جب موم بتی جل کر پگھل جائے یا جو حال آئس کریم کا فریج سے نکالنے کے بعد ہوتا ہے اُسے میلٹ ڈاؤن کہتے ہیں۔ اورخواجہ آصف جو موجودہ انوکھے بندوبست کے ایک بڑے طرم خان ہیں‘فرماتے ہیں کہ غیریقینی صورتحال ہے اورآئینی میلٹ ڈاؤن بھی ہوسکتا ہے۔اگرایسا خدشہ ذہنوں پر سوار ہوتا جارہا ہے توپھر آپ کیا بیٹھے جھک ماررہے ہیں؟ ہم جیسے تو کہتے تھے کہ یہ کمپنی چلنے والی نہیں ہے لیکن اتنا معلوم نہ تھا کہ ہوا اتنی جلدی نکل جائے گی۔ بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ بے سروپا باتیں ہرکوئی کررہا ہے۔ آج اگر ایک طرم خان میلٹ ڈاؤن کا ذکرکررہا ہے توچند ہی روز پہلے ایک اور مجسمۂ ہونہاری عطاتارڑ پی ٹی آئی پر پابندی کی نویدقوم کو سنارہے تھے۔اُس نوید کا ردِعمل تو ایسا ہواکہ پابندی کی باتیں بھول گئے ہیں۔ لگانا تو چاہتے ہیں‘ ان کے بس میں ہو توپی ٹی آئی کو آناًفاناً کچل کررکھ دیں۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ خواہشات کے گھوڑوں پر سواری آسان ہے اُن کی تعبیر تھوڑا مشکل ہوتی ہے۔
ان ساروں پر کیا گزررہی ہوگی؟ ان کی ذہنی حالت کی تصویرکشی کی جاسکے توکتنا دلچسپ خاکہ سامنے آئے۔ کیفیت بیان کرتے ہوئے الفاظ ساتھ نہیں دیتے۔ بوکھلاہٹ ہے‘ بڑھتی ہوئی گھبراہٹ ہے‘ دانتوں کا پیسنا ہے‘ ہاتھوں کو مکے کی شکل دینا ہے‘ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کریں کیا۔ رجیم چینج کودو سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔ اس عرصے میں کون سے ہتھکنڈے نہیں آزمائے گئے ‘ معتوب جماعت کے ورکروں اور لیڈروں کو دبانے اورختم کرنے کی کتنی ترکیبیں نہ آزمائی گئیں۔ کچھ کام نہ آیا کیونکہ معتوب جماعت نے سرِتسلیم خم کرنے سے صاف انکارکردیا۔ اور جماعت کا لیڈر ہے جو سب کچھ سہہ کر پریشان ہونے سے انکارکررہا ہے۔ یہی پریشانی کا باعث ہے کہ ہم نے تو اپنے ترکش کے سب تیر چلا دیے ‘ جو نہ کرنے والے ہتھکنڈے تھے وہ بھی آزما لیے لیکن اُلٹا ہم ہی پریشان ہوئے۔ یہ جو میلٹ ڈاؤن کا لفظ اپنے لیے استعمال کررہے ہیں سمجھا تو یہ گیا تھا کہ معتوب جماعت کا میلٹ ڈاؤن ہو جائے گا۔ جماعت نے کیا پگھلنا یا ٹوٹنا تھا تیس مارخانوں کے ارادے ہمارے سامنے ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ ملکۂ پنجاب کا لہجہ توملاحظہ ہو‘ سپریم کورٹ کے ججوں پر برس پڑی ہیں کیونکہ وہاں سے جوفیصلہ آیا ان پر بجلی کی مانند گرا۔ فیصلے سے انکاری ہیں لیکن اس کے سامنے مجبوربھی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی حالت بھی دیدنی ہے‘ فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرنا چاہتے لیکن اُس سے بھاگ بھی نہیں سکتے۔ پسندیدہ اینکروں کی زبانوں سے یہ بھی خبریں چلائی گئیں کہ سپریم کورٹ کے احکامات نہیں مانے جائیں گے۔ لیکن پھر کچھ ہوش آنے لگی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کھلی بغاوت نقصان دہ ثابت ہوگی۔
ذہانت کے ان مجسموں نے قوم کو یہاں تک پہنچادیا ہے۔ بلاغت ایسی کہ بند گلی میں آن کھڑے ہوئے ہیں اورپوری قوم کو بھی اپنے ساتھ اسی بند گلی میں لے آئے ہیں۔بے بسی کا عالم یہ کہ لاکھ کوششوں کے باوجود صنم جاوید کو مزید اندر نہ رکھ سکے۔ کیا گزری ہوگی ان پر جب عدالتوں نے ایک ایک کرکے صنم جاوید پر بنائے گئے بھونڈے مقدمات اڑا دیے ؟ خدا کا کرنا دیکھیں کہ ایک نہتی خاتون ان کیلئے فرسٹریشن کی علامت بن گئی۔ گرمی سردی میں چودہ ماہ اس کو جیل میں رکھا گیا۔ بے بنیاد مقدما ت میں ضمانت ہوتی تو نئے مقدمات کھڑے کر دیے جاتے‘ لیکن آخرکار سب تدبیریں ناکام ثابت ہوئیں۔ بیشک اللہ کی لاٹھی بے آوازہوگی لیکن لگے تو بہت سخت لگتی ہے ۔ ایک نہتی خاتون نے یہ حال کردیا اورچلے تھے آپ بہتوں کو سرنگوں کرنے۔
قدرت کا کرنا بھی دیکھئے‘ ایک شخص اندر ہے‘ پابندِسلاسل ہے ‘موت کی کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے لیکن ملک کی تمام سیاست اُس کے گرد گھوم رہی ہے۔ ذکر اُس کا ‘ فکر اُس کی‘ تمام تبصرے اُس کے حوالے سے۔اندر بیٹھ کر کوئی بم نہیں بنا رہا‘ دو اہم مصروفیات ہیں‘ ڈٹ کر ورزش کرنا اوریومیہ ایک کتاب پڑھ ڈالنا۔ یعنی پڑھائی ایسی کہ کتاب ایک دن میں پڑھ لی جاتی ہے اوراگلے روز نئی کتاب کا مطالعہ شروع ہو جاتا ہے۔ پریشانی اسی بات کی ہے‘ ورزش دیکھ کر پریشان ‘ پڑھائی پر نظر ڈال کر مزید پریشان۔ اُس چھوٹی سی کوٹھڑی سے ایک آواز بھی نہیں آئی کہ پلیٹ لیٹس گر رہے ہیں‘ بلڈپریشرچڑھ رہا ہے‘ فلاں ہسپتال میں علاج ناگزیر ہے۔کوئی رنگ سازی یا ڈرامہ بازی کا شائبہ بھی نہیں جو دوسرے نام نہاد لیڈران کے حوالے سے قوم دیکھ چکی ہے ۔ اگلے پریشان نہ ہوں تو کیا ہوں؟
سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ جلدیابدیرقومی سیاست کے محور سے ہی بات کرنا ہوگی۔ اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ 8فروری کو قوم نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ الیکشن کے نام پر کون کون سے کرتب نہیں کیے گئے لیکن سب بے سود رہے۔ اُن تاریخی لمحات میں جو کمشنر راولپنڈی تھا‘ لیاقت چٹھہ‘ کس حال میں ہے؟ زمین نگل گئی یا اندھیرے کھا گئے؟ سارے ماجرے سے پردہ چاک کردیا تھا اور یہاں تک کہا کہ کچہری چوک راولپنڈی میں مجھے لٹکا دیا جائے۔ لیکن تمام ترکیبوں کے باوجود قوم نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا۔اس بابت تو کسی کواب شک نہیں رہا۔ اور تو اور خواجہ آصف کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ خان کی مقبولیت سے کوئی انکار نہیں۔ میرے دوست رانا ثنا اللہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ خان نے مجھے غلط ثابت کیا ہے کیونکہ گرفتاری سے پہلے یہ سب توپچی کہا کرتے تھے کہ جیل برداشت نہیں کرسکے گا۔ اب ستم دیکھئے کہ جس انداز سے جیل کے ایام کاٹے جا رہے ہیں ان کے سینوں پرمونگ دلی جا رہی ہے۔
خاندانِ شریفیہ سے کسی ریشنل بات کی توقع رکھنا بیکار کی بات ہے۔ قائدمحترم ہوں یا وزیراعظم یا ملکۂ پنجاب ان کے اپنے مسائل ہیں اورسب سے بڑا مسئلہ ان کا یہ ہے کہ حسد کی آگ میں جل رہے ہیں۔ان کیلئے قیدی نمبرفلاں ایک ڈراؤنا خواب بن چکاہے۔خواجہ آصف وغیرہ بھی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ڈار خاندان نے سیالکوٹ کے سپوتوں کا جوحشرکیا ہے اورناکوں چنے چبوائے ہیں ہمارے ساتھ ایسا ہوتا توسیالکوٹ کا ڈومیسائل چھوڑ چکے ہوتے۔ اس قبیل کے افراد عمران خان کے بارے میں ٹھنڈا دماغ رکھ ہی نہیں سکتے۔ پھرسوال اٹھتا ہے کہ کون بات کرے گا یا کس کو کرنی چاہیے؟ بہرحال اس سوال کے جواب میں گئے بغیر اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ سلاخوں کے باوجود اگر کوئی شخص سیاست کا محور بن چکاہے توبات اُسی سے کرنی ہوگی۔ دو سال سے زائد عرصے میں اپنی مرضی تو چلائی گئی لیکن اُس سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ یہ کہنا تو اب ہرگزمبالغہ نہیں رہا کہ ملک و قوم کا ستیاناس ہوگیا ہے۔ بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذکر ہر زبان پرہے۔ کوئی محفل ہو‘ موضوع ملک کی ابتر حالت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔توپھر کس چیز کا انتظار ہے؟ اب اگر بنگلہ دیش کی صورتحال کا ذکر کریں اگلوں کا موڈ خراب ہو جائے گاکہ ہمیں دھمکانے کی کوشش کررہے ہو۔ حضوریہاں دھمکانے کی بات نہیں جولاوا پک رہا ہے اُسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔بہت سارے لوگوں نے توفیصلہ اپنے پیروں پر چھوڑرکھا ہے۔ وہ یہاں سے باہرجا رہے ہیں یا باہر جانے کی سوچ رہے ہیں۔ لیکن یہاں کی ساری آبادی کہیں کھپ تو نہیں سکتی‘ ہم جیسوں نے یہیں رہنا ہے۔ اسی لیے فکرمند ہیں کہ ہرنئے روز کا آغاز ایک برُی خبر سے ہو تا ہے۔ کہیں تو یہ سلسلہ رکے ‘ کوئی تو بہتری کے آثار نظرآئیں۔
کسی ایک شخص کی مدح سرائی یہاں مقصود نہیں۔ ہمت کا مظاہرہ ہوچاہے اُس کا مرتکب کوئی بھی ہو اُس کی داد دینی پڑتی ہے۔ پھر اس حقیقت کو کون جھٹلائے کہ قوم ایک طرف کھڑی ہے۔خداداد ہمت ہو اورقوم بھی ساتھ کھڑی ہو ‘نتیجہ پھرآپ خود ہی اخذکرلیجئے۔