یہ خیال کیا ہے؟ یہی کہ جمہوریت کے مسلمہ اصولوں کی اہمیت اپنی جگہ اورانتخابات کی اہمیت بھی اپنی جگہ لیکن جمہوریت اُس حد تک ہی اچھی کہ اس کے نتائج ہمار ی مرضی کے ہوں۔ جنرل ضیاالحق تو برملا کہتے تھے کہ انتخابات ضرور ہونے چاہئیں لیکن ان کے نتائج'مثبت‘ہوں۔ بات البتہ جنرل ضیاالحق سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ فلسفۂ فارم 47ہمارے قومی وجود کا اٹل حصہ ہے۔ انگریزوں کی عطا کردہ جمہوریت کے تقاضے مسلمانانِ ہند کے سامنے آئے تو قائدینِ ملت کے دلوں میں ایک دھڑکا پیدا ہوا کہ ہندوستان میں جمہوریت آئی تو ہم مارے جائیں گے کیونکہ عددی اکثریت ہندوؤں کی ہوگی۔ اسی ڈر سے قائدینِ ملتِ اسلامیہ نے جداگانہ طرزِ انتخابات کا نعرہ لگایا۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ کھلے انتخابی میدان میں شاید ہم اپنا لوہا نہ منوا سکیں اس لیے مسلمان ووٹوں سے ہی مسلمان نمائندے منتخب ہوں۔ انگریز حاکم تھے‘ حاکم جس رنگ و نسل کا بھی ہو divide and rule یعنی تقسیم اور حکمرانی پر یقین رکھتا ہے۔ جداگانہ طرزِ انتخابات کا مطالبہ مان لیا گیا اور ہندوستان کی مجموعی سیاست میں ایک نہ مٹنے والی لکیر کھینچ دی گئی۔
ملت کی سوچ کا یہ دلچسپ پہلو نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ شمشیر کی طاقت کو مسلمانانِ ہند نے ہمیشہ تسلیم کیا اور کبھی نہ سوچا کہ بازوئے شمشیر سے جو حکمرانی حاصل ہوئی ہے اُس میں ہندو اکثریت کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہونا چاہیے۔ لیکن انگریزوں نے جب ہندوستان کی تمام قوموں کو جمہوریت کے پرائمری سکول میں داخل کیا تومسلمانانِ ہند کو وہ دھڑکا لگنے لگا جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ خیر بہت سے نشیب و فراز طے کرتے ہوئے 1947ء کا سورج طلوع ہوا اور ہندوستا ن کا بٹوارا ہو گیا۔ ہندوستا ن کو آزادی ملی‘ ہمیں ایک نیا ملک ملا۔ جب تک انگریز تھے ہماری سیاست کا محور ہندو رہے۔ جب انگریزوں نے ہندوستان کو خیرباد کہا تب ہم میں کچھ اعتماد پیدا ہونا چاہیے تھا اور اپنی مرضی کی جمہوریت سے چھٹکارا پانا چاہیے تھا۔ ہمارا بیر توہندوؤں سے تھا‘ انہیں اپنا ملک ملا‘ ہمیں اپنا۔ لیکن ایسا ہونے کے بعد بھی ہمارے وجود میں پتا نہیں کون سی خلش تھی جس نے ہمیں مجبور کیے رکھا کہ جمہوری اصولوں کا کھلواڑ کرتے رہیں۔
سال دو سال کے عرصے میں ہندوستان نے اپنا آئین بنا لیا ہم سے آئین نہ بنا اور نئی ریاست کے مقاصد ہی ہم بیان کرتے رہے۔ ہندوستان میں انتخابات منعقد کیے جاتے رہے اور اُن کے نتائج میں جو حکومتیں بنیں وہ معاملاتِ ریاست چلاتی رہیں۔ ہم سے ایسا نہ ہوا۔ مثبت نتائج کی تمنا تو شاید پالتے رہے لیکن مثبت رویے پاکستانی سیاست سے نہ اپنائے گئے۔ آئین نہ بن سکا‘ سیاسی سازشوں کے نتیجے میں حکومتوں کی چھٹی کرائی گئی۔ 1951ء میں پنجاب میں صوبائی انتخاب ہوا لیکن دو سال میں لاہور میں سخت ہنگامے ہوئے‘ شہر میں وقتی مارشل لاء لگا اور حکومت کی چھٹی کرا دی گئی۔ 1954ء میں مشرقی پاکستان میں انتخاب ہوا لیکن ہماری مرضی کے نتائج نہ تھے تو جلد ہی حکومت کی چھٹی کرا دی گئی۔ ریاست کے جوکرتا دھرتے تھے ہر جگہ اُنہوں نے اپنی من مانی کی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جن کے پاس اصل طاقت تھی 1958ء میں اُنہوں نے عنانِ اقتدار سنبھال لیا۔ یہ جو آئے انہوں نے صاف کہا کہ جمہوریت ہمارے قومی مزاج کے مطابق نہیں۔ اس سوچ کا مطلب یہ تھا کہ قوم بس ڈنڈے سے ہانکے جانے کے قابل ہے اور پھر دس سال ڈنڈے کے استعمال سے ہی معاملات چلائے گئے۔ سیاسی نظام تو ایسا دیا جو فارم 47کی نچوڑ کے عین مطابق تھا۔ ایک آدمی ایک ووٹ کا تصور دفنا دیا گیا‘ 40ہزار کونسلر مشرقی پاکستان سے منتخب ہوئے اور اتنی ہی تعداد مغربی پاکستان سے۔ ووٹ کا حق انہی چودھریوں کے پاس تھا‘ باقی قوم کو ووٹ کے حق کے قابل نہیں سمجھا گیا۔
مسئلہ صرف اتنا بنا کہ 1964ء کے صدارتی انتخاب میں قائداعظم کی ہمشیرہ مادرِ ملت اپوزیشن کی امیدوار بنیں اور گو اُس زمانے کے فلسفۂ فارم 47سے اُنہیں ہرایا گیا‘ زور اور جبر کی حکمرانی کو سخت نفسیاتی جھٹکا لگا۔ شاید اسی جھٹکے کا نتیجہ تھا کہ اپنی بہادری ثابت کرنے کیلئے تب کے حاکمِ مطلق‘ خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان‘ بغیر سوچے سمجھے ہندوستان سے جنگ کا آغازکر بیٹھے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ جنگیں شروع کرنا آسان ہوتا ہے ختم کرنا اتنا آسان نہیں۔ یہی ہوا‘ سترہ دن میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ہانپنے لگے اور ادھر اُدھر دیکھنے لگے کہ کوئی آئے اور ہمارے بیچ صلح کرائے۔ جنگ بندی تو ہو گئی لیکن پاکستان‘ جو تھوڑی بہت ترقی کی راہ پر چل رہا تھا‘ پٹڑی سے اُتر گیا اور سچ تو یہ ہے کہ اس کے بعد صحیح طور پرکبھی نہ سنبھل سکا۔ ہمارے المیوں یا یوں کہیے بیوقوفیوں کی فہرست لمبی ہے لیکن جن دو پنگوں نے ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا‘ ایک یہ جنگ‘ دوسرا نام نہاد افغان جہاد۔
بہرحال 1970ء میں فلسفۂ فارم 47نے ایک بار پھر ہمیں امتحان میں ڈالا۔ پاکستان کے پہلے عام انتخاب ہوئے لیکن حسبِ معمول یہاں کے کرتے دھرتوں کو نتائج پسند نہ آئے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے کلین سویپ کیا اور وہ ہم کیسے تسلیم کر سکتے تھے۔ بنگالی منتیں کرتے رہ گئے کہ اسمبلی کا اجلاس بلائیں لیکن جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی ملی بھگت سے اجلاس نہ بلایا گیا اور تشدد کے راستے کو ترجیح دی گئی۔ پھر جو ہوا ہماری تاریخ کا المناک حصہ ہے۔
کٹے ہوئے پاکستان کو نئے پاکستان کا نام دیا گیا اور اس کے سربراہ بھٹو ہو گئے۔ بڑی خوبیوں کے مالک تھے لیکن دائمی پاکستانی بیماری سے بچ نہ سکے کہ حکمرانی کرنی ہے تو ڈنڈے کے زور پر۔ مقبول عوامی لیڈر تھے لیکن خوامخواہ کی دشمنیاں بھی پالیں۔ 1977ء میں انتخابات کرائے تو وہی فارم 47والا پرانا فلسفہ سامنے رکھا۔ فضول کی دھاندلی نے احتجاج کی فضا پیدا کی۔ مذاکرات شروع ہوئے تو انہیں بے وجہ طول دیتے گئے اور آخرکار وہ ہوا جو پہلے بھی ہوتا رہا تھا کہ اصل طاقت والے اقتدار پر قابض ہو گئے۔ یہ آئے تو اعتقاد کا چورن قوم کو گیارہ سال کھلاتے رہے۔ ساتھ ہی قوم کو نام نہاد افغان جہاد کا تحفہ دے گئے‘ ایسا تحفہ جس سے آج تک جان نہیں چھڑائی جا سکی۔
اس سارے تناظر میں دیکھیں تو آج کے سارے جھمیلے کوئی عجوبہ نہیں‘ ہمارے قومی مزاج کے عین مطابق ہیں۔ زمانہ ضیاالحق کا ہوتا تو آئین کو پَرے دھکیل دیا جاتا اور حاکمِ وقت اپنی مرضی کرتے۔ لیکن ایک تو زمانہ بدل چکا ہے اور دوسرا قومی معیشت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے جس کی وجہ سے خزانہ خالی ہے۔ اس لیے آئین کو بادل نخوانستہ زندہ رکھنا پڑا ہے۔ زندہ رکھتے ہوئے انتخابات کرانے پڑے لیکن پھر وہی ہوا جو یہاں ہوتا آیا ہے۔ فلسفہ فارم 47ہی سکہ رائج الوقت ٹھہرا۔ پہلے بھی دھاندلی ہوتی تھی لیکن کسی نہ کسی حد تک شرم و حیا کے تقاضے سامنے رکھے جاتے تھے۔ اس بار کسی غیرضروری تردد میں پڑے بغیر فارم 47کی صحیح حکمرانی قائم کر دی گئی۔
اس روداد میں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ 2018ء میں بھی انتخابات کے حوالے سے مشقِ شہسواری ترک نہ کی گئی۔ مطلب یہ کہ سیاست میں ہم جو کرتے ہیں وہ ہمارے مزاج کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ یہ رویے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ جب ہمارے بڑوں نے جمہوری تقاضوں کو تسلیم نہیں کیا تو ہم کون ہوتے ہیں کہ ایسا کریں؟ لیکن یہ دلچسپ امر تو ملاحظہ ہو کہ جنرل قمرجاوید باجوہ‘ جو اپنے زمانے میں اتنے طاقتور کھلاڑی تھے‘ طاقت سے محروم ہوئے تو آج اُن کے چھوٹے بھائی انگلستان میں‘ جہاں پی آئی اے کی نوکری کرتے تھے‘ ایف اے کی جعلی ڈگری ثابت ہونے پر انہیں نوکری سے فارغ ہونا پڑا ہے۔مولا کے رنگ دیکھئے‘ باجوہ وہ ہوتے‘ جو تھے‘ توکسی میں اتنی ہمت ہوتی کہ بھائی صاحب پر انگلتی اٹھتی؟