"RS" (space) message & send to 7575

پاکستان کی انٹیلی جنس برتری

جدید دور میں ملک کی سکیورٹی اور بقا کیلئے انٹیلی جنس مہارت اور ٹیکنالوجی کی برتری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے سائبر‘ الیکٹرانک اور ہیومن انٹیلی جنس کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ اس مہارت کا بنیادی مقصد دشمنوں کے منصوبوں کو عملی شکل دینے سے پہلے ہی نہ صرف جان لینا ہے بلکہ انہیں بروقت اور مؤثر طریقے سے ناکام بنانا بھی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی جیسا کہ ڈیٹا مائننگ‘ مصنوعی ذہانت اور نگرانی کے جدید نظام کی مدد سے خفیہ پیغامات کو ڈی کوڈ کیا جاتا ہے‘ مختلف نیٹ ورکس کی مالیاتی سرگرمیوں کو ٹریک کیا جاتا ہے اور دہشت گرد گروہوں کے درمیان روابط کو بے نقاب کیا جاتا ہے۔ یہ برتری ملک کو صرف دفاعی پوزیشن پر نہیں رکھتی بلکہ اسے قبل از وقت کارروائی کی صلاحیت بھی فراہم کرتی ہے۔ انٹیلی جنس کی بنیاد پر دشمنوں کو اپنے منصوبوں کو حتمی شکل دینے سے پہلے ہی ان کے ٹھکانوں‘ سرغنوں اور عزائم سمیت گرفتار کر لیا جاتا ہے‘ جس سے نہ صرف قیمتی انسانی جانیں بچتی ہیں بلکہ ریاست کے وقت اور وسائل کا بھی تحفظ ہوتا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی انٹیلی جنس برتری کو مرکزی حیثیت دی ہے‘ جس کا مظاہرہ حالیہ واقعات میں واضح طور پر دیکھا گیا ہے۔ ملک کی سول اور عسکری قیادت نے یہ طے کر لیا ہے کہ اب دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت یا نرمی کا معاملہ نہیں ہوگا۔ یہ نیا قومی عزم صرف ایک مؤقف نہیں بلکہ سکیورٹی اداروں کی اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت اور جدید ٹیکنالوجی کے امتزاج کا عملی ثبوت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اگر یہ سخت اور دو ٹوک مؤقف ماضی میں اپنایا جاتا تو شاید آج ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا مگر اب نئی حکمت عملی صرف دفاعی نہیں بلکہ غیر لچکدار اور ٹھوس ہے جہاں سکیورٹی ادارے اپنی انٹیلی جنس کی بنیاد پر دہشت گرد عناصر کے سرغنہ تک رسائی حاصل کر رہے ہیں اور انہیں برق رفتاری سے کیفر کردار تک پہنچا رہے ہیں۔ یہ انٹیلی جنس کی برتری ہی ہے جس نے پاکستان کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ سرحد پار سے ہونے والی سازشوں‘ مقامی نیٹ ورکس کے تانے بانے اور دشمنوں کی سٹریٹجک منصوبہ بندی کو بروقت ناکام بنا کر عالمی برادری کو یہ پیغام دے سکے کہ پاکستان کسی بھی قیمت پر اپنی سرزمین کو دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دے گا اور ملک کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
دہشت گردی کے خلاف اس نئی حکمت عملی کا کامیاب مظاہرہ وانا کیڈٹ کالج پر حالیہ حملے کی ناکامی سے ہوا‘ جب 11اور 12نومبر کو اسلام آباد میں بین الپارلیمانی سپیکرز کانفرنس اور آئینی ترمیم کیلئے اہم اجلاس جاری تھے‘ شدت پسند عناصر نے وانا کیڈٹ کالج پر حملہ کرکے اے پی ایس پشاور جیسے ہولناک سانحے کو دہرانے کی سازش کی۔ کالج میں موجود 525کیڈٹس‘ اور عملے اور اساتذہ سمیت تقریباً 650افراد کی جانیں خطرے میں تھیں مگر سکیورٹی فورسز نے بے مثال جانفشانی اور آپریشنل مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف تمام طلبا اور اساتذہ کو بحفاظت نکال لیا بلکہ تمام خوارج کو بھی ہلاک کرکے دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو ناکام بنا دیا۔ اس کامیاب آپریشن کے بعد سکیورٹی اداروں نے جدید ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس کی مدد سے بہت ہی کم وقت میں حملہ آوروں کے سرغنوں کا سراغ لگا لیا۔ تفتیش سے یہ واضح ہوا کہ حملہ کرنے والے تمام دہشت گرد افغان شہری تھے‘ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی‘ حملے کیلئے درکار تمام ساز و سامان اور امریکی ساختہ ہتھیار افغانستان سے فراہم کیے گئے تھے۔ کیڈٹ کالج وانا اور اسلام آباد کچہری حملے کے منصوبہ ساز ایک ہی تھے۔ اسلام آباد کچہری پر خودکش حملہ کرنے والا بھی افغان شہری تھا۔ تاہم سکیورٹی فورسز نے جوڈیشل کمپلیکس پر حملے میں ملوث کالعدم ٹی ٹی پی کے پورے دہشت گرد سیل کو قلیل مدت میں گرفتار کر لیا‘ جن میں آپریشنل کمانڈر بھی شامل ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجود اعلیٰ قیادت اس نیٹ ورک کی رہنمائی کر رہی تھی۔ وانا اور اسلام آباد حملوں میں ملوث پورے نیٹ ورک کو چند گھنٹوں میں کیفر کردار تک پہنچانا‘ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پیشہ ورانہ برتری اور جدید انٹیلی جنس کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ نیا طرزِ عمل ماضی کی طرح انکوائری کمیٹیاں تشکیل دے کر معاملے کو فائلوں میں بند کرنے کی روش کو ترک کرنے کا اعلان ہے۔
ملک میں دہشت گردی کے حالیہ حملوں میں افغان شہریوں کی شمولیت اور ان حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہونا سٹریٹجک نوعیت کے سوالات کھڑے کرتا ہے۔ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے پُرامن تعلقات کی کوششوں سے گریز کی وجوہات کیا ہیں؟ افغانستان کی سرزمین کا پاکستان مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال طالبان حکومت کے دعوؤں کی صداقت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اگر وہ دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو انہیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے‘ ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ وہ شدت پسند عناصر کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف دانستہ طور پر کوئی کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتے۔ دراصل افغان طالبان کا یہی رویہ پاکستان کو اپنی سرحد سے متصل افغان علاقوں میں شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کا جواز فراہم کرتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کا واضح مؤقف ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی صورت میں پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور افغان سرزمین سے ہر خطرے کا مؤثر اور برق رفتاری سے جواب دیا جائے گا۔
دہشت گردی کے پیچھے علاقائی دشمن قوتوں کا کردار ایک سنگین سٹریٹجک خطرہ ہے۔ کیا کابل دہلی کی پاکستان مخالف سٹریٹجی کا حصہ بن رہا ہے؟ اور کیا فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان نامی تنظیموں کے بھارت کے ساتھ رابطے اور سہولت کاری افغان طالبان کے ذریعے ہو رہی ہے؟ بھارت کا ایجنڈا پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ایک ساتھ جنگی کیفیت پیدا کرنا ہے تاکہ پاکستان کو غیرمستحکم کیا جا سکے۔ دہشت گردوں کو امریکی ساختہ ہتھیاروں کی فراہمی اور ان کے بین الاقوامی روابط اس گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پاکستان کی سکیورٹی قیادت اس سٹریٹجک چیلنج سے بخوبی واقف ہے اور اپنی انٹیلی جنس برتری کو استعمال کرتے ہوئے ان تمام عناصر کو بے نقاب کرنے اور ان کے بیرونی سرپرستوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے پُرعزم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی نئی پالیسی اور غیر لچکدار حکمت عملی اس بات کا دو ٹوک اعلان ہے کہ رعایت کا باب مکمل طور پر بند ہو چکا ہے۔ ملک کی سکیورٹی اداروں کی انٹیلی جنس برتری‘ جدید ٹیکنالوجی کا مؤثر استعمال اور آپریشنل برق رفتاری وہ کلیدی ستون ہیں جو دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے سرغنوں تک کامیاب رسائی‘ انہیں فوری اور یقینی کیفر کردار تک پہنچانے کا غیر متزلزل عزم اور سرحد پار کی سازشوں کا منہ توڑ جواب‘ یہ سب عوامل مل کر پاکستان میں پائیدار اور غیرمتزلزل امن کی مضبوط بنیاد رکھ رہے ہیں۔ یہ نیا قومی عزم ملک کی سلامتی پر کسی بھی سمجھوتے کو یکسر مسترد کرتا ہے اور مستقبل میں ابھرنے والے ہر خطرے کو سختی و فیصلہ کن انداز میں کچلنے کا واضح پیغام ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں