خود ہی انصاف کیجئے کہ حالات کس طرح کے ہو چکے ہیں‘ کوئی شریف آدمی رات گئے فیصل آباد کہیں کسی خاتون کے گھر پہنچتا ہے‘ کوئی معاملات ہوں گے اُن کے ڈسکس کرنے کیلئے‘ اور اوپر سے خاتون کے کوئی اور جاننے والے آ جاتے ہیں اوراس شریف شخص کی دھلائی ہو جاتی ہے۔ لاکھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس سیاسی جماعت سے اُن کا تعلق ہے اُس کے تنظیمی معاملات ڈسکس کرنے گئے تھے لیکن دنیا ہے کہ اس بات کا مذاق بنا لیتی ہے۔ اُن شریف شخص کا سیاسی مستقبل بہت درخشاں سمجھا جاتا تھا لیکن یہ تنظیم سازی والی بات اُن کو لے بیٹھی۔ آج تک نام اُن کا کہیں آتا ہے تو تنظیم سازی کا نعرہ لگ جاتا ہے۔
یہ جو حالیہ واقعہ ہوا ہے‘ اس کو بھی دیکھ لیں۔ میں نے تو یہی پڑھا کہ بڑے مشہور ڈرامہ نگار ہیں لیکن ذاتی طور پہ ان کی ڈرامہ نگاری سے کوئی واقفیت نہیں جو کہ یقینا میری کم علمی کی نشانی ہے۔ یہ اونچے پائے کے ڈرامہ نگار کسی کو لاہور میں علی الصبح ملنے جاتے ہیں‘ مبینہ طور پر اس لیے کہ کسی ڈرامہ کے لکھنے کی بات چیت ہونی ہے اور خبروں کے مطابق‘ وہاں اُن کی دھلائی ہو جاتی ہے۔ معاملہ پرچے کے درج ہونے تک پہنچتا ہے اور ظاہر ہے پھر پولیس نے بیچ میں آنا ہوتا ہے اور جہاں ہماری پولیس آئے‘ خاص طور پر مشہورِ زمانہ پنجاب پولیس‘ وہاں تو پھر کوئی نہ کوئی ناٹک ہونا ہی ہوتا ہے۔ ایک پریس کانفرنس منعقد ہوتی ہے جس کی میری ناقص رائے میں کوئی ضرورت نہ تھی اور ہمارے اخبار نویس ساتھی ٹیڑھے سیدھے سوال پوچھتے ہیں‘ مثلاً یہ کہ صبح کے اُس پہر آپ کو اُن خاتون کی قیام گاہ پر جانے کی ضرورت کیا تھی؟ وہ لاکھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم ڈرامہ نگار قسم کے لوگ راتوں کو ہی ملاقاتیں کرتے ہیں اور اس میں کوئی تمیز نہیں رکھتے کہ کسی مرد سے مل رہے ہیں یا خاتون سے۔ پریس کانفرنس میں موجود پولیس افسران بڑا پکا منہ رکھتے ہیں حالانکہ ایک آدھ دفعہ گمان گزرتا ہے کہ اپنی ہنسی روک رہے ہیں۔ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں مگر میرا یہ مشاہدہ تھا۔
پھبتی کَسنے و الوں سے کوئی یہ پوچھے کہ ایسی معلومات افزا ملاقاتوں کا صحیح وقت رات کے اندھیرے ہی ہوتے ہیں۔ جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دن کو ایسی ملاقاتیں نہیں ہوتیں لیکن ہر چیز کا اپنا موزوں وقت ہوتا ہے اوربہت سے ایسے معاملات ہیں جو رات کے کسی پہر زیادہ بھلے لگتے ہیں۔ لہٰذا یہ اعتراض تو صرف ہمارے ہاں ہی بن سکتا ہے کہ فلاں وقت آپ فلاں جگہ کیا کرنے گئے تھے۔ یہ ہمارا ہی ماحول ہے کہ رات کے کسی پہر تنظیم سازی یا ڈرامہ نگاری کو آپ نکلیں اور یہ خطرہ رہے کہ وہاں دھلائی نہ ہو جائے۔ ان ڈرامہ نگار صاحب کی مجبوری یہ ہو گی کہ اُس خاص وقت اپنے گھر مہمان بلا نہ سکتے ہوں گے۔ اسی لیے شاید ڈرامہ نگاری کی بے تابی نے اُنہیں وہاں جانے پر مجبور کیا حالانکہ دیکھا جائے تو یہ سراسر اُن کی غلطی بنتی ہے۔ یہاں تو ان معاملات میں استاد صاحبان کی پہلی اور اولین نصیحت یہ ہوتی ہے کہ جگہ اپنی ہو‘ پرائی جگہ پر نہ جایا جائے کیونکہ پرائی جگہ خطرے سے خالی نہیں ہوتی۔
ایسے مسائل ہمارے ہاں کے ہی ہیں۔ کوئی اور ملک ہو۔دبئی یا لندن میں‘ وہاں کیا پرابلم ہے؟ وہاں ملاقات کسی مے خانے یا نائٹ کلب میں رات کے کسی پہر ہو سکتی ہے۔ نہ تنظیم سازی کی مجبوری نہ ڈرامہ نگاری کا عذر۔ ایسی جگہوں کی بھی کمی نہیں ہوتی جہاں پرائیویسی کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں بھی ایسی جگہوں کی کمی تو نہیں‘ لیکن مسئلہ یہاں یہ ہے کہ ذہن میں پہلا سوال اٹھتا ہے کہ پرائیویسی کا کیا اہتمام ہے‘ چھاپہ تو نہیں پڑ جائے گا؟ یہ ہمارا عجیب مسئلہ ہے کہ ہوتی ہر چیز ہے لیکن اچھے بھلوں کو ڈر رہتا ہے کہ کہیں چھاپہ نہ پڑ جائے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ یہ کیسا ماحول ہے جو ہم نے اپنے لیے بنا لیا ہے۔ انسانی معاشروں میں ہر چیز ہوتی ہے‘ فرق صرف اتنا ہے کہ سلجھے ہوئے معاشرے ان چیزوں کو خوش اسلوبی سے ریگولیٹ کرتے ہیں۔ ہم نے یہاں پارسائی کے نام پر جو قدغنیں لگائی ہوئی ہیں ان سے بے راہ روی کے راستے ختم تو نہیں ہوئے بس ادھر اُدھر ہو گئے ہیں۔ یعنی ہو سب کچھ رہا ہے لیکن چھپ چھپا کے‘ جس سے اور تو شاید کچھ ہوا نہیں اجتماعی منافقت میں بے انتہا اضافہ ہو گیا ہے۔
لاء اینڈ آرڈر کے ہمارے ذمہ داران کو بھی دیکھئے۔ اور کام تو شاید ہوتا نہیں لیکن ان چیزوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ ٹیلی فون پہ کون کس سے بات کر رہا ہے اور کس کے تعلقات کس سے چل رہے ہیں۔ ایک سچا واقعہ میں آپ کو سنانے چلا ہوں۔ یہ جن کا عرف بِلّا صاحب ہے اور جو حال ہی میں میڈیا کی خبرو ں کی زینت رہے ہیں جب ان کا ایک لڑکا انہیں گھر سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ وڈیو بہت ہی وائرل ہوئی کہ دیکھئے کہ اپنے زمانے کے طاقتوروں پر بھی کیسے دن آ سکتے ہیں۔ یہ صاحب ایک محکمے کے سربراہ تھے اور جب 1999ء میں نواز شریف صاحب کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو انہیں بھی اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اپنے دفتر کو جب خالی کرنا پڑا تواپنے ساتھ وہ فائلیں اٹھا لائے جنہیں قومی سلامتی کے حوالے سے بہت اہم سمجھتے تھے۔ ایک نامور خاتون اُن کی جاننے والی تھیں اورہماری بھی اُن سے آشنائی تھی۔ اُن خاتون کے لاہور کے فلیٹ میں اُنہوں نے وہ فائلیں رکھوا دیں اور خاتون نے بغیر چھان بین کے اُن فائلوں کو اوپر ایک الماری میں رکھ دیا۔
بسنت کے دن تھے اور ہم بسنت منانے لاہور گئے ہوئے تھے۔ جاننے والی خاتون کے فلیٹ میں جانا ہوا اورجب میں چوکڑی مار کر قالین پہ بیٹھا تھا اور شاید راحتِ شب کا بھی کوئی اہتمام تھا‘ توخاتون ایک دم بولیں کہ تمہیں اندازہ ہے کہ اُس الماری میں کیا پڑا ہے؟ میں نے کندھے جھٹکائے تو بولیں کہ اتار کے دیکھ لو۔ میں نے کچھ فائلیں وہاں سے لیں اور بڑے تجسس سے پڑھنے بیٹھ گیا۔ وہ زمانہ کیسٹوں کا تھا۔ بیشتر فائلوں میں ایک ریکارڈڈ کیسٹ تھی اورفائل میں پھر کاغذ پر کسی فدوی کی تحریر۔ قومی سلامتی کی حامل وہ کیا فائلیں تھیں؟ بیشتر ایسی تھیں کہ فلاں سیاست دان فلاں خاتون سے ٹیلی فون پر محو گفتگو تھے اورگفتگو کا متن یہ ہے۔ ایک فائل دیکھی وہ ایسی‘ پھر دوسری وہ بھی اسی قسم کی‘ حتیٰ کہ ساری فائلیں اس واہیات طرز کی تھیں۔ مجھے غصہ سا آ گیا اور میں نے کہا کہ جسے تم اپنا اتنا اچھا دوست سمجھتی تھیں وہ ان کاموں میں لگا رہتا تھا؟ اس روداد میں ذرا برابر مبالغہ نہیں۔ ہمارے فدوی انہی کاموں میں پڑے رہتے ہیں۔
تصویر کا دوسرا رُخ بھی دیکھئے ۔ جب ایک شریف آدمی تنظیم سازی کا بتا کر آ رہا ہے تو کسی اور کو بتانے کی کیا ضرورت ہے کہ آپ بھی آ جائیں۔ وہ انگریزی کا لفظ ہے‘ delicacy۔ ان معاملات میں کچھ ڈیلیکیسی دکھائی جاتی ہے۔ ڈرامہ نگار صاحب کے معاملے میں پہلے اُن کو گھر بلانا اور پھر اہتمام کرنا کہ اور لوگ بھی تیاری میں بیٹھے ہوں اور اُن کی دھلائی ہو جائے‘ یہ کہاں کی شرافت ہے؟ ان معاملات میں کچھ اسلوب ہوتا ہے‘ نزاکتوں کا کچھ خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن جہاں معاشرے میں کوئی ڈھنگ کی بات نہ رہے وہاں ایسی نزاکتیں کہاں سے آئیں گی؟ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