جمہوریت محض سروں کو گننے کا نام نہیں بلکہ یہ عوامی امنگوں‘ زمینی حقائق اور کارکردگی کے ایک ایسے تسلسل کا نام ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت کی بقا کا ضامن ہوتا ہے۔ وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں ضمنی انتخابات عوامی رجحانات کو جانچنے کا مؤثر پیمانہ رہے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 13 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ملکی سیاست کے اُفق پر کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے اور کئی پرانے دعووں کو زمینی حقائق کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی اور پی ٹی آئی کی ناکامی نے اس بیانیے کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ ووٹروں کو ہمیشہ کیلئے محض جذباتی نعروں اور شخصیت پرستی کے زعم میں مبتلا رکھا جا سکتا ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کا اگر غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ عوامی جھکاؤ کس جانب ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 13حلقوں پر ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے مجموعی طور پر 12 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جن میں قومی اسمبلی کی تمام چھ نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی چھ نشستیں شامل ہیں‘ صرف مظفرگڑھ کی ایک صوبائی نشست پر پیپلز پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا ہے۔
ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کہاں کھڑی تھی‘ یہ اہم ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا قومی اسمبلی کی تمام نشستیں جیت لینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوام نے وفاقی سطح پر بیانیے کے بجائے کارکردگی اور استحکام کو ترجیح دی ہے۔ اس انتخابی عمل کا سب سے اہم اور چونکا دینے والا پہلو تحریک انصاف کی کارکردگی ہے۔ وہ جماعت جو گزشتہ کئی برسوں سے یہ دعویٰ کرتی آ رہی تھی کہ اس کا ووٹ بینک ناقابلِ تسخیر ہے اور عوام اس کے ہر فیصلے پر آنکھیں بند کر کے لبیک کہیں گے‘ حالیہ ضمنی انتخابات میں اپنی سیاسی ساکھ بچانے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ کسی ایک نشست پر بھی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کا کامیاب نہ ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ووٹ بینک کوئی جامد چیز نہیں۔ یہ ایک متحرک عمل ہے جو سیاسی جماعت کی کارکردگی‘ قیادت کے رویوں اور سیاسی حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت جس زعم میں مبتلا تھی کہ عوام ان کے احتجاجی بیانیے اور مظلومیت کے کارڈ پر ہمیشہ ووٹ دیں گے‘ ان کا دعویٰ زمینی حقائق تلے دب چکا ہے۔ عوام نے یہ پیغام دیا ہے کہ محض سوشل میڈیا پر مقبولیت اور جلسوں میں ہجوم اکٹھا کر لینا بیلٹ باکس میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اصل طاقت ان کا نظریاتی کارکن اور وہ عام ووٹر ہوتا ہے جو امید کی بنیاد پر ووٹ دیتا ہے لیکن پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے ووٹ بینک کو جمہوری طریقے سے محفوظ بنانے کے بجائے شارٹ کٹ کا راستہ اختیار کیا۔ جب کوئی سیاسی جماعت عوامی خدمت کے طویل اور کٹھن راستے کو چھوڑ کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے بیساکھیوں کی تلاش میں لگ جائے تو اس کا رابطہ عوام سے ٹوٹ جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے اقتدار سے محرومی کے بعد خود احتسابی کے بجائے مسلسل احتجاج اور محاذ آرائی کا راستہ اپنایا۔ قیادت یہ سمجھتی رہی کہ شاید ریاستی اداروں پر دباؤ ڈال کر یا ملک میں سیاسی انتشار کی فضا قائم کر کے وہ دوبارہ اقتدار حاصل کر لیں گے۔ اس عمل میں انہوں نے اپنے ووٹر کی سیاسی تربیت کرنے کے بجائے اسے ریاست کے خلاف کھڑا کر دیا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ طفل تسلیوں اور احتجاجی سیاست سے کچھ وقت کیلئے تو عوام کی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے مگر اسے مستقل بنیادوں پر برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ ضمنی الیکشن کے انتخابی نتائج اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں کہ محض سحر انگیز شخصیت اور جذباتی نعروں کی بنیاد پر طویل مدت ووٹ بینک محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔ جمہوری معاشروں میں ووٹر اور نمائندے کا رشتہ ایک سماجی معاہدے کی مانند ہوتا ہے‘ جہاں عوام شکل و صورت کے بجائے اپنے حقوق کے تحفظ‘ مہنگائی و بے روزگاری کے خاتمے اور علاقائی ترقی کی امید پر ووٹ دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا المیہ یہ رہا کہ انہوں نے عوامی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر ساری سیاسی طاقت لیڈر کی رہائی اور ذاتی انتقام پر مرکوز کر دی‘ جس سے ووٹر مایوس ہوا۔ نتیجتاً ضمنی انتخابات میں عوام نے احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے اس بیانیے کو ووٹ دیا جو تعمیر و ترقی کی ضمانت دے رہا تھا۔
جمہوریت میں اقتدار سے باہر ہونا سیاسی موت نہیں بلکہ عوام کے ساتھ رابطے کی بحالی کا سنہری موقع ہوتا ہے جس میں سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں کا جائزہ لیتی اور نچلی سطح پر تنظیم سازی کرتی ہیں لیکن پی ٹی آئی نے اس دور کو غنیمت جاننے کے بجائے وفاق کے ساتھ مخاصمت اور محاذ آرائی میں ضائع کر دیا اور خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت کی مثالی کارکردگی دکھا کر دیگر صوبوں کے ووٹرز کو متاثر کرنے میں ناکام رہی۔ جب کسی جماعت کا واحد ایجنڈا سیاسی انتشار بن جائے تو سنجیدہ ووٹر اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے‘ ضمنی الیکشن میں شکست دراصل اسی ٹکراؤ والی حکمت عملی کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت کے زوال کی ایک بڑی وجہ اس کی متبادل قیادت کی کمزور حکمت عملی ہے۔ قیادت کو اس بات کا گہرائی میں جائزہ لینے کی ضرورت تھی کہ نو مئی کے سانحات کے بعد پارٹی کہاں کھڑی ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ متبادل قیادت بھی اس پرانی احتجاجی سوچ کے خول سے باہر نہیں نکل پائی۔
ایک طرف جب مسلم لیگ (ن) اپنی انتخابی کامیابیوں کا جشن منا رہی ہے عین اسی وقت پی ٹی آئی نے گزشتہ سال کے واقعات پر ''یوم سیاہ‘‘ منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پارٹی ابھی تک ماضی کی اسیر اور مستقبل کی طرف دیکھنے سے قاصر ہے۔ خیبرپختونخوا کی قیادت کا رویہ بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کا صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں تصادم کا اشارہ دینا اور یہ کہنا کہ وہ ایک بڑا احتجاجی جلوس لے کر اسلام آباد جائیں گے اور سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی طرح میدان چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے‘ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ موجودہ وزیراعلیٰ تصادم میں اپنے پیش رو سے سبقت لے جانے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ وہ آج بھی اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں وہ چند برس پہلے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خیبرپختونخوا کے عوام نے انہیں مینڈیٹ اس لیے دیا تھا کہ وہ اسلام آباد پر چڑھائی کریں یا اس لیے کہ وہ صوبے کے مسائل حل کریں؟ جب صوبے کے وسائل وفاق کے خلاف جنگ میں جھونک دیے جائیں گے تو عوام مایوسی کے گہرے گڑھوں میں گریں گے اور یہ مایوسی بالآخر ووٹ بینک کے خاتمے پر منتج ہو گی۔
جن لوگوں نے پی ٹی آئی کو صوبے کی تعمیر و ترقی اور حقیقی آزادی کے نام پر ووٹ دیا تھا‘ کیا انہیں مسلسل تصادم اور مایوسی کی نذر کرکے پارٹی اپنی مقبولیت قائم رکھ سکے گی؟ جواب نوشتہ دیوار ہے‘ کیونکہ کوئی بھی سیاسی بیانیہ عوامی خدمت‘ روزگار اور امن سے زیادہ طاقتور نہیں ہوتا۔ اگر پی ٹی آئی قیادت نے محاذ آرائی کی حکمت عملی پر اصرار جاری رکھا اور گورننس کو نظرانداز کیا تو ضمنی انتخابات کا یہ نتیجہ بڑے پیمانے پر عوامی انحراف اور آئندہ الیکشن میں سیاسی تنہائی کی علامت بن جائے گا۔