رومن ایمپائر کے زوال پر ایڈورڈ گِبن نے جو تاریخ لکھی اُس کا شمار دنیا کی بہترین تاریخ کی کتابوں میں ہوتا ہے۔ زبان اور سٹائل ایسا کہ پڑھتے ہوئے مزہ آجاتا ہے۔دنیا کے جھمیلوں سے کوئی بیزار ہو تو گِبن کی یہ کتاب اور اس جیسی دو تین اور کتب پاس ہوں ‘ شام کے سایوں یا تنہائیوں کیلئے بھی کچھ مداوا ہو‘ توانسان کو اورکیا چاہیے۔ سطلنتِ روما کے بڑے بڑے قیصر ہوئے ہیں‘ ان میں بہتوں کی خوبیاں بے شمار تھیں اورجو عیاشی اورقتل و غارت کی راہوں پر چلے اُنکے کارنامے پڑھ کر بھی انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔
مغلوں کے عروج کی باتیں اپنی جگہ لیکن اُس سلطنت پر زوال کے سائے گہرے ہوئے توچاشنی والا مزہ تب آتا ہے۔ اورنگزیب عالمگیرکی وفات 1707ء میں ہوتی ہے اور1739ء میں ایران سے نادرشاہ نازل ہوتا ہے۔ دِلی کے قریب مغل سپاہ کو شکست ہوتی ہے اورنادرشاہ مغل دارالحکومت پر قابض ہوجاتا ہے۔ شہر میں شور اٹھتا ہے توقتلِ عام کا حکم دے دیا جاتا ہے اورپھر ایرانی تلواریں ایسی چلتی ہیں کہ دِلی کی گلیاں خون میں نہلا دی جاتی ہیں۔مغل شہزادیوں کو نادرشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اوربہو بنانے کی خاطران میں سے ایک کا چناؤ ہوتا ہے۔ ایرانی فوج واپسی کا منہ کرتی ہے توخزانۂ دلی کو خالی کرکے جاتی ہے۔ جسے انگریزی میں Peacock Throne کہتے ہیں وہ اسی لوٹ مار میں نادرشاہی فوج کے قبضے میں آیا۔ معاہدہ ٔ شکست کے تحت پنجاب اورافغانستان سلطنتِ ایران کے حوالے کردیے گئے۔ نادرشاہ کی وفات کے بعدجب احمدشاہ ابدالی حاکمِ کابل بنا توپنجاب اُسی ناتے اُس کی سلطنت کاحصہ بنا۔ یعنی پنجاب اُس حملے کے نتیجے میں مسلمانانِ ہند کے ہاتھوں سے نکل گیاتھا۔ یہ تو سکھوں کی مہربانی کہ پنجاب کی سرزمین پر اُنہوں نے اپنی سلطنت قائم کی اور یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ہمت اوردلیری تھی جس کی وجہ سے افغان حاکمیت سے اٹک‘ نوشہرہ اور پشاور چھڑوائے گئے۔ سکھوں کے بعد انگریز آئے تو یہ سارا علاقہ اُن کے کنٹرول میں گیااورکیونکہ ہم انگریزوں کے وارث بنے توپشاور اور نوشہرہ ہمارے حصے میں آئے۔ اس روداد سے واضح ہوجانا چاہیے کہ سکھوں کا دور نہ آتا تودریائے سندھ کے پار سارے علاقہ جات سلطنتِ کابل کے زیرتسلط رہتے۔ اسی تاریخ کی وجہ سے کسی افغان حکومت یا حاکم نے وہ لائن جسے ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں تسلیم نہیں کی جو افغانستان اور برطانوی ہندوستان کے درمیان کھینچی گئی۔
اپنے زمانے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت بڑی مضبوط اور طاقتور تھی لیکن اُن کی وفات کے بعد تقریباً دس سال کے اندر وہ طاقتورریاست شکست وریخت کا شکار ہو گئی اوردوجنگوں کے بعد انگریزوں کا قبضہ اس خطے پر ہوگیا۔ انگریزوں نے ترکِ ہندوستان کا فیصلہ کیا اورہندوستان کی تقسیم ہوئی تو یہ علاقے پاکستان بن گئے۔ اس لیے یہ بات ذہن نشین رہے کہ زوالِ ِمغلیہ کے بعد مسلمانانِ ہند نے پنجاب ‘ سندھ اورپختونوں کے علاقوں کو بزورِشمشیر یابزورِبازوحاصل نہیں کیاتھا۔ یہ تو تقسیمِ ہند کے تحت ایک آئینی بندوبست کے ذریعے ایک نئی ریاست قائم ہوئی اور ظاہر ہے ہم اُس کے وارث بن گئے۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہ اس آئینی بندوبست کا حصہ نہ تھا۔ ریاستِ قلات کا اپنا ایک وجود تھاجسے پاکستان کے بننے کے تقریباً ایک سال بعد ختم کیا گیا اورقلات کاپاکستان سے الحاق عمل میں لایاگیا۔ تاریخِ بلوچستان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا‘ اس پر مزید روشنی کوئی منجھاہوا سکالر ہی ڈال سکتاہے۔
