چھ ستمبر کو حسبِ معمول‘ اس بار بھی یومِ دفاع دھوم دھام سے منایا گیا۔ ملک بھر میں جنگِ ستمبر کے شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا‘ قبروں پر پھول چڑھائے گئے اور ان کے اعزاء و اقرباء کی تکریم کے لیے تقریبات منعقد کی گئیں۔ صدرِ پاکستان‘ جناب وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف نے پُرزور الفاظ میں پاکستان کی حفاظت کا عہد کیا‘ افواجِ پاکستان پر پھول نچھاور کیے اور یقین دلایا کہ عوام اور فوج کے درمیان دل کا رشتہ مضبوط ہے اور مضبوط رہے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دفاعِ پاکستان صرف فوج کی ذمہ داری نہیں ہے وہ اکیلے یہ فرض ادا کر سکتی ہے‘ نہ ہی اس کی طرف سے کبھی اس کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ عوام فوج کی پشت پر کھڑے ہو کر اس کے حوصلوں کو ناقابلِ تسخیر بناتے ہیں۔ اگر دونوں کے درمیان بداعتمادی پیدا ہو جائے تو جدید سے جدید اسلحہ بھی بھوسے کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔ جنگیں صرف اسلحے کے زور پر نہیں لڑی جاتیں‘ ظلم اور ظالم کا مقابلہ کرنے والوں کی اخلاقی برتری انہیں زندہ و جاوید بناتی اور تاریخ کے اوراق میں روشن رکھتی ہے۔ اصولوں اور اقدار کے لیے جان دینے والے مر کر بھی زندہ رہتے اور کسی وقتی ناکامی سے دوچار ہونے کے باوجود بھی یوں کامران ہوتے ہیں کہ نسل در نسل ان کا تذکرہ قوموں کو توانائی عطا کرتا چلا جاتا ہے۔ ان کا خون آبِ حیات بن کر رگوں میں دوڑتا اور جبرِ ناروا کے خلاف سینہ سپر رہنے کا جذبہ زندہ رکھتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چھ ستمبر کا دن ہماری تاریخ کے انتہائی یادگار دنوں میں سے ایک ہے۔ 59سال پہلے جب بھارتی فوجوں نے ہماری بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرنے کی کوشش کی تو ہمارے جوانوں نے ان کے سامنے اپنے ولولوں کی دیوارِ چین کھڑی کر دی۔ اپنے سے کئی گنا بڑے حملہ آور کے دانت کھٹے کر دیے اور اس کے عزائم کو ناکامی سے دوچار کر دیا۔ بری‘ بحری اور فضائی فوج نے اپنے اپنے طور پر تاریخ رقم کی‘ اپنی صلاحیت اور تربیت کی دھاک بٹھا دی۔ پاکستانی قوم بھی فوج کے ساتھ جڑ گئی‘ ہر طرح کے اختلافات بھلا دیے گئے۔
جنگ سے چند ہی ماہ پیشتر صدارتی انتخاب کا معرکہ برپا ہوا تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ میدان میں تھیں‘ انہیں متحدہ حزبِ اختلاف کی حمایت حاصل تھی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے قوم کے منتخب نمائندوں کا بنایا ہوا دستور منسوخ کر کے اپنی مرضی کا جو نظام رائج کیا تھا‘ اس میں صدر ہی اختیارات کا مرکز تھا۔ عوام سے بالغ رائے دہی کا حق چھین لیا گیا تھا‘ صدر اور اسمبلیوں کا انتخاب بالواسطہ منعقد ہوتا تھا۔ عوام بنیادی جمہوریتوں کے 80ہزار اراکین کو منتخب کرتے تھے اور وہ بعد ازاں صدر اور اسمبلیوں کا انتخاب کرتے تھے۔ ان اراکین کو انتظامیہ دباؤ میں لا کر مرضی کے نتائج حاصل کر سکتی تھی بلکہ کر چکی تھی۔ مشرقی اور مغربی صوبوں کے گورنر صدر کے نامزد کردہ ہوتے تھے‘ ان کے چناؤ میں عوام کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ یوں پورے ملک پر فردِ واحد کی حکمرانی کا دستوری اہتمام کر دیا گیا تھا۔ صدر ایوب خان نے 1962ء میں یہ دستور مسلط کیا تو اس کے آغاز ہی میں لکھ دیا گیا تھا کہ یہ قوم کو ان کی طرف سے عطا کیا گیا ہے۔ عوام کی بھاری اکثریت نے اس نظام کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے تحت صدارتی انتخاب منعقد ہوئے تو اپوزیشن جماعتوں نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو میدان میں لاکھڑا کیا۔ ان کا وعدہ تھا کہ وہ کامیابی کے بعد 1956ء کا پارلیمانی نظام بحال کریں گی اور ملک کو اس پٹڑی پر پھر چڑھا دیں گی جس سے اسے اُتارا گیا تھا۔ بنیادی جمہورتوں کے اراکین کے ذریعے فیلڈ مارشل ایوب خان نے مرضی کے نتائج حاصل کر لیے اور ایک بار پھر صدارت کا منصب سنبھال لیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے دل زخمی تھے‘ انہیں انتخابی عمل پر شدید اعتراضات تھے لیکن جونہی جنگ مسلط ہوئی‘ سارے اختلافات پسِ پشت ڈال کر انہوں نے اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ مخالف رہنما ایوانِ صدر میں جمع ہوئے اور ایوب خان کے شانے سے شانہ ملا دیا۔ چھ ستمبر ہمیں اسی جذبے اور اتحاد کی طاقت کی یاد دلاتا اور ہماری رگوں میں نیا خون دوڑاتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر محترمہ فاطمہ جناحؒ صدر منتخب ہو جاتیں تو جنگِ ستمبر کی نوبت ہی نہ آتی۔ وہ حالات پیدا نہ ہوتے جن میں یہ جنگ شروع ہوئی اور یوں پاکستان امن اور ترقی کی شاہراہ پر اپنا تیز تر سفر جاری رکھتا۔ جنگِ ستمبر کی بنیاد آپریشن جبرالٹر نے رکھی جس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی قبضے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ بھارت کشمیر میں دباؤ کا سامنا نہ کر سکا تو اس نے بین الاقوامی سرحد پر جنگ چھیڑ دی اور اسی کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا پاکستانی خواب ادھورا رہ گیا۔اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی تو عوام کے اُبھرے ہوئے جذبات کا رخ ایوبی اقتدار کی طرف مڑ گیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر اعلانِ تاشقند پر دستخط کرنے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور یوں وہ اتحاد پارا پارا ہو گیا جو جنگ کی بدولت وجود میں آیا تھا۔
ایوب خان کے مخالفوں کا استدلال تھا کہ اگر ہم نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں تو پھر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات بھی ہونے چاہئیں تھے‘ ایوب خان کے وزیر خارجہ نے بھی منہ بسور لیا اور اپنے صدر پر سودے بازی کا الزام لگا کر (کچھ ہی عرصے بعد) اپنا راستہ الگ کر لیا۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی‘ ہزار سال تک جنگ لڑنے کا نعرہ لگا کر مرکزِ نگاہ بن گئے۔ ایوب خان گھر کے رہے نہ گھاٹ کے‘ صحت جواب دے گئی اور اعصاب بھی۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اپنے چھ نکات کے ساتھ میدان میں آ دھمکے۔انہیں وزیر خارجہ کے اس بیان نے شہ دے دی تھی کہ مشرقی پاکستان کی حفاظت کا ذمہ چین نے لیا تھا‘ گویا مغربی پاکستان اس کے دفاع کے قابل نہیں تھا۔ سوال یہ کھڑا کر دیا گیا کہ اگر چین ہی کی وجہ سے محفوظ رہنا ہے توپھر مغربی پاکستان میں بیٹھی ہوئی مقتدرہ کی دھونس کیوں برداشت کی جائے‘یوں پاکستانی سیاست بکھرتی چلی گئی۔
59برس گزرنے کے باوجود آپریشن جبرالٹر کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی اُس کے برسوں بعد ہونے والے آپریشن کارگل کا سرا تلاش کیا جا سکا ہے۔پاکستانی ریاست کی اس بے نظمی نے اس کے لیے شدید مشکلات پیدا کی ہیں‘جب تک ہم فیصلہ سازی کو باقاعدہ اور شفاف نہیں بنائیں گے‘ آئینی طور پر قائم فیصلہ ساز اداروں کو فیصلہ کُن کردار ادا نہیں کرنے دیں گے‘ ہماری کشتی ہچکولے کھاتی رہے گی اور چھ ستمبر سوالیہ نشان بنا رہے گا۔
بھابھی جان‘ خدا حافظ!
مرحوم برادرِ بزرگ صاحبزادہ رضاء الرحمن شامی کی اہلیہ‘ فوزیہ بیگم گزشتہ اتوار اسلام آباد میں انتقال کر گئیں۔وہ اپنے بیٹے حماد رضا شامی کے ساتھ وہیں مقیم تھیں۔اس جہانِ فانی میں گزارے ہوئے اپنے 85سالوں میں سے26سال اُنہوں نے بیوگی کے گزارے۔وہ شامی خاندان کی سب سے سینئر رکن اور ہمارا روحانی سہارا تھیں‘عبادت گزار‘ برد بار‘ کفایت شعار‘ ملنسار‘ بڑی باضابطہ زندگی گزاری اور خاندانی امور میں ہماری رہنمائی کرتی رہیں۔اُن کے لیے دعائے مغفرت فرمایے‘ اللہ اُنہیں اپنے مرحوم شوہر کے ساتھ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے(آمین)
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)