پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے امن مذاکرات کا بے نتیجہ اختتام دونوں ملکوں کے تعلقات میں تشویشناک موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ مذاکرات ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ کوششوں کے نتیجے میں دوحہ مذاکرات کے پہلے دور کی کامیابی کے بعد عمل میں آئے تھے۔ برادر اسلامی ممالک کے تعاون سے ہونے والے مذاکرات سے خطے میں استحکام اور امن کی امید تھی‘ مگر طالبان رجیم کے وفد کے سخت گیر اور غیرسنجیدہ رویے کے باعث یہ امیدیں دم توڑ گئیں۔ یہ صورتحال محض سفارتی ناکامی نہیں بلکہ پاکستان کی قومی سلامتی کو درپیش ایک سنگین چیلنج کی عکاسی کرتی ہے جس کا بنیادی سبب افغان سرزمین سے ہونے والی مسلسل دہشت گردی اور طالبان رجیم کا اس کے خلاف عملی اقدامات سے گریز ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے تفصیلی اعلامیہ جاری کر کے حقائق کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے‘ جس سے افغان قیادت کے غیرسنجیدہ بیانات اور عدم تعاون کے رویے کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگست 2021ء میں طالبان کے افغانستان میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے پاکستان میں افغان طالبان کی معاونت سے ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران پاکستان کے عوام نے دہشت گردی سے اپنے ملک کے اندر بے پناہ جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے۔ دہشت گرد گروہوں نے نہ صرف پاکستان کی سویلین آبادی اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا بلکہ ملکی امن و استحکام کو بھی شدید خطرات سے دوچار کیا ہے۔ اس تمام تر عرصے میں پاکستان نے ایک ذمہ دار پڑوسی اور امن پسند ملک کی حیثیت سے حد درجہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا۔ پاکستان کو پختہ توقع تھی کہ طالبان حکومت وقت کے ساتھ ساتھ اپنی بنیادی ذمہ داری کو سمجھے گی اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کرے گی۔ یہ وہ بنیادی ذمہ داری ہے جو بین الاقوامی قوانین اور ہمسائیگی کے اچھے تعلقات کا لازمی حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے سفارتی تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تجارتی‘ انسانی ہمدردی‘ تعلیمی اور طبی شعبوں میں تعاون کے دروازے کھولے رکھے تاکہ انسانی بحران کا شکار افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔ تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس تعاون کے جواب میں پاکستان کو افغان رجیم کی جانب سے صرف کھوکھلے وعدے اور غیرسنجیدہ بیانات ہی ملے۔ پاکستان نے پڑوسی ممالک کے ساتھ معاملات کو حل کرنے میں ہمیشہ سفارت کاری کا راستہ اختیار کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے طاقت کا استعمال ہمیشہ آخری آپشن رہا ہے۔ اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ تجاویز پر پاکستان نے ایک بار پھر امن مذاکرات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور میں فریقین کے درمیان بعض اصولی نکات پر اتفاق ہوا تھا اور عارضی فائر بندی پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئی تھی جس سے یہ امید بندھی تھی کہ دونوں ملکوں کے مابین مسائل کا حل گفت و شنید سے ممکن ہے۔ استنبول میں منعقد ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور کا مقصد انہی اصولی نکات پر عملدرآمد کے طریقہ کار پر بات کرنا تھا۔ یہ مرحلہ عملی اقدامات کی جانب بڑھنے کا تھا لیکن افسوس کہ طالبان وفد نے یہاں پہنچ کر اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیرسنجیدہ بیانات‘ اور غیرمتعلقہ موضوعات اٹھا کر اور بے جا الزام تراشی کے ذریعے مذاکرات کے ماحول کو خراب کر دیا۔ پاکستان نے اس نازک مرحلے پر بھی مثبت اور تعمیری رویہ اپنائے رکھا اور دہشت گردی کے مکمل انسداد کے لیے مؤثر نگرانی کے نظام کے قیام پر زور دیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر عناصر کو افغان سرزمین پر کوئی پناہ نہ مل سکے۔ لیکن افغان وفد نے نہ صرف ان اہم اور ضروری مطالبات کو نظر انداز کیا بلکہ غیر متعلقہ الزامات اور دعوؤں کے ذریعے بات چیت کا رخ موڑنے کی کوشش کی جس سے کئی روز کی محنت کے باوجود مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے۔
مذاکرات کے دوران یہ بات واضح ہو گئی کہ طالبان حکومت دہشت گردی کے مستقل حل میں سنجیدہ نہیں۔ ان کا مقصد صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا تھا تاکہ وہ خود پر اپنے عوام اور ثالث ممالک کا دباؤ کم کر سکیں جبکہ کالعدم ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے خلاف کوئی ٹھوس اور قابلِ تصدیق کارروائی کرنے سے وہ گریزاں رہے۔ ان مذاکرات کا انتہائی سنگین اور تشویشناک پہلو طالبان حکومت کی یہ کوشش تھی کہ وہ ان مسلح دہشت گردوں کو ''مہاجرین‘‘ کے طور پر پیش کریں‘ حالانکہ یہ انسانی مسئلہ نہیں بلکہ دہشت گردی کی کھلی حمایت کا معاملہ ہے۔ پاکستان کسی بھی پاکستانی شہری کو واپس لینے کیلئے تیار ہے مگر اس کا طریقہ کار واضح کر دیا گیا ہے کہ انہیں طورخم یا چمن بارڈر پر شناختی دستاویزات کے ساتھ حوالے کیا جائے‘ نہ کہ اسلحہ و ساز و سامان کیساتھ غیر قانونی طور پر بھیج دیا جائے۔ مذاکرات کے دروان افغان وفد کی جانب سے دہشت گردوں کو پناہ دینے کی پالیسی کو انسانی ہمدردی کا رنگ دینے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔ اسی طرح طالبان حکومت کی جانب سے پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوششیں بھی قابلِ مذمت ہیں جو کہ پاکستان کے قومی اتحاد کو زک پہنچانے کی مذموم سازش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پشتون عوام ریاست اور معاشرے کا ایک متحرک حصہ ہیں جو ملک کی سیاست‘ بیوروکریسی‘ افواج اور قومی اداروں میں نمایاں اور کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں پشتون عوام کی وفاداری پر سوال اٹھانا دراصل افغان قیادت کی طرف سے پشتون عوام میں پاکستان مخالف جذبات کو ابھارنے اور اندرونی خلفشار کو ہوا دینے کی ناکام کوشش ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کے حل کیلئے پاکستان کے دفتر خارجہ کے توسط سے حقائق پر مبنی شواہد‘ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق مطالبات اور سفارتی طریقہ کار موجود ہے لیکن امیر خان متقی جیسے سینئر افغان رہنما ان مطالبات کو سنجیدگی سے لینے کیلئے تیار نہیں۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا وزارتِ خارجہ میں ڈپلومیسی انسٹیٹیوٹ کے خصوصی تربیتی کورس کی اختتامی تقریب سے خطاب میں پاکستان کے مطالبات کے حوالے سے جو غیرسنجیدہ رویہ سامنے آیا ہے‘ وہ مجموعی افغان معاشرے کی سوچ کا عکاس ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ افغان قیادت کے غیرسنجیدہ بیانات سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ گویا امن کا قیام صرف پاکستان کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان امن کیلئے کوشاں ہے کیونکہ اس کے عوام دہشت گردی کا شکار ہیں لیکن کیا افغانستان کو اپنے ملک میں امن کی اتنی ہی ضرورت نہیں ہے ؟ اگر یہ حقیقت ہے کہ ہر ملک اپنے ہاں امن ہی چاہتا ہے‘ تو پھر افغان حکومت پاکستان کے اصولی مطالبات پر عدم تعاون اور لیت و لعل سے کام لینے پر مُصر کیوں ہے؟ پاکستان امن کیلئے سفارتی کوششیں جاری رکھے گا‘ لیکن قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم ہونے کے باوجود برادر اسلامی ممالک امن کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں‘ اس مقصد کیلئے جلد ہی ترکیہ کا اعلیٰ سطح وفد پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ مستقل جنگ بندی اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے عملی اقدامات کو حتمی شکل دی جا سکے۔ طالبان حکومت کو جلد یا بدیر یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ خطے کا دیرپا امن صرف مشترکہ‘ مخلصانہ اور قابلِ تصدیق کارروائیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