پاک امریکہ تعلقات: ماضی‘ حال اور مستقبل

پاک امریکہ تعلقات قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک بہت سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وقت کے ساتھ دونوں ملکوں کے مابین وہ رشتہ قائم نہیں ہو سکا جو اِن تعلقات کا بنیادی تقاضا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام اور مفادات کو اپنی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا یا۔ حالانکہ پاکستان نے اپنے قیام کے وقت سوشلسٹ بلاک کو نظر انداز کرکے امریکہ کے ساتھ روابط قائم کیے تھے۔ دو طرفہ تعلقات کے اس سفر میں بے شمار پیچیدگیوں کے باوجود لچک کا مظاہرہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے یہ تعلقات پاکستان کی سٹریٹجک پوزیشن اور گلوبل جیو پالیٹکس کے گرد گھوم رہے ہیں۔
تاریخ میں جھانکا جائے تو سرد جنگ کے دوران پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی تھا۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر جب سوویت یونین نے افغانستان میں چڑھائی کی تو امریکہ نے پاکستان کی مدد سے ہی افغانستان میں سوویت یونین کا راستہ روکا۔ تاہم سوویت یونین کے افغانستان سے رخصت ہونے کے بعد پاک امریکہ تعلقات کے درمیان سرد مہری آ گئی جو اب تک موجود ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین ابتدا میں عسکری‘ معاشی اور سفارتی سطح پر مضبوط تعلقات کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ علاقائی استحکام‘ امن اور معاشی ترقی ان تعلقات کی نمایاں خصوصیات تھیں اور یہ تعلقات اکیسویں صدی کے اوائل تک فعال و مضبوط رہے۔ دونوں ملکوں کے مابین کئی ایک معاہدے بھی ہوئے۔ گلوبل چیلنجز سے لے کر انسدادِ دہشت گردی‘ علاقائی استحکام‘ معاشی شرح نمو اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل میں ان تعلقات سے استفادہ کیا گیا۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد درحقیقت سکیورٹی و فوجی تعاون ہے۔ علاقائی امن و استحکام کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں پاک امریکہ مشترکہ اقدامات کی ایک تاریخ ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات امریکہ کیلئے ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں انسدادِ دہشت گردی کے خلاف جو کارروائیاں کی ہیں ان میں امریکی تعاون کا اہم کردار رہا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خطے میں امن و سلامتی کے قیام میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کو ہمیشہ ملٹری امداد فراہم کی۔ پاک امریکہ تعلق نے جنوبی ایشیا کو مزید محفوظ بنا دیا اور پاکستان ہنوز خطے کی سلامتی کیلئے پُرعزم ہے۔
سکیورٹی تعلقات میں مزید بہتری لانے کیلئے 2021ء میں پاکستان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد سے بات چیت کی گئی۔ گفتگو کا مرکز انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کی استعداد کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس معلومات کی شیئرنگ کے میکانزم کو وسعت دینا تھا۔ بعدازاں اس کو کاؤنٹر ٹیرر ازم سے بارڈر سکیورٹی ایشوز‘ جیسا کہ نیو کلیئر عدم پھیلاؤ‘ سائبر سکیورٹی اور میری ٹائم سکیورٹی تک بڑھا دیاگیا۔ Strategic Stability Dialogueکے تحت دونوں ملکوں کو مذکورہ ایشوز کیلئے پلیٹ فارم مہیا کیا گیا۔ SSD نے 2022ء میں ایک بار پھر حساس ترین سکیورٹی معاملات پر دونوں ملکوں کے درمیان باہمی رابطے بڑھانے کا کام کیا۔ پاکستان کا جوہری پروگرام پُرامن اور محفوظ ہے اور پاکستانTreaty on the Non-Proliferation of Nuclear Weapons پر دستخط کیے بغیر ہی جوہری عدم پھیلاؤ کے اصول پر عمل پیرا ہے۔ خطے میں مستحکم و محفوظ نیوکلیئر ماحول کیلئے دونوں کی باہمی کاوشیں نہ صرف علاقے بلکہ عالمی کمیونٹی کیلئے اہم ہیں۔ گلوبل سکیورٹی تعاون نے ان تعلقات کی اہمیت اور بڑھا دی ہے۔ پاک بحریہ کا میری ٹائم روٹ پر سمگلنگ کی روک تھام‘ بحری قذاقی اور دہشت گردی کے خلاف پانیوں کی حفاظت و نگہبانی میں اہم کردار ہے۔ پاکستان نیوی نے امریکی نیوی کے ساتھ متعدد مشترکہ گشت اور مشقیں بھی کیں۔ سائبر سکیورٹی میں بھی پاک امریکہ اتحاد و تعاون و شراکت داری کا اہم حصہ ہے۔ سائبر دھمکیوں کے پیش نظر دونوں ملکوں نے مزید تعاون جاری رکھا ہوا ہے۔ سائبر سیکورٹی انفراسٹرکچر‘ سائبر حملوں سے بچاؤ کیلئے انٹیلی جنس شیئرنگ اور صلاحیتوں میں مزید اضافے کے ساتھ ڈیجیٹل ماحول کو مزید محفوظ بنانے پر کام کیا گیا۔ سائبر سکیورٹی کے حوالے سے دونوں ممالک کے مابین ابتدائی ڈائیلاگز کا آغاز 2023ء میں ہوا ۔ مزید برآں امریکہ سالانہ چھ ارب ڈالر تجارت کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ امر یکی کمپنیوں نے وسیع پیمانے پر پاکستان میں مختلف شعبوں ٹیکنالوجی‘ زراعت اور توانائی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کو جنوبی ایشیا کا گیٹ وے تسلیم کرتے ہوئے بڑے معاشی معاہدے کیے۔ 2023ء میں پاک یو ایس گرین الائنس تشکیل دیا گیا جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ہے جس سے تجارت بڑھنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے بھی مزید مواقع دستیاب ہوں گے۔ امریکی تکنیکی تعاون اور کپیسٹی بلڈنگ پروگرام سے پاکستان میں آئی ٹی اور ایکو سسٹم سٹارٹ اپ میں ایک بہتر پوزیشن پر ہے۔ ٹیک سٹارٹ اپس کے مشترکہ منصوبے اور نالج ایکسچینج پروگرام سے دونوں ملک معاشی تعلقات کے ایک نئے دور میں داخل ہوئے جو خوشحال مستقبل کی ضامن ہے۔ سیلاب و دیگر قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی میں امریکہ نے متعدد بار پاکستان کو مدد فراہم کی جس سے متاثرہ علاقوں میں تعلیم‘ معیارِ زندگی‘ صحت اور انفراسٹرکچر کی ازسر نو تعمیر میں مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ USAID نے پاکستان بھر میں دور دراز علاقوں میں تعلیم اور خواتین کی خودمختاری سمیت دیگر ترقیاتی منصوبے شروع کیے۔ 2023ء میں USAID نے پاکستان کو 21ملین ڈالر کی گرانٹ اعلیٰ تعلیم کیلئے فراہم کی تھی۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔ تعلیمی و ثقافتی ایکسچینج پروگرام کے تحت ہزاروں طلبا امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی مہارت و تعلیم کے ذریعے قومی تعمیر و ترقی میں مصروفِ عمل ہیں۔ Fulbright Foreign Student Program کے تحت ہزاروں پاکستانی طالب علموں کو امریکی یونیورسٹیوں میں سکالرشپس مل چکی ہیں۔ 2017ء میں US-Pakistan Knowledge Corridor کے نام سے پی ایچ ڈی پروگرام لانچ ہوا۔ امریکی و پاکستانی یونیورسٹیوں میں فیکلٹی ایکسچینج پروگرام بھی جاری ہے۔ 2024ء میں اس کوریڈور کا دائرہ کار لانگ ٹرم اکیڈمک معاہدوں تک بڑھا دیا گیا۔ گلوبل ہیلتھ کوآپریشن کے تحت کووڈ 19میں فری ویکسین ‘ میڈیکل سپلائز اور ٹیکنیکل تعاون فراہم کیا گیا۔ اگست2023ء میں ایک میمورنڈم پر دستخط ہوئے جس کے تحت متعدی امراض اور ویکسین ڈویلپمنٹ کے حوالے سے ترجیحی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ رواں برس نومبر میں امریکہ میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی نئی امریکی حکومت میں پاک امریکہ تعلقات کیسے ہوں گے؟ قطع نظر اس کے کہ کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ میں سے کون وائٹ ہاؤس کا مکین ہو گا‘ پاک امریکہ تعلقات ہمیشہ سے مضبوط بنیادوں پر استوار رہے ہیں اور یہ کئی دہائیوں سے سٹریٹجک پارٹنر ہیں‘ اس لیے یقینا پاک امریکہ تعلقات کا مستقبل امید افزا ہے۔ ہمیں بھی اس لحاظ سے اپنی خارجہ پالیسی ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ خطے میں امن و سلامتی کیلئے ہماری حکومت اور عسکری قیادت ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کیلئے سر گرم ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں