ذوالفقار علی بھٹو قتل مقدمے کے بارے میں سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے۔ سپریم کورٹ کہتی ہے کہ بھٹو کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی اور اُن کے خلاف فیصلہ ایسی عدالتوں نے دیا جو مارشل لاء ضابطوں کے تحت مقید تھیں۔ فیصلہ‘ جو کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے‘ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج جب آمروں کے سامنے جھک جائیں پھر عدالتیں عوام کی نہیں رہتیں۔ یہ مقدمہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب ملک پر مارشل لاء لگا ہوا تھا اور ملک میں آئینی حکمرانی نہ تھی۔ بہت اچھا فیصلہ ہے اور قانونی حلقوں میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ لیکن شاید یہ بھی کہا جائے کہ بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے۔
ایک اور اسی قسم کا فیصلہ جسٹس حمود الرحمن کا تھا جس میں جنرل یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا گیا۔ یہ بہادری تب دکھائی گئی جب یحییٰ خان اقتدار سے ہٹ چکے تھے اور ہارلے سٹریٹ راولپنڈی کی اپنی رہائش گاہ میں نظربند تھے۔ اس فیصلے کو آج تک سراہا جاتا ہے کہ بڑا دبنگ فیصلہ تھا۔ سراہتے ہوئے یہ نکتہ تھوڑا سا نظر انداز کیا جاتا ہے کہ یحییٰ خان اُس وقت کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے تھے۔ بھٹو صاحب کے دور میں جسٹس حمود کافی عرصہ چیف جسٹس رہے اور انہوں نے کبھی بھی کچھ ایسا نہ کیا جس سے بھٹو صاحب کی ناراضی بنے۔ یعنی ان کی بہادری ماضی کے حوالے سے تھی‘ حال کے بارے میں ان کا رویہ محتاط رہا۔
موجودہ حالات کے بارے میں جو لوگ رونا دھونا نہیں چھوڑتے اُنہیں حوصلہ لینا چاہیے کہ انصاف کے پہیے اگر آج سست روی کا شکار دکھائی دیتے ہیں تو کوئی بات نہیں‘ 50 سال بعد کوئی نظرِ ثانی کرنیوالا ایسا فیصلہ آ سکتا ہے جس سے انصاف کا بول بالا ہو جائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی والوں کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن اور سارے انتخابی عمل سے انہیں کچھ شکایت ہے تو یہ زمانہ بیت جائے گا اور مستقبل کے کسی دور میں ایسا حکم نامہ آ سکتا ہے کہ ماضی میں پی ٹی آئی کیساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ بھٹو صاحب گئے‘ اس مقدمے میں ان کے وکیل دنیا سے رخصت ہو گئے‘ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے وہ سارے جج صاحبان بھی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے لیکن خوشی کا مقام تو بنتا ہے کہ ایک تاریخی غلطی کو درست کر دیا گیا ہے۔ دیر آید درست آید کا مفہوم ایسے فیصلے سے کچھ زیادہ ہی گہرا ہو جاتا ہے۔
ایسے ارتقائی عمل کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد‘ طیبہ راجہ‘ صنم جاوید اور ان جیسے بہتوں کو حوصلہ ملنا چاہیے کہ بے شک ان کیلئے مشکلات کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا لیکن آئندہ لکھی جانے والی تاریخ میں اس کا ازالہ ہو جائے گا اور شاید یہ بھی فیصلہ آ جائے کہ ان جیسوں کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی۔ ارشد شریف کے مقدمے کے حوالے سے کینیا کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ اُن کے ساتھ زیادتی ہوئی‘ پولیس نے بے جا (disproportionate) طاقت کا استعمال کیا۔ عدالت نے ازالے کے لیے کچھ پیسوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ ارشد شریف کی بیوہ کی اب تشفی ہو جانی چاہیے کہ عدالتی فیصلہ اُن کے حق میں آ گیا ہے اور کچھ پیسوں کا بھی اعلان ہوا ہے۔ اپنے آنسو پونچھ کے اب چپ کر کے گھر بیٹھ جائیں۔
قومی سیاست حالات کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ہرکوئی رو رہا ہے۔ جس سے بات کرو بجلی کے بلوں سے بات شروع ہوتی ہے اور رونے دھونے کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ لیکن یہ رونا دھونا ہی ہے اس سے آگے کچھ نہیں۔ جس جماعت میں چنگاری ہے یا کچھ کر سکتی ہے‘ اُس کے ساتھ وہ کچھ ہو چکا ہے کہ کچھ کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو رہی۔ عجیب سی کیفیت ہوتی جا رہی ہے کہ ارمان بہت ہیں‘ دلوں میں تڑپ بہت ہے لیکن اس کیفیت کا اظہار نہیں ہو پا رہا۔ لیکن سرکار ہے کہ سایوں کے پیچھے بھاگی جا رہی ہے۔ ایکس (ٹویٹر) پہ بندش۔ سرکار کو تو مطمئن ہونا چاہیے کہ تاریخی مہنگائی کے باوجود جمہور چپ ہے۔ لیکن نہیں‘ اطمینان نہیں آ رہا کیونکہ دلوں میں وسوسے ہیںکہ عوام بول تو نہیں رہے لیکن ان کے جذبات کچھ اچھے نہیں۔ اور معاشی صورتحال ہے کہ اپنے بس کی بات نہیں رہی۔ معیشت پر کوئی انسدادِ دہشتگردی عدالت بٹھائی جا سکتی اور اس کارروائی سے خاطرخواہ نتائج حاصل کیے جا سکتے پھر تو بات اور تھی لیکن معیشت ایک شعبہ ہے جو ڈنڈے سوٹے سے نہیں چل سکتا۔ بات تو پیسوں کی ہے اور وہ بڑی بڑی کونسلوں کے قیام کے باوجود نہیں آ رہے‘ نہ کوئی امید ہے کہ کہیں سے آئیں گے۔ محترم وزیر خزانہ چین کی طرف سدھار رہے ہیں اس مقصد کے ساتھ کہ چین کا قرضہ کچھ ری شیڈول ہو جائے۔ چین سے ہماری دوستی پہاڑوں سے اونچی اورسمندروں سے گہری تو ہو گی لیکن ہمارے کشکول کو دیکھ کر ہمارے چینی دوست بھی کچھ اُکتائے ہوئے لگتے ہیں۔ اپنے حالیہ دورۂ چین کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے چینی صدر کے سامنے انہی قرضوں کے بارے میں دردمندانہ درخواست کی لیکن ابھی دیکھنا باقی ہے کہ چینی کیا کرتے ہیں۔
دنیا امید پر قائم ہے اور پاکستا ن میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ الیکشن پر امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ جب دوبارہ سے وائٹ ہاؤس میں نمودار ہوں گے تو شاید حالات ایسے پیدا ہوں کہ مقید لیڈروں اور ورکروں کیلئے کچھ بہتری ہو سکے۔ جب تنکوں کا سہارا ہی لینا ہے تو ایسی سوچ میں کیا حرج ہے۔ البتہ جن کی آنکھیں قدرے بند تھیں اُن پر بھی اب واضح ہونے لگا ہے کہ امریکہ کے اگلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہوں گے۔ اُن کے آنے سے بہت کچھ تبدیل ہو گا۔ ایک تو یوکرین کی امداد میں خاطر خواہ کمی ہو گی کیونکہ ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ ہوتے تو اس جنگ نے شروع ہی نہیں ہونا تھا۔ امریکی کانگرس میں جا کر اُنہوں نے یوکرین کی امداد کی بات نہیں کرنی۔ ایک پرابلم جو ہماری سرکار کو رہے گا وہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے ہے۔ دیکھا نہیں کہ پاکستانی صورتحال پرجو قرارداد امریکی ایوانِ نمائندگان میں پاس ہوئی اُس کی وجہ سے یہاں کتنی پریشانی ہوئی۔ ہماری پاکستانی کمیونٹی کی آواز اب وہاں زیادہ منظم اور مؤثر ہو رہی ہے اور اس کمیونٹی نے امریکی ایڈمنسٹریشن اور کانگریس پر زور دیتے رہنا ہے کہ پاکستان کے حالات پر نظر رکھی جائے۔ پہلے ایسے کبھی نہیں ہوا تھا‘ یہ ایک نئی ڈویلپمنٹ ہے اور جہاں سرکار مسائل میں گھری ہوئی ہے‘ یہ اُس کے لیے ایک اور دردِ سر ہے۔ اتنی چیز واضح ہونی چاہیے کہ صدر ٹرمپ نے کہیں بھولے سے بھی پاکستان کے بارے میں کچھ کہہ دیا تو یہاں کے لوگوں کو بخار ہو جائے گا۔
مہنگائی کی مار پوری قوم کو پڑ رہی ہے لیکن یہ انتظار اور صبر کا موسم ہے ۔ اور چارہ بھی کیا ہے؟ پوری قوم اس کیفیت سے گزر رہی ہے۔ راستہ لمبا ہے اور کٹھن بھی لیکن طویل سے طویل رات بھی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ ایک حقیقت تو اب سب مانتے ہیں کہ عوام کا موڈ بگڑا ہوا ہے۔ سرکاری پروپیگنڈے پر اب کوئی کان نہیں دھرتا۔ یہ جو کانفرنسیں ہوتی ہیں اور ان کے بعد جن اعلانات کی تشہیر ہوتی ہے ان کا عوام پر ذرہ برابر اثر نہیں ہو رہا۔ بس کام چلایا جا رہا ہے‘ زور زبردستی چیزوں کو دھکا دیا جا رہا ہے۔ دیکھتے ہیں ایسا کتنی دیر چلتا ہے۔
قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں لیکن یہ بھی مبصرین دیکھ رہے ہیں کہ دوسری طرف بھی فیصلہ نہیں آ رہا۔ یہ گومگو کی صورتحال رہی تو پارلیمنٹ سے آئینی ترامیم نہ پاس ہو سکیں گی۔ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے صاحبان کی توسیع کی کہانیاں پھر دم توڑ جائیں گی۔ ایسا بھی ہوا تو اچھی بات ہے اور پھر ساون کے بعد ستمبرکا مہینہ آ جائے گا۔ رہنے دیں اس بات کو کہ ستمبر کا کیوں ذکر ہو رہا ہے۔ بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