تحریک انصاف ملک کی مقبول سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار ہے۔ اس دعوے کی صداقت کا اندازہ صوبوں میں قائم حکومتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے‘ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی جبکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے ؛چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی ایک صوبے تک محدود ہے۔خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کا یہ تیسرا دورِ حکومت ہے۔ اس طویل دورانیے کا تقاضا تو یہ تھا کہ پارٹی اس صوبے میں اس قدر مضبوط ہوتی کہ سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے وہاں سے اسے افرادی قوت دستیاب ہوتی ‘مگر خان صاحب کے جیل میں جانے کے بعد خیبر پختونخوا میں پارٹی کا ووٹ بینک تو ہے مگر اسے سنبھالنے والا کوئی نہیں ۔اس لیے خان صاحب کا سحر کم ہو رہا ہے۔ لوگ اب بھی خان صاحب کا دم بھرتے ہیں مگر صوبے میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات ان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں‘ جب خیبر پختونخوا میں روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے ناخوشگوار واقعات رونما ہو رہے ہوں‘ نوجوانوں کو سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کیلئے آمادہ کرنا آسان کام نہیں۔خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) ہیڈکوارٹرز غلنئی پر خود کش حملے کر کے دہشت گردوں نے اندر جانے کی کوشش کی مگر سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی سے چاروں حملہ آور مارے گئے۔ حملہ آور اپنے انجام کو تو پہنچ گئے مگر سکیورٹی فورسز اور شدت پسند عناصر کے درمیان چار سے پانچ گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا۔ایف سی ہیڈکوارٹرز غلنئی پر دہشتگردوں کا یہ دوسرا حملہ تھا ۔اس سے پہلے بھی سکیورٹی فورسز ایک حملہ ناکام بنا چکی ہیں۔ اسی طرح بنوں اور لکی مروت میں خفیہ اطلاعات پر سکیورٹی فورسز کے آپریشنز میں انتہائی مطلوب افراد کیفر کردار تک پہنچے۔ وادیٔ تیراہ اور پاک افغان سرحد سے متصل دیگر علاقوں میں بھی سکیورٹی فورسز کی مسلسل کارروائیاں جاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی قیادت کو اسلام آباد میں جلسہ کامیاب کرانے کیلئے نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کی قیادت نے جلسے کیلئے ہر رکن اسمبلی کو ایک ہزار افراد ساتھ لانے کا ٹاسک دیا ہے۔ اگر ہر رکن اسمبلی اپنا ہدف پورا کرتا ہے تو پچاس ہزار سے زیادہ افراد پختونخوا سے شرکت کرنے کا تخمینہ ہے۔ دوپہر کو پشاور سے روانگی کے بعد قافلے تین بجے تک صوابی پہنچیں گے جہاں سے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور قافلے کی قیادت کریں گے۔ پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت مل گئی ہے تاہم حفاظتی طور پر کرین اور رکاوٹیں ہٹانے والی مشینری بھی ہمراہ لائی جا رہی ہے تاکہ اس بار جلسہ کسی صورت کینسل نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا تخمینے کے مطابق لوگ اسلام آباد جلسے میں شامل ہوں گے؟ اگر پچاس ہزار سے زائد افراد خیبر پختونخوا سے شرکت کر رہے ہیں تو دیگر صوبوں سے کتنے افراد شریک ہوں گے؟ جس طرح خیبر پختونخوا کے ارکانِ اسمبلی کو ٹاسک دیا گیا ہے اسی طرح دیگر صوبوں کے اسمبلی ارکان کو کارکن لانے کا ٹاسک کیوں نہیں دیا گیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پختونخوا کے وسائل اور افرادی قوت سے میلہ سجانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں؟کیا پی ٹی آئی کو دیگر صوبوں سے افرادی قوت کا کندھا دستیاب نہیں؟
پی ٹی آئی قیادت کی توجہ مزاحمتی بیانیے اور احتجاجی سیاست پر مرکوز ہے۔ پی ٹی آئی کے جلسے سے ایک دن پہلے ختم نبوت کے موضوع پر ہونے والے دو جلسے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ عالمی مجلسِ تحفظِ ختم نبوت کے زیر اہتمام مینارِ پاکستان کے وسیع وعریض گراؤنڈ میں ہونے والی 'یوم الفتح گولڈن جوبلی ختم نبوت کانفرنس‘ میں بلاشبہ لوگوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔پورے ملک سے لوگ شریک ہوئے۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی شریک ہوئے۔ اسی طرح بریلوی مکتبہ فکر کے حضرات نے تحریک لبیک کے پلیٹ فارم سے لیاقت باغ راولپنڈی میں 'تاجدارِ ختم نبوت‘ کے موضوع پر جلسہ کیا ۔اس میں بھی بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ تحریک انصاف کا جلسہ ان جلسوں کے بعد ہو رہا ہے۔ سرکاری وسائل کا استعمال‘ سیاسی جماعت کی حمایت اور ایک وزیر اعلیٰ کی سرپرستی حاصل ہے‘ اس لیے افرادی قوت بھی زیادہ ہونی چاہیے۔ فرض کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی اسلام آباد میں بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کیا یہ جلسہ پارٹی کی ساکھ بحال کرنے کا باعث بن سکے گا؟ جب خان صاحب جیل سے باہر تھے تو انہوں نے پورے ملک میں بھرپور جلسے کیے‘ لوگوں کی بڑی تعداد ان جلسوں میں شریک ہوتی رہی مگر پارٹی مسائل کے گرداب میں دھنستی چلی گئی۔ اب جبکہ خان صاحب جلسے میں موجود نہیں ہوں گے تو افرادی قوت کا مظاہرہ کر کے یہ توقع کرنا کہ پارٹی کی ساکھ بحال ہو جائے گی شاید خود فریبی ہے۔ مقبولیت کے دعوؤں کی بجائے پی ٹی آئی کو سٹریٹجی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ مشکلات کسی بھی تحریک کا ناگزیر حصہ ہوتی ہیں۔ مشکلات سے نمٹنے کا طریقہ دراصل ہمارے کردار‘ شخصیت اور مستقبل کو متاثر کرتا ہے۔ کچھ لوگ مشکلات کو موقع سمجھ کر ان سے سبق سیکھتے ہیں اور کچھ مشکلات سے ڈر کر ان سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ مشکلات سے سبق نہ سیکھنے والے لوگ اکثر محدود سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کا ذہن ایک مخصوص خول میں بند ہو تا ہے اور وہ نئی چیزوں کو قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں‘ حالانکہ مشکل وقت کے تجربات ہمیں بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ اگر ہم مشکل حالات سے سبق نہیں سیکھتے تو ہم ان سے ڈرنے لگتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو محدود کر لیتے ہیں اور نئے چیلنجز کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ مشکلات سے سبق نہ سیکھنے والے لوگ اکثر دوسروں پر الزام لگاتے ہیں۔ وہ اپنی ناکامیوں کا الزام حالات یا قسمت پر ڈالتے ہیں۔ ان کا ذہن خود کو بہانے تلاش کرنے میں مصروف رکھتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے اور اپنی شخصیت میں بہتری نہیں لاتے۔ دیکھا جائے تو تحریک انصاف ایک ہی سٹریٹجی یعنی مزاحمی رویے اور احتجاجی سیاست سے باہر نکل کر سوچنے کیلئے تیار نہیں۔ مگر دو سال سے زائد عرصہ پر محیط اس احتجاجی سیاست سے کیا حاصل ہوا ؟ سیاست میں بروقت اختیار کی جانے والی حکمت عملی کی بہت اہمیت ہوتی ہے‘ اسے سمجھنے کیلئے بہترین مثال جنوری 2023ء میں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ تھا ۔الیکشن سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کرنے سے کتنا نقصان ہوا یہ تحریک انصاف کی قیادت بھی تسلیم کرتی ہے۔ پی ٹی آئی آج بھی حالات کی مخالف سمت کھڑی ہے۔ دہشت گردی اور معیشت قومی مسائل ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعت اور پختونخوا میں صوبائی حکومت ہونے کی ناتے پی ٹی آئی پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ اسے دہشت گردی اور معیشت پر کھل کر اپنے بیانیے کا اظہار کرنا چاہئے کیونکہ پی ٹی آئی کروڑوں لوگوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ اگر پی ٹی آئی مصلحت کا شکار رہی تو جس طرح پہلے بروقت فیصلہ نہ کرنے کے باعث نقصان اٹھایا‘ ایک بار پھر نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ مگر اب کی بار کا نقصان شدید ہو گا کیونکہ یہ سیاسی نقصان ہو گا ۔پختونخوا کے عوام بھی ریلیف چاہتے ہیں جس کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اگر صوبائی حکومت نے اس طرف توجہ نہ دی اور عوامی خدمت کے بجائے احتجاجی سیاست جاری رہی تو بہت جلد وہ دن بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے جب پی ٹی آئی کو پختونخوا کے عوام کی حمایت حاصل نہ رہے گی۔