"RS" (space) message & send to 7575

نواز شریف کی رنجیدگی اور پی ٹی آئی کے زخم

میاں نواز شریف بلاشبہ پاکستان کے ممتاز ترین سیاسی رہنماہیں۔ وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں تین بار ملک کے وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بانی ہونے کے ناتے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کی وجہ سے ان کا سینہ ملکی رازوں اور حساس معلومات کا گنجینہ ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے وہ سیاسی خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے اور بظاہر ایسا لگتا تھا کہ وہ ملک کے سیاسی حالات سے دل گرفتہ ہیں۔ 2017ء میں جب انہیں اقامہ کیس میں سزا دی گئی اور وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار پائے تو ان کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ مجھے کیوں نکالا؟ اس وقت چونکہ سیاسی فضا اور ریاستی طاقت ان کے مخالف سمت تھی اس لیے ان کے اس سوال کا مذاق اڑایا گیا۔ تاہم آج جب انہیں اقتدار سے باہر کرنے والے تمام چہرے پس پردہ چلے گئے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کو ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد سیاسی قوت حاصل ہوئی ہے تو نواز شریف نے ایک بار پھر وہی سوال دوسرے انداز میں اٹھایا ہے۔ ان کے لہجے میں ماضی کے شکوے اور شدید رنجش شامل ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کا خطاب ملکی معیشت کو پہنچائے گئے نقصان کو اجاگر کرتا ہے۔ ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ 2018ء کی سیاسی انجینئرنگ محض ایک انتخابی ہار جیت کا معاملہ نہ تھی بلکہ قومی ترقی کے سفر پر ایک کاری ضرب تھی۔ وہ اپنے دورِ اقتدار کی اقتصادی ترقی کو یاد دلاتے ہیں جہاں جی ڈی پی کی بلند شرح اور مہنگائی پر کنٹرول ملک کو استحکام کی شاہراہ پر گامزن کر چکا تھا۔پاکستان کا مالی بحران صرف ایک حکومت کی ناکامی نہیں بلکہ ان پالیسیوں کے عدم تسلسل کا نتیجہ ہے جن کا آغاز 2018ء میں سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے ہوا۔ نواز شریف کا اپنے دور میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی طویل فہرست پیش کرنا اور اس کا پی ٹی آئی دور سے موازنہ ووٹرز کے سامنے یہ واضح کرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ کارکردگی وہ سرمایہ اعتبار ہے جس کی بنیاد پر عوام نے انہیں دوبارہ ووٹ دیا۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کو وفاق میں سادہ اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ نواز شریف کے سیاسی میدان میں دوبارہ متحرک ہونے کی اہم وجہ بھی یہی ہے کیونکہ نواز شریف نے الیکشن 2024ء میں توقع کے مطابق نشستیں حاصل نہ ہونے کے بعد خاموشی اختیار کی۔ ان کی یہ خوبی ہے کہ وہ مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں‘ اس کیلئے انہیں چاہے جتنا بھی انتظار کرنا پڑے‘ دراصل یہی سیاسی بصیرت ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومتیں اگرچہ روزِ اول سے ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں مگر میاں صاحب نے اس حوالے سے کھل کر اظہار اس وقت کیا جب انہیں تسلی ہو گئی کہ وفاقی اور پنجاب حکومتیں واقعی عوام کیلئے کچھ کر چکی ہیں۔ سیاست کے طالب علموں کیلئے نواز شریف کے طرز سیاست میں سمجھنے کیلئے بہت کچھ ہے۔جونہی پارٹی بحران سے نکل کرمستحکم ہوئی‘ ان کی زبان پر سب سے پہلے 2018ء میں مینڈیٹ چرائے جانے کا شکوہ آیا۔ انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ جو لوگ عمران خان کو اقتدار میں لے کر آئے تھے ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے والے کون لوگ تھے‘ اسے سمجھنے کیلئے افلاطون کی عقل کی ضرورت نہیں۔ یہاں یہ فرق کرنا لازمی ہے کہ نو مئی کو قومی تنصیبات پر حملوں اور اس کے منصوبہ سازوں کو سزائیں سنانا قانونی دائرہ کار میں آتا ہے جبکہ نواز شریف کا مطالبہ سیاسی مداخلت کے اصول کے احتساب سے متعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ احتساب کا آہنگ محض ایک سیاسی خواہش بن کر رہ جائے گا یا آئینی حدود کے احترام کی بنیاد بنے گا؟ یہ مطالبہ طاقت کے استعمال میں شفافیت اور آئینی عمل کی بالادستی کی جدوجہد کا عکاس ہے۔ نواز شریف کے خطاب سے مستقبل کی سیاسی ترجیحات کا نقشہ بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
اس وقت پاکستان کو درپیش سرفہرست دو چیلنجز ہیں۔ معیشت کی بحالی اور سکیورٹی معاملات۔ ان چیلنجز کے سامنے سیاسی معاملات فی الوقت ثانوی حیثیت اختیار کر جائیں گے۔ وہ حکومت یا سیاسی جماعت جو اِن ناگزیر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اور عملی حل پیش کرے گی وہی عوام کی نظروں میں مقبولیت کا تاج پہنے گی۔نواز شریف کا معاشی بہتری کی نوید سنانا خوش آئند ہے لیکن معاشی بہتری تبھی برقرار رہ سکتی ہے جب ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہو گی۔ یہ بیان اقتصادی ترقی اور داخلی سکیورٹی کے درمیان لازم و ملزوم تعلق کو ظاہر کرتا ہے‘ لہٰذا آنے والے دنوں میں سکیورٹی ادارے اور حکومت کا ''ایک پیج پر ہونا‘‘ قومی ضرورت بن جائے گا۔ اندرونی خلفشار ملک کے لیے ناقابل برداشت ہے اس اعتبار سے موجودہ سیٹ اپ سے ہٹ کر کسی بھی قسم کی غیر معمولی منصوبہ بندی ملک کو مزید مشکلات اور عدم استحکام سے دوچار کر سکتی ہے۔
اس سیاسی منظرنامے میں پیپلز پارٹی کا کردار نہایت دانشمندی اور تدبر کا مظہر ہے۔ ایک صوبے کی حکومت‘ صدر کا عہدہ اور حکومت میں وزارتیں قبول کرنے کی بازگشت یہ ظاہر کرتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سیاسی موقع شناسی کو بخوبی جانتی ہے۔ وہ طاقت کے کارڈز کو کب اور کیسے استعمال کرنا ہے‘ اس حکمت عملی سے واقف ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی حکومت کا باقاعدہ طور پر حصہ بننے پر آمادہ ہو جاتی ہے تو موجودہ سیٹ اپ کو مضبوط سیاسی بنیاد اور استحکام حاصل ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ پی ٹی آئی نے عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو کچھ ہاتھ میں تھا وہ بھی گنوا دیا۔ ذرا تصور کریں جب نو مئی کے ناخوشگوار واقعات نہیں ہوئے تھے تو پی ٹی آئی کس قدر مضبوط تھی‘ خان صاحب پورے ملک کو بند کرنے کی دھمکی دیتے تھے اور آج صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی احتجاج کی کال دیتی ہے مگر کارکنان کی خاطرخواہ تعداد احتجاج کیلئے باہر نکلنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ سیاست میں انتظار کرنا اور موقع کے مطابق فیصلہ کرنا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بسا اوقات برسوں تک بھی انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ نواز شریف کو خاندان سمیت پرویز مشرف نے جلا وطن کر دیا تھا تو کہا جا رہا تھا کہ شریف خاندان کی سیاست ختم ہو گئی ہے مگر نہ صرف وہ واپس آئے بلکہ اس کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ آج ان کے بھائی شہباز شریف وزیر اعظم ہیں ان کی صاحبزادی مریم نواز سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں۔ یہ لمحوں میں ممکن نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے مشکلات کی طویل داستان ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نسبت پی ٹی آئی قیادت پر تو ایسا وقت نہیں آیا نہ ہی قیادت کو خاندان سمیت ملک بدر ہونا پڑا۔ قیادت ملک میں موجود ہے اور ان کی ایک صوبے میں حکومت بھی ہے‘ سیاست میں اس سے بہتر موقع کیا ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت مواقع سے فائدہ کیوں نہ اٹھا سکی‘یہ انہیں سوچنا چاہیے۔
نواز شریف ماضی کے حریفوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے اور چلانے کے لیے تیار ہیں لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے دیے گئے زخم کو بھلانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی یہ رنجیدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی مداخلت اور انتقام کی سیاست نے ان کے دل پر گہرے نشان چھوڑے ہیں۔یہاں سے پاکستان کی آئندہ سیاست کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ایک طرف معاشی اور سکیورٹی چیلنجز ہیں جو حکومت اور اداروں سے مکمل ہم آہنگی اور یکجہتی کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف جمہوری اصولوں کی بالادستی کا مطالبہ ہے جو ماضی کی غلطیوں کے احتساب سے مشروط ہے۔ نواز شریف کا بیانیہ اس پیچیدہ دو راہے پر ملک کو ایک فیصلہ کن موڑ پر لا کھڑا کرتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں