رات کو ٹی وی نہیں دیکھا‘ سو گیا تھا لیکن صبح چار بجتے اٹھتے ہی جیولن مقابلے کا نتیجہ فون پر ڈھونڈنے لگا۔ تھوڑی سی جھلک آئی کہ ہمارا بندہ سونے کا تمغہ جیت گیا ہے لیکن یقین نہ آیا۔ پھرجب مکمل نتیجہ سامنے آیا تو آنکھوں پر اختیار نہ رہا اور نیم اندھیرے میں آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ پھر ایک دو گھنٹے فون کو سکرول کرتا رہا اور آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کی لیکن پھر سے ٹپک پڑتے تھے۔ ارشد ندیم کے سونے کے تمغے نے صرف میرا یہ حال نہیں کیا بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی لاجواب کارکردگی نے پوری قوم کا یہ حال کردیا۔
ایسا جذباتی ردِعمل پاکستانی قوم کا کیوں ہوا ہے؟ اولمپک کھیلوں میں داؤ پر بہت سے تمغے لگے ہوتے ہیں اور ملک ہیں جو درجنوں کے حساب سے تمغے جیتتے ہیں۔ ایک تمغے سے ہماری یہ کیفیت کیسے بن گئی؟ اس لیے کہ یہ جو ہماری دھرتی ہے‘ جس پر پتا نہیں کس کی نظرِ بد جمی ہوئی ہے‘ کو کم ہی ایسی خوشی نصیب ہوئی ہے۔ کم از کم دہائیوں تک کوئی اچھی خبر یہاں نہیں آئی۔ اس گھپ اندھیرے میں ارشد ندیم کا کارنامہ تو ایک ایسے کرشمے کی صورت میں آیا جس نے ہرطرف چاند کی سی روشنی پھیلا دی۔ ایسی کسی چیز کیلئے یہ قوم ترسی ہوئی تھی۔ ہماری مجموعی صورتحال ایسے ہو گئی ہے کہ ایک بے چارگی ہر چیز پر طاری نظر آتی ہے۔ یہاں تک لوگ پہنچ چکے ہیں کہ اس قوم کے نصیبوں کو روتے ہیں کہ ہم کہاں پیدا ہوئے‘ ہمارا بن کیا رہا ہے‘ ہم جا کہاں رہے ہیں۔ اور پھر اس ناامیدی میں میاں چنوں کا ایک نوجوان نیزہ لے کے دوڑ شروع کرتا ہے اور پھر نیزے کو وہاں پہنچاتا ہے جہاں اولمپک کا ریکارڈ ٹوٹ جاتا ہے۔ آنکھوں سے آنسو نہ ٹپکیں تو اور کیا ہو؟ ارشد نے صرف ایک میڈل نہیں جیتا بلکہ اس نے قوم کو ایک دلاسا دیا ہے کہ ہم اتنے گئے گزرے بھی نہیں‘ ہم میں کچھ چنگاری ہے‘ ہم بھی آگے کی طرف ایک قدم رکھ سکتے ہیں۔ اُس کی پھینک نے‘ اُس کے نیزے کے کارنامے نے‘ پوری پچیس کروڑ کی قوم کو اوپر اٹھایا ہے‘ امیداور حوصلہ دیا ہے۔
بحیثیت قوم ہماری تو مکمل تیاری ہو گئی تھی کہ ہمارا داخلہ کسی نفسیاتی وارڈ میں کیا جائے اور پھر باہر سے دروازے بند کر دیے جائیں۔ یہ نوجوان آیا ہے اوراس نے ایک فالج کے قریب پہنچی ہوئی قوم کو ایسا ٹیکہ لگایا ہے کہ مرجھائے ہوئے چہرے روشن ہو گئے ہیں۔ قریبِ مرگ لوگوں کو پھر سے زندہ کر دینا یہ کوئی معمولی بات ہے؟