بجلی کے بلوں کا رونا ہے‘ مہنگائی کا رونا ہے‘ پر باقی ملک میں کیا آگ لگی ہوئی ہے اس کی ہمیں کوئی خاص فکر نہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کون ہے‘ ہماری بلا جانے۔ بلوچ یک جہتی کونسل کس چیز کا نام ہے‘ ہمیں کوئی لگاؤ نہیں۔ خبریں آتی ہیں کہ وہاں کچھ احتجاج ہو رہا ہے‘ کچھ جانوں کا ضیاع بھی ہوا ہے‘ لیکن وہ علاقہ دور ہے اورہمیں اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ یہ باتیں سنی جا سکتی ہیں کہ خیبرپختونخوا کے حالات خراب ہیں اور وہاں کے جنوبی اضلاع میں رات کو سفرکرنا خطرے سے خالی نہیں لیکن ٹانک‘ لکی مروت اور ملحقہ علاقے‘ وہ بھی ہم سے دور ہیں۔ ٹی ٹی پی کا زور وہاں بڑھ رہا ہے اور آئے روز جھڑپیں ہوتی ہیں‘ جنازے بھی اٹھائے جاتے ہیں اور تصاویر لی جاتی ہیں لیکن وہ بھی دور کی باتیں ہیں۔ راجن پور کے قریب کچے کے علاقے میں وارداتوں کی خبریں آتی ہیں لیکن کچے کا علاقہ جانے اور اس کے باسی۔ محرم ختم ہونے کو ہے‘ ہمارے شادی بیاہ کے موسم پھر شروع ہو جائیں گے اور شادی ہالوں میں بکنگ کرانا اتنا آسان نہیں رہے گا۔ ہمیں ان چیزوں سے زیادہ سروکار ہے۔
اب تو باقی دنیا بھی ہماری حالت پر حیران ہو رہی ہے۔ کل ہی نیویارک ٹائمز میں پاکستانی صورتحال کے بارے میں ایک لمبا ڈسپیچ شائع ہوا ہے۔ اس میں یہی لکھا تھا کہ ہر طرف شورش برپا ہے اورحالات سے تنگ آئے ہوئے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ لیکن ہم جو پانچ دریاؤں کے دیس کے باسی ہیں (گو تین دریا ہماری دسترس سے جا چکے ہیں اور ماضی کے دھندلکوں میں ہی ان کا اب شمار ہوتا ہے) باقی پاکستان کی ہمیں اتنی فکر نہیں جتنی کہ باہر کی دنیا کو اب ہو رہی ہے۔ مہنگائی اور بجلی کے بلوں کا رولا تو ہے‘ بے روزگاری بھی بہت بڑھ چکی ہے لیکن زندگی کا معمول تو چل ہی رہا ہے۔ بازار کھلے ہیں‘ ٹرانسپورٹ چلتی ہے‘ اسلام آباد لاہور موٹروے کھلی ہے اور اس پر موٹرکاریں فراٹے بھرتی ہیں۔ شام کو کڑاہی گوشت کی دکانوں پر بھیڑ لگتی رہتی ہے۔ مہنگی دکانوں پر بھی رش رہتاہے۔ خیبرپختونخوا میں ٹی ٹی پی خطرہ ہو گی لیکن وہاں کیلئے خطرہ ہے‘ یہاں کیلئے تو نہیں؟ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہاں تو کسی نہ کسی نوعیت کی گڑبڑ ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ بلوچ جانیں اور ان کے کام‘ پنجاب میں تو حالات جیسے تیسے چل ہی رہے ہیں۔ سپوتِ سیالکوٹ ہمارے وزیر دفاع تقریباً روزانہ کسی ٹی وی چینل پر آئے ہوتے ہیں اور اوپر نیچے کے بیان داغ دیتے ہیں۔ پورے کرۂ ارض میں کوئی ایسا وزیر دفاع نہ ہوگا جسے اتنی فرصت ہو کہ روزانہ کی بنیاد پر ٹی وی چینلوں پر آئے۔ ہر دلعزیز سی ایم پنجاب کے فوٹوچھپ جاتے ہیں‘ ٹک ٹاک بھی بن جاتے ہیں‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معمول کی زندگی چل رہی ہے۔
کچھ خیال ہمیں ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور ہم کس خواب میں مست پڑے ہیں؟ یہاں تو ایک ہی فکر لاحق لگتی ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ ٹویٹر یا ایکس کو ہم نے کامیابی سے تقریباً مفلوج کر دیا ہے جو کہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہے۔ فائر وال پتا نہیں کس کو کہتے ہیں لیکن وہ بھی ہم نے لگانی ہے گو محترمہ عظمیٰ بخاری نے پوری دنیا کی تصحیح کی ہے کہ اصل میں یہ فائر وال نہیں اسے فائبروال کہتے ہیں۔ منفرد وزیراعلیٰ صاحبہ کے دفتر سے تقریباً روزانہ ہی کوئی اعلان آ جاتا ہے کہ پلاسٹک شاپروں پر پابندی لگ گئی ہے‘ آئی ٹی سیکٹر میں پتا نہیں کون سا انقلاب آنے والا ہے اور پچھلے ہفتے ہی یہ خوشگوار اعلان ہوا کہ پنجاب بھر میں دودھ میں ملاوٹ ختم کی جا رہی ہے۔ ایک اور خبر تھی جس کی مناسب تشہیر نہیں ہوئی کہ ہر دکان اورگھر پر صفائی کے زمرے میں ماہانہ ٹیکس لگایا جائے گا حتیٰ کہ کچی آبادیوں کے مکینوں پر بھی یہ ٹیکس لاگو ہو گا تاکہ اس کے اجرا سے صوبہ بھر میں صفائی کا اہتمام ہو سکے۔ ٹیکنیکل خوابوں کے بیچ میں اوپر سے اُتری ہوئی موجودہ پنجاب حکومت اپنا وجود ظاہرکررہی ہے گو ایک تشویش کا پہلو یہ پیدا ہو گیا ہے کہ قائدِ محترم میاں نواز شریف کہیں گم ہو گئے ہیں۔کوئی تصویر نہیں‘ کوئی اعلان نہیں‘ کوئی یہ منظر نہیں کہ پنجاب کابینہ کی فلاں میٹنگ کی سربراہی فرما رہے ہیں۔ اس ماجرے کی کوئی تسلی بخش وضاحت اب تک نہیں آئی۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ باقی پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے ہوتا رہے یہاں پر مذاق جاری و ساری رہے گا۔ بلو چستان میں ماہ رنگ کا مسئلہ ہو گا‘ خیبرپختونخوا میں ٹی ٹی پی کے حملے جاری ہوں گے‘ لیکن ہماری فکر ایک ہی ہے کہ وہ جو ایک معتوب جماعت ہے اور ہمارے لیے دردِسر بنی ہوئی ہے‘ اسے معتوب کیسے رکھا جائے۔ ماہ رنگ بلوچ اور بلوچستان کے باسی ہماری مجبوری سمجھتے نہیں۔ یہ ہماری مجبوری ہے کہ معتو ب جماعت کو ایسے ہی رکھنا ہے کیونکہ معتوب ہونے والی کیفیت باقی نہ رہی توحالات کو کنٹرول میں کیسے رکھا جاسکے گا؟ صحیح معنوں میں کنٹرول میں تو اب بھی نہیں لیکن ہمارا دبانا تو جاری ہے۔ یہ پھبتیاں ہم سہہ لیں گے کہ ہماری تمام توانائیاں اس ایک کام پر صرف ہو رہی ہیں پر کوئی پروا نہیں‘ ہم نے اپنی ڈگر سے نہیں ہٹنا اور جن کی لمبی زبانیں ہیں اُن کا بندوبست تو ہم کچھ انٹرنیٹ پر کرہی رہے ہیں۔کوئی اور اچھی تدبیر آئی اُس پر بھی سوچاجاسکتا ہے۔ لیکن کوئی اس امید پر بیٹھا رہے کہ ہم میں عقل آئے گی یہ خام خیالی ہے۔ عقل کے حوالے سے پہلے ہم نے کون سی احتیاط برتی ہے کہ اب ہماری چال بدلنے کا کوئی امکان ہو؟
یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ لوگ باہر جانا چاہتے ہیں اوربہت سے اس تیاری میں لگے ہوئے ہیں کہ موقع ملے اوروہ جاسکیں۔پر ہمارے پاس مین پاور کی کوئی کمی نہیں۔ ہماری آبادی یوکرین سے بہت زیادہ ہے اور روس سے بھی زیادہ ہے۔ ہرسال چھ سات لاکھ لوگ باہر جائیں توکیا فرق پڑتا ہے؟بے روزگاروں اوراَن پڑھوں کے جھنڈ کے جھنڈ ہم نے تیار کیے ہوئے ہیں۔یوکرین کو مین پاور کی کمی ہوسکتی ہے‘ ہمیں نہیں۔ اوریہ کہنا کہ جی صرف اَن پڑھ نہیں باہر جا رہے‘ اس لائن میں پڑھے لکھے بھی لگے ہوئے ہیں‘ ایسی باتوں سے ہمیں نہ ڈرایا جائے۔یہ جو سارے کے سارے برین یا دماغ یہاں تھے توہماراانہوں نے کیا بگاڑ لیا تھا؟ یہاں نہ ہوں گے توہمارا کیا بگڑے گا۔ٹی ٹی پی کے حملے وہاں ہوتے رہیں یہاں کے شادی ہال بند نہ ہوں گے۔بلوچستان کی بے چینی بڑھتی جائے یہاں کڑاہی گوشت کی دکانوں کی رونق میں کمی نہ آئے گی۔ ایسے نادان سمجھتے نہیں کہ 1971ء میں بنگالی گئے تو ہمیں کیا فرق پڑا۔اُس واقعہ کا ماتم بھی ہم سے صحیح طو رپر نہ ہوا کیونکہ شکست توایک ہزار میل دور ہوئی اورپھر جو ہمارے قیدی بنے وہ واپس توآ ہی گئے۔ معمول کی زندگی پھر سے چلنے لگی اوراُس وقت کے مقبول لیڈر جو بعد میں قاتل کہلائے‘ نے ہوا میں مکا لہراتے ہوئے کہا تھاکہ اب نیا پاکستان بنے گا۔ وہ نیا پاکستان بنتے بنتے ہم اس نوبت کو آن پہنچے ہیں کہ کشکول لیے باہرکے دروازوں پردستک دے رہے ہیں۔ کچھ زیادہ مل نہیں رہا لیکن کچھ تو آرہا ہے۔لاہور کے جنہیں پوش علاقے کہا جاتا ہے اُنہیں دیکھیں توگمان نہیں ہوتا کہ یہ ایک کشکول زدہ ملک ہے۔ اگلی شام اُس طرف کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں شام کی دعوت تھی۔ رِنگ روڈ سے میں وہاں جا رہا تھا اور علاقہ ختم ہی نہیں ہورہا تھا۔ یہ ہماری کامیابیوں کی ایک اورنشانی ہے۔زرعی رقبوں پر پھیلی ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیاں کہیں اور دیکھی ہیں؟