھ عرصے سے منظر سے غائب ہیں لیکن ان کا سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اکاؤنٹ تواتر کے ساتھ چل رہا ہے‘ جہاں سے ان کے چاہنے والوں کو نظریاتی رہنمائی ملتی رہتی ہے۔ یہی مسلسل ڈیجیٹل رابطہ ان کی مقبولیت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس دیگر سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے میدان میں بہت دیر سے داخل ہوئیں اور انہوں نے اسے پی ٹی آئی کے مقابلے میں یا محض ضرورت کے تحت اختیار کیا۔ جب تک دیگر سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا کا استعمال شروع کیا تب تک پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر اپنا مضبوط قلعہ قائم کر چکی تھی۔ دوسری جماعتوں نے اگرچہ یہ بیانیہ اپنایا کہ پی ٹی آئی کا اندازِ سیاست معاشرے میں گالم گلوچ کو کلچر فروغ دے رہا ہے اور انہوں نے اس کے مقابلے میں مہذب اور شائستگی کی بات کی‘ جو بظاہر پُرکشش لگتی ہے‘ تاہم سوشل میڈیا پر موجود صارفین کی اکثریت نے اسے قبولیت نہیں دی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کامزاج اکثر جذباتی‘ جوابی اور مزاحمتی ہوتا ہے‘ جہاں سادہ اور شائستہ بیانیہ بعض اوقات شدید اور مزاحمتی بیانیے کے مقابلے میں کم مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ خان صاحب کے زیادہ تر حامی نوجوان ہیں‘ یہ تعداد دوسری کسی بھی جماعت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ نوجوان طبقے میں پایا جانے والا سیاسی محرومی اور نظام سے عدم اطمینان کا احساس مزاحمتی بیانیے کو زیادہ قبولیت دیتا ہے۔ خان صاحب نے نوجوانوں کو جو خواب دکھائے تھے نوجوان سمجھتے ہیں کہ وہ پورے ہونے ہی والے تھے کہ ان کے پسندیدہ لیڈر کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ یہ وہ بنیادی عوامل ہیں جن کی وجہ سے خان صاحب نوجوانوں میں مقبول ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود ان کی سیاست زندہ ہے۔
آپ تحریک انصاف کے مزاحمتی بیانیے اور جذباتی طرزِ سیاست سے لاکھ اختلاف کریں‘ آپ لاکھ شائستگی اور اخلاقیات کی بات کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا جو مزاج ہے پی ٹی آئی اس پر ہر اعتبار سے پورا اترتی ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک سوشل میڈیا اور اس کی رسائی موجود ہے پی ٹی آئی کی سیاسی قوت کو مکمل طور پر ختم کرنا آسان نہیں ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاسی قوت کا مکمل انحصار صرف سوشل میڈیا پر ہو جانا ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ پی ٹی آئی کے موجودہ حالات کو اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس کی مکمل سیاسی قوت سوشل میڈیا تک سکڑ کر رہ گئی ہے۔ ایوان سیاخراج‘ اقتدار سے محرومی اور بڑے احتجاج کے منصوبے کو عملی شکل نہ دینے کے باوجود اگر پارٹی صرف سوشل میڈیا پرموجودگی کو ہی اپنی کامیابی اور بقا سمجھ رہی ہے تو یہ تلخ حقیقت اس کے سیاسی سفر کے عروج اور زوال کے درمیان ایک واضح فرق دکھاتی ہے۔ کہاں وہ وسیع عوامی طاقت اور کہاں یہ صرف ڈیجیٹل دنیا میں سمٹ کر رہ جانا۔ مین سٹریم سیاسی جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ڈیجیٹل میدان کے ساتھ ساتھ پارلیمانی سیاست میں بھی فعال ہو کر عوام کے مسائل کو حل کرے۔ صرف سوشل میڈیا پر مبنی سیاست طویل مدتی سیاسی حکمت عملی کے لیے ہمیشہ پائیدار ثابت نہیں ہو سکتی۔