"RS" (space) message & send to 7575

غزہ فورس اور عالمی سطح پر تنہا ہوتا افغانستان

اقوام متحدہ کے امن دستے ایسے جنگ زدہ یا سنگین تنازعات کا شکار ممالک میں تعینات کیے جاتے ہیں جہاں امن و سلامتی کو بحال کرنے اور شہریوں کی حفاظت کی ضرورت ہو۔ یہ دستے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد بھیجے جاتے ہیں تاکہ جنگ بندی کی نگرانی کی جا سکے اور سیاسی استحکام لایا جا سکے۔ ان دستوں میں شامل ہونے والے فوجی‘ پولیس اور سویلین اہلکار کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ دنیا بھر کے مختلف رکن ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ نیپال اور روانڈا جیسے ممالک اہلکاروں کی سب سے بڑی تعداد فراہم کرتے ہیں۔ امن فورس کا حصہ بننے کے لیے رکن ممالک کو رضاکارانہ طور پر اپنے ایسے اہلکار فراہم کرنے ہوتے ہیں جو اعلیٰ پیشہ ورانہ تربیت‘ ضروری مہارتوں اور اقوام متحدہ کے اخلاقی ضوابط اور بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرتے ہوں۔ یہ کرائٹیریا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تعینات کیے گئے دستے مؤثر طریقے سے اور غیر جانبداری سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ اس ضمن میں غزہ میں امریکہ کی ثالثی سے مجوزہ امن معاہدے کے تحت انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس کا قیام ایک اہم اور پیچیدہ جزو ہے۔ یہ فورس‘ جس میں بنیادی طور پر مسلم اکثریتی ممالک کی افواج شامل ہوں گی‘ جنگ بندی کو مستحکم کرنے‘ انسانی امداد کی مؤثر ترسیل اور غزہ کے انتظامی ڈھانچے کے فوری استحکام میں مدد دینے کے لیے تجویز کی گئی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کی ایک قائم شدہ اور وسیع تجربہ کار امن فورس کے موجود ہونے کے باوجود ایک نئی بین الاقوامی فورس کی ضرورت نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ غزہ میں اقوام متحدہ کے امن مشن کو کیوں نہ بھیجا گیا‘ جس پر عمومی طور پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا اور جسے بین الاقوامی قانونی جواز بھی حاصل ہوتا۔ نئی فورس کا قیام خاص طور پر اسرائیل کے ممکنہ سکیورٹی ایجنڈے کے تناظر میں اس کے مینڈیٹ اور مستقبل کے کردار پر تشویش پیدا کرتا ہے۔
پاکستان دنیا میں اقوام متحدہ کی امن فورس کو سب سے زیادہ اہلکار فراہم کرنے والے ممالک میں شامل رہا ہے۔ پاکستان نے غزہ میں مجوزہ انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس کا حصہ بننے کی مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان اس فورس میں شرکت کیلئے تیار ہے‘ لیکن یہ شرکت حماس کو غیر مسلح کرنے یا فلسطینی مزاحمتی ڈھانچے کو کمزور کرنے کا حصہ نہیں بنے گی۔ یہ مؤقف فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ان کی جائز مزاحمت کی حمایت کی پاکستانی پالیسی کے عین مطابق ہے۔ سب سے اہم شرط یہ ہے کہ امن فوج کی تعیناتی کے منصوبے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لازمی طور پر منظوری حاصل ہونی چاہیے۔ فیلڈ مارشل سے مشاورت کے بعد وزیراعظم نے بھی اصولی طور پر فوج بھیجنے کا مشروط اعلان کیا ہے کہ جب تک فورس کے اختیارات اور مقاصد اور مینڈیٹ کا باضابطہ فیصلہ نہیں ہو جاتا‘ پاکستان کی طرف سے فوج بھیجنے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کا یہ مؤقف نہ صرف اپنی خودمختار پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی قانون اور انصاف کے تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ سلامتی کونسل کی منظوری پر اصرار اس بات کی ضمانت ہے کہ فورس کو بین الاقوامی قانونی جواز حاصل ہو اور یہ کسی ایک فریق کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں آزاد‘ غیر جانبدار اور اقوام متحدہ کے طے شدہ مقاصد کے تحت کام کرے۔ ملائیشیا کی طرف سے پاکستان کے اس مؤقف کی حمایت نے مسلم اُمہ میں اصولی ہم آہنگی کو تقویت دی ہے۔ پاکستان کی شرط یہ یقینی بناتی ہے کہ انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس محض ایک سکیورٹی آلہ نہ بنے بلکہ وہ ایک جامع اور پائیدار امن کی بنیاد رکھے جس میں فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ سب سے مقدم ہو۔
