الفاظ کے چناؤ میں احتیاط لازم ہے کیونکہ موسموں کا یہی تقاضا ہے۔ لہٰذا ہے تو بے تکا لفظ لیکن سہولت کار ہی استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے دوست جنرل حمیدگل مرحوم کیا تھے؟ اپنے زمانے کے بڑے سہولت کار۔ سیاسی انجینئرنگ کی کوئی ڈگری ہوتی تو ان کو پی ایچ ڈی سے نوازا جاتا۔ انہوں نے ہر اس سیاسی انجینئرنگ کا کام کیا جس کا سوچا جا سکتا ہے۔ شریفوں کے بڑے گاڈ فادر تو مردِ مومن مردِ حق تھے لیکن ان کے بعد کسی کا وہ درجہ بنتا ہے تو وہ جنرل حمید گل تھے۔ فخریہ اعتراف کرتے تھے کہ اسلامی جمہوری اتحاد انہوں نے بنایا۔ اس نام نہاد اتحاد کے بننے کا سبب پیپلز پارٹی کو روکنا تھا کیونکہ جو آج الزام ملک دشمنی اور پتا نہیں کیا کچھ اور کا پی ٹی آئی پر لگ رہا ہے اُس زمانے میں یہ الزامات پی پی پی پہ لگتے تھے۔ جنرل مرحوم اپنے پسندیدہ ادارے سے گئے تو ملتان کور کی کمان سنبھالی لیکن جب جنرل آصف نواز چیف بنے تو واہ فیکٹری تبدیل کر دیے گئے اور وجہ شاید وہی سیاسی انجینئرنگ کی شہرت تھی۔ جنرل گل کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے واہ جانے سے انکارکر دیا۔ میں نے ایک دفعہ پوچھا توکہنے لگے کہ ان فیکٹریوں کی انچارجی دکانداری بنتی ہے اور میں کوئی دکان چلانے والا نہیں ہوں۔
جنرل حمید گل کے باس جنرل اخترعبدالرحمن تھے۔ اور انہوں نے اپنا سارا عرصہ افغان کارروائیوں میں گزارا۔ سچ تو یہ ہے کہ جب افغان معرکہ جاری تھا تو جنرل ضیا الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کا اور کوئی کام ہی نہیں تھا سوائے اس نام نہاد جہاد کی سپروائزری کرنا۔ وہ اسی میں خوش ہوتے رہے کہ سوویت یونین سے برسرپیکار ہیں۔ امریکہ ان کے کندھوں پر تھپکی دیتا رہا اور یہ صاحبان اس گمان میں رہے کہ ہم بہت بڑا بین الاقوامی کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں۔ امریکہ کے اہداف افغانستان میں پورے ہو گئے اور پاکستان کا خاصا نقصان ہو گیا لیکن آخری دم تک کیا ہمارے گاڈ فادر اورکیا ان کے نیچے سہولت کار‘ بغلیں ہی بجاتے رہے۔ آج ان کی روحوں سے کوئی پوچھے کہ آپ نے اس کارنامے سے حاصل کیا کیا یا ملک کو کیا فائدہ پہنچا؟ پاکستان کی تنزلی کی داستان تو پہلے سے جاری تھی مگر افغان معرکے میں ملوث ہونے سے ہماری مملکتِ خداداد کو ناقابل ِ تلافی نقصان ہوا۔ لیکن آج تک کوئی سوچ بیچار کوئی انٹرو سپیکشن (Introspection) نہیں کہ افغانستان کے ایندھن میں ہمیں کود نے کا اتنا شوق کیوں تھا۔ آج چالیس‘ پینتالیس سال بعد ہمارے کرتے دھرتے حیرانی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ جن افغانوں کی ہم نے اتنی مددکی وہ اتنے احسان فراموش کیوں نکلے ہیں۔ ہمارے اعلیٰ دماغ یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ افغان قوم کے ہم اتنے جو سہولت کار بنے تو روسیوں اور امریکیوں سے لڑنے کے بعد اور تو کوئی ہنر انہیں آتا نہیں تھا سوائے جنگ اور مزاحمت کرنے کے۔ اور ٹارگٹ نہیں رہا تو انہوں نے اپنی تمام صلاحتیں ہماری طرف موڑ دی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اب وہ ہو رہا ہے جو اتنے سال افغانستان میں ہوتا رہا۔ تب ہم بڑے خوش ہوتے تھے‘ آج پریشانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
پہلی افغان کارروائی کی جو کسر رہ گئی تھی وہ جنرل پرویز مشرف نے پوری کردی۔ ہمارا کوئی عجیب مسئلہ ہے‘ امریکہ سے تھوڑی سی تھپکی آئے تو ہمارے بڑے پھولے نہیں سماتے اور فوراً اپنی دانائی کے قائل ہو جاتے ہیں۔ اپنے زمانے میں جنرل ضیاالحق سمجھتے تھے کہ انہوں نے بین لاقوامی مدبری کی کوئی پوزیشن حاصل کر لی ہے اور پھر جنرل مشرف اسی کیفیت کے شکار ہوئے۔ ہر ایک کو موقع نہیں ملتا‘ نہیں تو یہاں ہرکوئی امریکی تھپکی کا منتظر رہتا ہے۔
جنرل فیض کا قصورکیا تھا؟ ڈائریکٹریٹ 'سی‘ کے انچارج وہ خود تو بنے نہیں تھے‘ جنرل باجوہ کی یہ چوائس تھی۔ چھاؤنی پنوں عاقل سے نکلے تو یہی ٹاسک ملا تھا کہ فلاں فلاں سیاسی انجینئرنگ کرنی ہے اور یہی قومی مفاد ہے۔ اگر کوئی آپریشن عمران خان تھا کہ عمران خان کو آگے لاناہے اور 2018ء کے انتخابات میں ان کی مدد کرنی ہے تو یہ نیک ارادہ محسنِ ملت جنرل باجوہ کا تھا۔ ہمارے چکوالی جرنیل تو وہ کچھ کر رہے تھے جس کا انہیں کہا گیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ بڑے محنتی اورکاوش کرنے والے انسان ہیں‘ یہ ہمیشہ ان کی شہرت رہی ہے۔ محسنِ ملت ان کی کارکردگی سے خوش تھے تب ہی وقت آنے پر ڈائریکٹریٹ 'سی‘ سے مکمل اجارہ داری سے انہیں نوازا گیا۔ سہولت کار تو اور بھی رہے ہیں لیکن اس پوزیشن میں انہوں نے اپنا لوہا منوایا اور جو بھی سیاسی مسئلہ پی ٹی آئی حکمرانی کے دور میں سامنے آیا اس سے خوش اسلوبی سے نمٹے۔ دیگر امور کو چھوڑیے‘ یہ جو ایکسٹینشن والا معاملہ تھا وہ اس طریقے سے ہینڈل کیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر قانونِ توسیع کی حمایت کردی۔ پی ٹی آئی نے تو کرنی تھی کیونکہ باجوہ صاحب کے ساتھ لنگوٹا کسا ہوا تھا لیکن حیرانی اس وقت ہوئی جب پتا چلا کہ (ن) لیگ کو بھی اسی کھاتے میں جکڑنے میں کامیابی ہو گئی ہے۔ اس قانون کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی‘ اُس کے بغیر اتنا عرصہ کام چلتا رہا تھا لیکن جنرل فیض کی ہنرمندی سمجھیے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی صف میں کھڑی ہو گئیں‘ نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز۔
جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد بڑے بڑے دعوے خود احتسابی کے ہو رہے ہیں( اور کئی ہمارے اینکر اور وی لاگر وفاداری کا پورا پورا ثبوت فراہم کررے ہیں)۔ اس موسم میں جو جو پھلجھڑیاں اڑائی جا رہی ہیں‘ ان کی بھرپور ترجمانی یہ مخصوص حضرات فرما رہے ہیں۔ ان کی پھرتیوں کو دیکھتے ہوئے دل میں خیال اٹھتا ہے کہ یہ تمام کے تمام تمغۂ حسنِ کارکردگی کے حق دار ہیں۔ چبھتا ہوا سوال کوئی پوچھ نہیں رہا کہ حالاتِ حاضرہ کو دیکھتے ہوئے اگر احتساب ہو رہا ہے تو یہ اس مقام سے شروع ہونا چاہیے جس کی نشاندہی ایک اعلیٰ افسر نے کچھ عرصہ قبل کی تھی۔ فارم 47کے کارنامے تاریخ کے اوراق میں جلی حروف سے لکھے جائیں گے۔ ان کی بات کوئی کر نہیں رہا‘ وہ معاملہ ہی سارا ٹھپ کردیا گیا ہے۔ اور بیچارا سابقہ افسر‘ وہ ہے کہاں؟ اسے زمین نگل گئی یا آسمان اٹھا کر لے گئے؟ ڈھول اور قسم کے پیٹے جا رہے ہیں کیونکہ یہی مقصود ہے اور یہی وقتِ موجودہ کی قومی ضرورت۔ ہمارے قومی مفادکی تشریح بھی کیسی ہے‘ ہر آنے والا موم کی ناک کی طرح اپنی مرضی کی سمت دے دیتا ہے۔ اور ہم ہیں کہ تالیاں بجانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جو سبق سکھایا جائے ہم یہی کہیں گے کہ یہ قومی مفاد ہے۔
البتہ جو مجبوریاں اس وقت لاحق ہیں اُن کا اندازہ لگانا اتنا مشکل نہیں۔ سرے سے ملک کی مجموعی صورتحال کنٹرول میں نہیں۔ کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی نے زور پکڑا ہوا ہے۔ معاشی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ عوام الناس کی بے چینی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ آتا ہے وہ ایک دردِ سر ہے۔ اب تو اس بارے کوئی شبہ نہیں رہ گیا۔ کے پی کے میں فتنۂ خوارج کی دہشت گردی جاری ہے۔بظاہر یہ احساس پیدا ہو تا ہے کہ بات بہت دور تک جا چکی ہے۔
بنیادی مسئلہ تو وہی ہے کہ ریاستی بندوبست کیسے چلانا ہے۔ آئین اور قانون کی پاسداری اس مملکت میں ہونی ہے یا نہیں؟ اورعوام کو بھی کسی خاطرمیں لانا ہے یا نہیں؟ تاریخِ پاکستان تو ہمارے سامنے ہے‘ جس انداز سے معاملاتِ مملکت چلائے گئے ہیں اسی وجہ سے پاکستان حالتِ بے بسی و لاچاری تک پہنچا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ مروجہ قومی طریقے بدلنے ہیں یا نہیں؟ یا ایسے ہی کام چلاتے رہنا ہے؟