اس نوجوان نے اس قوم کے ساتھ یہ کیا ہے۔ اور کیا اپنے بل بوتے پر ہے‘ اپنے زورِبازو پر‘ اپنے یقین پر‘ اپنی ہمت پر۔ کوئی اور سپورٹ اُسے نہیں تھی‘ اس کرپٹ اورفالج زدہ معاشرے سے اسے سپورٹ ملنی بھی کیا تھی؟ یہاں تو ہر کوئی اپنا اُلو سیدھا کرنے پہ لگا ہوا ہے۔ اشرافیہ کا نام ان کرپٹ لوگوں پر لگا کر اشرافیہ کا لفظ ہم نے گندہ کر دیا ہے۔ جیسے عرض کیا یہاں کے سیٹھوں اورکاروباریوں اورحکومت والوں کو اپنی ذات سے باہر کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ یہ تو ایک نیا جیولن لینے کیلئے ترستا تھا۔ اس ملک میں اعلیٰ قسم کی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ضرور ہیں لیکن ارشدجیسے ایتھلیٹ کیلئے ٹریننگ فیسلیٹیز صفر سے بھی کم ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں ایتھلیٹ تیار ہوتے تو پیرس کے سارے تمغے ہم جیت جاتے۔ لیکن افسوس ہاؤسنگ سوسائٹیاں ناجائز دولت کے معجزے تو پیدا کرسکتی ہیں ایتھلیٹ تیار کرنا اُن کے بس کی بات نہیں۔
ارشد نے شکریہ ادا کیا ہے تودواشخاص کا‘ اپنے کوچ سلمان بٹ اورڈاکٹر علی شیر باجوہ کا۔ قوم کی دعاؤں کا اُس نے ذکر کیا ہے وہ تو اُس نے کرنا تھا لیکن کسی اورکی مہربانی کے وزن تلے وہ نہیں آیا۔ جو اُس نے کیا ہے اپنی ہمت کے بل بوتے پر کیا ہے۔ ایک بڑی حیران کن بات ہے کہ اُس کی فطرت میں ایک نمایاں پاکستانی عادت آپ کو بالکل نہیں ملے گی‘ بڑھک مارنا اوراونچے اور لمبے دعوے کرنا۔ بھینی سی اُس کی مسکراہٹ ہے اور بات دھیمی کرتا ہے۔ یہ جو ہوا میں فضول کے مکے لہراتے ہیں یہ اُس میں نظر نہیں آتا۔ جو اُس نے کرنا تھا کردکھایا اورپاکستانی قوم کیا دنیا کو حیران کردیا۔ لیکن بڑھک اورفضول کی اداکاری نہ ہو‘ پاکستانی منظرنامہ پھر مکمل تو نہ ہوا۔ قوم نے وہ وڈیو دیکھی ہوگی جس میں عزت مآب وزیراعظم کے سامنے ایک دیوہیکل ٹی وی سکرین لگی ہوئی ہے‘ اعلیٰ قسم کے صوفے ایک طرف بچھے ہوئے ہیں اوراُن پر براجمان ہیں سپوتِ قوم صوبائی وزیر رانا مشہود۔ ارشد کا نیزہ ریکارڈ توڑتا ہوا جاتا ہے‘ ارشد سجدے میں گرتا ہے اوررانا مشہود وزیراعظم کو مخاطب ہوتے ہوئے پکارتا ہے کہ اس نے کردیا‘ زندہ باد‘ زندہ باد۔ وزیراعظم بھی مکا لہراتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں اوررانا مشہود کہتے ہیں کہ آپ کا بھی بنتا ہے‘ موقع تو آپ نے دیا۔ یعنی بڑا راز تو اب منکشف ہوا کہ یہ سارا کرنا وزیراعظم کا تھا کیونکہ اُنہوں نے موقع دیا۔ ایک ویٹ لفٹنگ تواولمپک کھیلوں میں ہوتی ہے اور ایک خاص ویٹ لفٹنگ ہمارے ہاں ہوتی ہے۔ مکھن لگانے کا کوئی تمغہ اولمپک کھیلوں میں ہوتوبلا مقابلہ وہ بھی ہم ہی جیتتے۔
اب بھاگے ہیں سارے انعامات کا اعلان کرنے۔انعامات ملنے چاہئیں‘ جتنوں کا اعلان ہو رہا ہے اُس سے کہیں زیادہ کا حقدار ارشد ندیم ہے۔ لیکن ان سب سے کوئی پوچھے کہ جب ارشد کو واقعی کچھ مدد کی ضرورت تھی تب آپ لوگ کہاں تھے؟زندہ اورجاگتی قومیں کھیلوں پر پیسہ صرف لگاتی نہیں بہاتی ہیں۔ ہمیں تو کسی چیز کا پتا نہیں مگر پوچھنا بنتا ہے کہ پہلے کہاں تھے جواَب اتنے حاتم طائی بنے جا رہے ہیں؟ لیکن ٹھیک ہے‘ جیسے بھی ہے ارشدندیم بہت کچھ کا حقدار ہے۔ ہندوستان کا نیرج چوپڑا اب ڈالروں میں ملٹی ملینئر ہوگیا ہے لیکن اُس کی شروعات بھی ہریانہ کے ایک چھوٹے گاؤں سے ہے۔ ہمارے ارشد کو بھی وہ سب کچھ ملنا چاہیے کیونکہ ارشد نے قوم کو صرف جھنجھوڑا نہیں اس کے طور طریقوں پر ایک زوردار طمانچہ لگایا ہے۔اس نے قوم کو بتایا ہے کہ یہاں کے جو طورطریقے بھی ہوں انفرادی ہمت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
ویسے ایک اور بات ہے کہ ارشد کی کامیابی تو اپنی جگہ لیکن ارشد کی ماں اورنیرج چوپڑا کی ماں دونوں نے اپنے بیٹوں سے بڑھ کر بات کی ہے۔ نیرج کی ماں نے کمال ہی کردیا جب اُس نے کہا کہ میرے بیٹے نے چاندی کا تمغہ جیتا ہے توکیا ہوا سونے کا تمغہ جیتنے والا بھی تومیرا بیٹا ہے۔ ارشد کی ماں نے بھی کہا ہے کہ ارشد اور نیرج نہ صرف دوست ہیں بلکہ بھائی ہیں اور نیرج بھی میرا بیٹا ہے۔ ہم کیا بدنصیب لوگ ہیں‘ ہماری ریاستوں کی سوچ کبھی ان دو خواتین کی سوچ تک نہیں پہنچی۔
پاکستانی قوم کو ایک اورچیز پتا ہونی چاہیے کہ ارشدکی کامیابی پر سب سے اچھی اخباری رپورٹ ٹائمز آف انڈیا میں چھپی جو ڈان اخبار نے اپنے صفحۂ اول پر شائع کی۔ وہ رپورٹ پڑھنے کے قابل ہے اوراچھا تو یہ ہو کہ اردو اخبارات میں بھی اُس کا ترجمہ ہو۔ ہماری ریاستوں نے ہمیں ہمیشہ سبق دیا ہے کہ دماغ بند ہونے چاہئیں اور دل چھوٹے ۔ ارشد اورنیرج چوپڑا اوراُن کی مائیں ہمیں بتا رہی ہیں کہ دل کشادہ ہوں۔ میزائل ا ور بم ہمارے بہت ہو گئے‘ بیکار کی دشمنیاں بھی بہت نبھائیں‘ دھیان اب اورچیزوں پر دینا چاہیے۔یہاں ایک ارشد ندیم نہیں پوری ایک کھیپ اس جیسوں کی ہونی چاہیے۔ مردہ دلوں کو ارشد نے خوش کردیا۔ کاش یہ کیفیت اتنی عارضی نہ ہو‘ پاکستانی دلوں میں صحیح جان پڑ جائے۔