دوسری طرف افغانستان کی سرزمین سے جنم لینے والے دہشت گردی کے خطرات اب صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے بلکہ یہ عالمی چیلنج کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان‘ جو کئی دہائیوں سے اس عدم استحکام کا سب سے بڑا شکار رہا ہے‘ اب ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں ہمارا مؤقف دنیا کے دیگر ممالک کے تحفظات سے ہم آہنگ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے حالیہ بیانات نے پاکستان کے اس عسکری عزم کو اجاگر کیا کہ پاکستان نے افغانستان کے خلاف ''آپریشن کلین اَپ‘‘ کی تقریباً تمام تیاریاں مکمل کر لی تھیں مگر قطر کی درخواست پر فوری طور پر اسے روک دیا گیا۔ یہ اقدام پاکستان کی جانب سے ''بھائی کے گھر‘‘ کے اندر گھس کر کارروائی کرنے سے گریز اور تعلقات کو کشیدگی سے بچانے کی انتہائی کوشش کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈار صاحب کا یہ کہنا کہ اگر ہم انڈیا کو سبق سکھا سکتے ہیں تو ان عناصر کو نکالنا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ پاکستان کی عسکری صلاحیت اور عزم کا دوٹوک اظہار ہے‘ مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتا ہے کہ پاکستان کا ترجیحی راستہ تصادم نہیں بلکہ پُرامن حل ہے۔ افغان طالبان کی موجودہ قیادت کی خام خیالی ہے کہ وہ دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکامی کے باوجود چیزیں ٹھیک کر لیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ ناکامی اب عالمی سطح پر نتائج پیدا کر رہی ہے۔ تاجکستان میں چینی کمپنی کے کیمپ پر دہشت گردوں کے حملے میں چینی باشندے ہلاک ہوئے اور واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈ پر افغان شہریوں کی فائرنگ کے واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ خطرہ جغرافیائی سرحدوں کا پابند نہیں رہا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سابق صدر جو بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بنانا اور مغربی تہذیب سے مطابقت نہ رکھنے والے تارکین وطن کی شہریت منسوخ کرنے کا اعلان دراصل ایک بین الاقوامی ردِعمل کی علامت ہے جو افغانستان کے غیر منظم انخلاکے بعد پیدا ہونے والے سکیورٹی خلاکا نتیجہ ہے۔
افغانستان کے چھ پڑوسی ممالک میں سے چار ممالک یعنی پاکستان‘ چین‘ ایران اور تاجکستان کو اب یہ سنگین تحفظات ہیں کہ افغان سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ پہلے یہ صرف پاکستان کا شکوہ تھا لیکن اب چین اور ایران جیسے طاقتور علاقائی اور عالمی ممالک بھی پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر تاجکستان میں حملے کے تانے بانے بھارت کے ساتھ ملنے کا شبہ سینٹرل ایشیا میں چینی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کو ظاہر کرتا ہے جو اس خطرے کی کثیر الجہتی نوعیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ افغانستان کے گرد عالمی گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور اس کی عالمی تنہائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال اس لیے زیادہ سنگین ہے کہ افغانستان میں موجود قیادت بظاہر کئی گروہوں میں بٹ چکی ہے اور نوے کی دہائی کی طرح ریاستی رِٹ قائم کرنے میں ناکام ہے اور حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ افغان سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ کے ہونے کے باوجود ہر گروپ کی من مانی سے ریاست کا کنٹرول کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ماضی میں جب افغانستان کو عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا تو پاکستان‘ قطر اور ترکیہ جیسے بااثر مسلم ممالک عالمی سطح پر اس کا مقدمہ لڑتے رہے تھے تاہم اس بار صورتحال بالکل مختلف ہے۔ افغانستان کی موجودہ قیادت کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے اب یہ ممالک بھی افغان طالبان سے کھلے عام اختلاف کا اظہار کر رہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف سخت مؤقف اپنانے پر مجبور ہیں۔ عالمی دباؤ میں مسلمان ممالک کی شمولیت افغان قیادت کے لیے مشکلات کا باعث بنے گی۔ افغان قیادت کو اب مؤثر ریاستی رِٹ قائم کرنا ہو گی تاکہ وہ دنیا سے مکمل طور پر تنہا ہونے سے بچ سکیں۔ پاکستان کا دوٹوک مؤقف اور عسکری تیاری کا اعلان افغان قیادت کے لیے آخری وارننگ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر وہ اپنے بھائی چارے کے فرض کو نہیں پہچانیں گے تو پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں