سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا پیغام تھا کہ وہ کچھ اینکرز سے ملنا چاہ رہے ہیں۔ اینکرز میں محمد مالک‘ ثمرعباس‘ اطہر کاظمی وہاں موجود تھے۔ بلوچستان سے سینیٹر دنیش کمار بھی آئے ہوئے تھے۔ بلوچستان میں پچھلے دنوں دہشت گردی میں پنجاب کے لوگوں کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا اس پر کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔محمد مالک‘ کاکڑ صاحب اور اطہر کاظمی کے درمیان کافی دیر تک بحث ہوتی رہی۔ میں اور ثمر عباس چپ چاپ وہ علمی بحث سنتے رہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ایک بات سمجھ آئی ہے کہ اگر کسی محفل میں موجود لوگ آپ سے بہتر گفتگو کررہے ہوں تو آپ خاموش رہیں۔ گفتگو کو سنیں‘ سمجھیں اور Absorb کریں۔ اگر آپ کے پاس اس گفتگو کو بہتر کرنے کیلئے کوئی نئی بات نہیں تو ضروری نہیں کہ آپ بولیں تاکہ اپنی موجودگی کا احساس دلا سکیں۔ دوسرے لوگوں کے پاس بھی انفارمیشن ہوتی ہے لہٰذا ان محفلوں میں اکثرچپ چاپ رہ کر دوسروں کوسننے کو دل کرتا ہے۔ اگرچہ چپ رہنا مشکل کام لگتا ہے لیکن اگر آپ خاموش رہنے کی پریکٹس کرتے رہیں تو دھیرے دھیرے دیگر عادتوں کی طرح خاموش رہنے کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔ میرے دوستوں میں اگر کسی کو دوسروں کو گھنٹوں خاموشی سے سنتے دیکھا تھا تو وہ ہمارا شہید دوست ارشد شریف تھا۔ وہ گھنٹوں کسی کو بھی مسکراتے چہرے کیساتھ سن سکتا تھا ‘بغیر بوریت کے احساس کے۔
خیر جب بات شروع ہوئی تو کاکڑ صاحب پوچھنے لگے‘ سنائیں کیا حالات چل رہے ہیں؟ میں نے مسکرا کر کہا: سر جی جب ایک صحافی ملک کے سابق وزیراعظم سے مل رہا ہو تو عقل کا تقاضا ہے کہ وہ وزیراعظم کو سنے نہ کہ اپنی سنانا شروع کر دے۔صحافیوں کو کبھی یہی سبق سکھایا جاتا تھا کہ حکمرانوں سے ملاقات میں زیادہ سیانا نہیں بننا کہ ہمیں سب پتا ہے بلکہ آپ کو اگر باتوں کا علم بھی ہو تو بھی ایسے ایکٹ کرنا ہے جیسے آپ کو کچھ علم نہیں۔ اگر آپ نے اعلیٰ حکام پر اپنے نالج کا رعب جھاڑنے کی کوشش کی تو ایک بھی خبر نہیں نکلے گی۔ آپ جیسے گئے تھے ویسے ہی لوٹ آئیں گے‘ ا ور یہ صحافی کیلئے شرم کا مقام ہے کہ وہ ایک سابق وزیراعظم سے مل کر آئے اور اس کے پاس کوئی خبر نہ ہو۔ وہ محض رعب ڈال کر آگیا کہ انہیں پتا چلے کہ مجھے وزیراعظم سے بھی زیادہ علم ہے۔
کاکڑ صاحب سے میری پہلی ملاقات برسوں پہلے ایف6 مرکز میں مسٹربُکس کے باہر ہوئی تھی۔اُس وقت وہ نواز لیگ کے بلوچستان میں ترجمان تھے۔میرا چھوٹا بیٹا میرے ساتھ تھا جسے کتابیں دلوانے مسٹربُکس جا رہا تھا۔ بیٹا شاید دس بارہ برس کا ہوگا۔کچھ ماہ پہلے ان کی میرے بیٹے سے اچانک ملاقات ہوگئی تو اسے یاد دلایا کہ تم سے مسٹر بُکس کے باہر ملاقات ہوئی تھی۔ کاکڑ صاحب سے دوسرا تعارف سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاسوں میں ہوا جہاں وہ ڈٹ کر بلوچستان کے ایشوز پر بات کرتے تھے۔ ان سے تیسرا تعارف انکے نگران وزیراعظم بننے کے بعد ہوا۔ وہ ایک پڑھے لکھے وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے اور اپنی انگریزی ‘اعتماد اور نالج سے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا۔مشکل ایشوز پر انکی گرفت بھی قابل ِتعریف تھی۔ آپ ان سے سو اختلاف کر سکتے ہیں‘ میں بھی چند ایشوز پر کرتا رہا ہوں لیکن انہیں پاکستانی سیاست‘ یہاں کے ایشوز اور عالمی سطح کی سیاست کی سمجھ بوجھ دیگر سیاستدانوں سے بہت بہتر ہے۔ جب وہ وزیراعظم تھے تو انکے بارے میں جہاں نئے نئے انکشافات ہوئے وہیں ان سے اختلافات بھی کچھ ایشوز پر پیدا ہوئے۔ کاکڑ صاحب بھی عمران خان کی طرح Well leftپر یقین نہیں رکھتے۔ وہ ہر بات‘ کمنٹ‘ سوال یا تنقید پراپنا ردِعمل ضرور دیتے رہے ہیں۔ خان صاحب بھی یہی کرتے تھے۔ اس محفل میں محمد مالک کاکڑ صاحب سے حیرانی سے پوچھ رہے تھے کہ ماہ رنگ بلوچ کیسے اتنی بڑی لیڈر بن گئی کہ اب اس نے بلوچستان میں بڑے بڑے جلسے کر لیے؟ وہ لوگوں کیلئے مزاحمت کا نشان بن کر ابھری ہیں۔اتنے بڑے جلسے تو اب حکومت کے حامی سردار نہیں کر سکتے۔
خیر کاکڑصاحب سے میرے بھی چند ایشوز پر اختلافات ہوئے‘ جن کا انہوں نے بطور وزیراعظم سخت جوا ب دیا تھا۔ ان میں ایک ماہ رنگ بلوچ کا ایشو بھی تھا۔ جب ماہ رنگ بلوچ ساتھیوں سمیت اسلام آباد آئیں اور کئی دن دھرنا دیا تو میں نے ٹویٹ کر کے کہا تھا کہ بہت بہتر ہوگا انہیں سنا جائے۔اگر کاکڑ صاحب مناسب سمجھیں تو انہیں وزیراعظم ہاؤس بلا کر چائے پانی پلائیں۔ وہ خود بھی ان کے دھرنے میں جا سکتے ہیں اور ان کی بات سُن سکتے ہیں۔اس پر کاکڑ صاحب کا الگ نکتہ نظر تھا۔ انہوں نے اس کا سخت جواب دیا جس سے مجھے مایوسی ہوئی۔ جب ماہ رنگ بلوچ کے ساتھیوں پر اسلام آباد میں لاٹھی چارج ہوا‘ پکڑ دھکڑ ہوئی‘عورتوں اور بچوں پر سردیوں میں پانی پھینکاگیا اور گرفتار کر کے تھانے لے جایا گیا تو میں نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ یہی ماہ رنگ بلوچ کا مقصد تھا جو پورا ہوگیا۔ یہ لوگ بلوچستان کے نوجوانوں کو دکھانا چاہتے تھے کہ ہم اسلام آباد انصاف مانگنے گئے‘الٹا ہمیں اسلام آباد کی سڑکوں پر مارا پیٹا گیا‘ گھسیٹا گیا‘ ہماری خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ ان سب کو وڈیو کلپس کی تلاش تھی جو انہیں اسلام آباد کی سڑکوں پر فراہم کر دیے گئے۔ ان خواتین اور بچیوں کو سڑکوں پر مارپیٹ یا گھسیٹنے کے وڈیوز کلپس پھیلنا شروع ہوئے تو یقینا اس سے بلوچ مزید ناراض ہوئے اور یوں دہشت گردوں کو نئے نوجوان بھرتی کرنے میں آسانی ہوئی۔ پنجاب کے خلاف مزید نفرت بڑھی۔ ماہ رنگ بلوچ کو غلط انداز میں ہینڈل کیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بلوچستان میں عام لوگوں اور نوجوانوں کی ہیرو بن کر ابھری ہیں‘ ورنہ چند ماہ پہلے تک انہیں عام پاکستانی نہیں جانتا تھا۔ بعض دفعہ کسی بندے کو ڈنڈے مار کر مارنے کے بجائے گڑ کھلا کر بھی مارا جا سکتا ہے۔ ہر جگہ طاقت کا استعمال رزلٹ نہیں دیتا۔ اب محمد مالک پوچھ رہے تھے کہ ماہ رنگ بلوچ کیسے راتوں رات ہزاروں لوگوں کو سڑک پر لاسکتی ہے‘اس میں ایسا کیا ہے؟ میرے خیال میں ماہ رنگ بلوچ کو اسلام آباد کے حکمرانوں اور پولیس نے ہیرو بنا کر واپس بھیجا تھا۔
خیر کسی سوال پر بات ہونے لگی کہ پنجاب میں لاشیں آنے کے باوجود یہاں وہ ری ایکشن نہیں آتا۔ پنجاب کے لوگ اب بھی ان دہشت گردوں کو شک کا فائدہ دینا چاہتے ہیں جو معصوم لوگوں کو مار رہے ہیں۔قتل ہو کر بھی ان کے دلوں میں نفرت نہیں ہے۔ وہ اب بھی حکومت کو سافٹ اپروچ اختیار کرنے کی بات کرتے ہیں۔میں نے بڑی دیر بعد خاموشی توڑی اور کہا: دراصل پنجاب کے لوگ پچاس سال سے ایک احساسِ جرم کا شکار ہیں۔ وہ ہے بنگلہ دیش کا بننا۔ پنجاب کے لوگوں کو لگتا ہے بنگلہ دیش میں بھی طاقت کے استعمال سے نتائج بہت برُے نکلے تھے۔ ملک ٹوٹ گیا۔ اُس وقت شاید مشرقی پاکستان دور ہونے کی وجہ سے مغربی پاکستان میں کسی کو کچھ پتا نہ تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ ایک صبح اُٹھے تو ملک ٹوٹ چکا تھا‘ لہٰذا آج کے جدید سوشل میڈیا دور میں جب ہر لمحے خبریں مل رہی ہوتی ہیں تو پنجاب میں لوگ بلوچستان کو بھی بنگلہ دیش کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں ڈر لگتا ہے کہ دوبارہ کچھ غلط نہ ہو جائے۔ یوں اسے احساسِ جرم کہیں یا 50سال پرانا خوف کہ وہ بلوچستان کے مسئلے پر ریاستی تشدد یا دیگر اقدامات کی اس طرح سپورٹ نہیں کرتے جیسے مقتدرہ ان سے توقع رکھتی ہے۔ وزیراعظم کاکڑ نے کہا: یہ بات واقعی سمجھ میں آتی ہے کہ پنجاب کے لوگوں میں بلوچستان کے حوالے سے موجود حساسیت کو میں بنگلہ دیش سینڈروم سمجھتا ہوں۔بنگلہ دیش کا زخم ابھی تازہ ہے لہٰذا پاکستانی لوگ بلوچستان میں BLA کے ہاتھوں تمام تر لاشیں اور دکھ اٹھانے کے باوجود ریاست کا اس طرح ساتھ نہیں دے رہے جتنی کہ ریاست توقع رکھتی ہے۔