امریکہ کی تیرہ ریاستوں نے انگلستان کے خلاف بغاوت کی اور آزادی حاصل کرنے کے بعد ریاست ہائے متحدہ کو تشکیل دیا۔ ایک فیڈریشن قائم ہوئی لیکن اُن تیرہ ریاستوں نے اپنی اندرونی خودمختاری قائم رکھی۔مزید ریاستیں یونائیٹڈسٹیٹس کا حصہ بنتی گئیں لیکن ان سب نے بھی اپنی داخلی خودمختاری پر آنچ نہ آنے دی۔ روسی انقلاب کے بعد جب سوویت یونین تشکیل پایا توقائدِ انقلاب لینن نے مختلف قومیتوں کے الگ تشخص کو قائم رکھنے پر زوردیا۔ سٹالن بڑا جابر قسم کا حکمران تھا لیکن اُس کے زمانے میں مختلف قومیتوں کے کلچرکو زندہ رکھا گیا۔پاکستان کا البتہ انوکھاتجربہ ظاہر ہواکیونکہ یہاں کی مختلف قومیتوں کو ایک ہی مصنوعی نظریے کے سانچے میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ امریکہ میں پچاس ریاستو ں کی اندرونی خودمختاری متحدہ امریکہ کے وجود کیلئے کوئی خطرہ نہیں ۔ برطانیہ والے برملا کہتے ہیں کہ متحدہ سلطنت یعنی یونائیٹڈ کنگڈم چار قوموں کا مجموعہ ہے: سکاٹ لینڈ‘ ویلز‘ انگلینڈاورآئرلینڈ۔ یہ کہتے ہوئے اُنہیں کوئی ڈر نہیں کہ سلطنت بکھرسکتی ہے۔سکاٹ لینڈ کی آزادی پر ریفرنڈم ہوتا ہے لیکن کوئی آوازیں نہیں اٹھتیں کہ ہائے ہائے یہ کیا ہورہا ہے۔ پاکستان میں پتا نہیں کیا خوف ہمارے دلوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ یہاں پر کوئی قومیت کی بات کرتا تو فوراً سے پہلے اُسے غداری کا لقب دے دیاجاتا۔ آج ریاستِ پاکستان کو ایک نئی صورتحال کا سامنا ہے جس میں نظریات کی پرانی باتوں کی صدا اب سنائی نہیں دیتی۔فرسودہ باتوں سے آج کی صورتحال بہت آگے جاچکی ہے۔
اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ اگر یہاں زوال کی داستانیں نہیں لکھی جا رہیں توزوال جیسی داستانوں میں ہم گھرے ہوئے ضرور ہیں۔قومی اُفق پر بے یقینی اورلاچاری کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ امید کی کرن کوئی ہے بھی تونظر نہیں آرہی۔ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد کی مغلیہ تاریخ پڑھ لیں اورجو اُن میں کردارنمایاں تھے ویسے ہی کردار آج کے حالات میں نظرآتے ہیں۔مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوچکا تھا لیکن تب بھی امرا کے محل اور جاگیروں کا سلسلہ قائم تھا۔ پاکستان میں یہی صورتحال نظرآتی ہے۔ ایک طرف غربت اور لاچاری لیکن ساتھ ہی ہوشربا عیاشیاں۔ وسیع تر غربت کے ہم آہنگ بے پناہ دولت بھی ہے اور جن کے پاس دولت ہے وہ خرچ کرتے ہیں یا بیرونِ ملک لے جاتے ہیں‘ اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ روس کے دارالحکومت پیٹروگریڈ میں نومبر 1917ء کی جس شام انقلاب کی پہلی گولی چلی تھیٹروں اوراونچے ریستورانوں میں خوش لباس مردوخواتین کی اتنی ہی بھیڑ تھی جتنی کہ روز ہوا کرتی تھی۔ ایران کا انقلاب تونزدیک کی بات ہے‘ وہاں کے عوام جب شاہِ ایران کے خلاف سڑکوں پر آئے اُس زمانے میں ایران کے اوپر کے طبقات کی عیاشیوں کی کوئی حد نہ تھی۔ یہ اس لیے عرض کرنا ضروری ہے کہ کچھ لوگ کہتے نہیں تھکتے کہ حالات اگر اتنے خراب ہوں تواونچے شاپنگ مال اورریستوران اتنے بھرے نہ ہوں۔ یہ فضول کی دلیل ہے‘ وسیع ترغربت کے سمندر میں عیاشی کے جزیرے رہتے ہیں۔ آج کے پاکستان میں مہنگی گاڑیوں کی کمی نہیں لیکن اُن مناظر کو بھی یادرکھا جائے جن میں بھوک اور افلاس کی ماری مائیں بچوں سمیت نہروں میں چھلانگیں لگادیتی ہیں۔
ایسے حکیموں کی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ رونا اپنی جگہ لیکن کوئی حل بھی بتایا جائے۔ سلطنتِ مغلیہ جب زوال کا شکار ہوچکی تھی توکوئی کیا تجویز دیتا کہ اس عملِ زوال کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ آخر کے مغل بادشاہوں کے پاس حکمرانی کی کوئی چیز رہ نہیں گئی تھی‘ انگریز کے وظیفوں اور اپنے منعقدہ مشاعروں پرگزارہ کرنے لگے تھے۔ مرزااسداللہ غالب کی شاعری یا خطوط میں کوئی تجویز یا نصیحت ہے کہ زوالِ مغلیہ کو کیسے روکا جاسکتا ہے ؟ وہ بھی کیا منظر ہوگا ‘ ہندوستان کی سرزمین پر کون کون سی ڈرامائی تبدیلیاں رونما نہیں ہورہیں‘ کون کون سے طوفان نہیں اُٹھ رہے‘ اوربہادرشاہ ظفر لال قلعے کے دیوانِ خاص میں بیٹھے ذوق اور غالب کی شاعری کو داد دے رہے ہیں۔ اُس زمانے کی کوئی ایک کتاب تو ہو‘ کم از کم ہماری گناہگار نظروں کے سامنے سے ایسی کوئی کتاب نہیں گزری‘ جس میں زوالِ ہندوستان کی رودادلکھی گئی ہو۔