گوہم مکمل سیاستدان نہیں‘ ہمارا حال ایسا کہ آدھا تیترآدھابٹیر ‘ یعنی پوری طرح نہ ادھر کے نہ اُدھر کے‘ لیکن پھر بھی ہماری یہ سیاست ہوا کرتی تھی کہ جنازوں پر پہنچ جانا‘ فاتح کیلئے ہوا میں ہاتھ اٹھالینا۔ اب یہ کام سرکار نے سنبھال لیا ہے‘ جہاں دیکھیں جنازے اُٹھ رہے ہیں اور سرکار کندھے دیے ہوتی ہے۔ مذاق نہیں سنجیدگی کی بات ہے کہ نقصان کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے اورآئے روز کی تدفینوں سے شورش اور بحران کا ایک عجیب سا تاثرپیداہوتا ہے۔کے پی کے اور بلوچستان کو تو چھوڑیے‘ یہ جو کچے کے علاقے میں رن پڑا ہے‘ ہمارے بارہ پولیس والے شہید ہو گئے اورپھرتدفین کیلئے سارے چھوٹے اور بڑے پہنچ گئے۔ یہی رسم چل نکلی ہے کہ حالات پہ قابو تو پایا نہیں جارہا لیکن رسمی دکھاوے کی کارروائیاں بہت ہو جاتی ہیں۔ پنجاب حکومت نے کچے کے متعدد نامور ڈاکوؤں کے سروں پر انعام کا اعلان کردیا ہے اور اخبارات میں مطلوب ڈاکوؤں کے فوٹو چھپوائے گئے ہیں۔کچے کے علاقے میں شام کا کھانا کھاتے ہوئے ڈاکو حضرات ایک دوسرے کو یہ فوٹو دکھاتے ہوں گے۔
صبح اخباراٹھاتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کون سی نئی آفت کی خبرآئے گی۔بم دھماکے‘ چیک پوسٹوں پر حملے اوراُن میں ہلاکتیں روزمرہ کی خبریں بن چکی ہیں۔دوسری قومی مصروفیت دوست ممالک کے سامنے کشکول کرنا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے کرتے قوم کا خون پسینہ نچوڑ لیاگیا ہے لیکن آئی ایم ایف ہے کہ ا ب تک معاہدہ نہیں ہورہا۔ پہلے اگست کی نوید تھی اب تاریخ ستمبرتک بڑھا دی گئی ہے اور اب پتا چل رہا ہے کہ سعودی عر ب سے 1.2ارب ڈالر کی مزید درخواست کی جا رہی ہے۔ جو افلاطون ہمارے نصیب میں لکھے جاچکے ہیں اُن سے کوئی پوچھے کہ ملک چلانے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ وزیراعظم ہیں تواُن کا ایک ہی کام لگتا ہے کہ مکھن لگاتے رہیں۔ یہ جو حالیہ یوتھ کانفرنس ہوئی اُس میں وزیراعظم کے ارشاداتِ گرامی چونکا دینے والے تھے۔وہ کیا فقرہ تھا اُن کا کہ یک جان دو قا لب ہوکر قوم کی خدمت کی جارہی ہے۔ اوراُن کا اشارہ کس طرف تھا؟مزید تشریح کرنے سے ہم جیسے گناہگار قاصر ہیں۔
ہمارے دوست طارق کھوسہ آئی جی پولیس رہے ہیں۔ بلوچستان کی صورتحال پر نہایت ہی عمدہ مضمون لکھا اورپڑھتے ہی میں نے اُنہیں فون کیا۔ خون کے آنسو رو رہے تھے کہ بلوچستان میں کیا ہورہاہے۔ بات صرف بلوچستان کی نہیں رہی‘ اب تو یہ پوچھیں گے کہ ملک کے ساتھ کیا ہو رہاہے۔ کوئی سمجھ اور سوچ ہونی چاہیے لیکن یہاں تو یہی لگتا ہے کہ سوچ بچار کا خانہ ہی ختم ہو گیا ہے۔ اصل مسائل کیا ہیں اورہم لگے کن کے پیچھے ہیں۔ ٹوئٹریا ایکس یہاں پہ تقریبا ًناکارہ بنادیاگیا ہے‘ کیا عظیم کارنامہ ہے یہ ہمارا۔فائروال نام کی چیز کھڑی کر دی گئی ہے اوریہ دیوارِ چین سے بھی بڑا کارنامہ ہے۔ہماری شروعات میں کوئی خرابی لگتی ہے کہ حکمران طبقات کے طورطریقے شروع سے ہی عجیب رہے ہیں۔بنگالیوں کی شکایات چھوٹے چھوٹے مسائل سے شروع ہوئیں لیکن شکایات سننے کی بجائے اُنہیں وطن دشمن ‘ اینٹی ریاست اورپتا نہیں کیا کچھ کہا گیا۔ چھ نکات کوتو وہ ایک زمانے کے بعدتنگ آکر پہنچے نہیں تو شروع میں ہم سے زیادہ تصورِپاکستان کے وفادارتھے۔ یہاں کے حکمرانوں کو دیکھئے کہ بنگال کے حوالے سے پانی سروں سے اوپربہنے لگا اور اُنہیں پھر بھی بات سمجھ نہ آئی۔
بلوچوں کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے۔ ماہ رنگ بلوچ وغیرہ کا مسئلہ توگمشدہ افراد سے شروع ہوا۔کون سی افتاد اُنہوں نے کھڑی کی‘ یہی کہہ رہے تھے کہ گمشدہ افراد کو عدالتی دائرہ میں لایا جائے۔ اُن کے خلاف کچھ ہے تومقدمات قائم کیے جائیں۔ جب اُن کی با ت پر کوئی دھیان نہ دیا گیا تب وہ احتجاج پر مجبور ہوئے۔ یہاں کے رویے دیکھئے کہ بلوچوں کا قافلہ اسلام آباد آتا ہے تو جس بے حسی اوربے دردی سے اُس سے نمٹا گیا۔ بچے بوڑھے عورتوں سمیت نومبرکی سردراتوں میں نیشنل پریس کلب کے باہر پڑے ہیں اوراُنہیں تخریب کاری کے طعنے دیے جا رہے ہیں۔صحیح طریقے سے اُن کی بات تو کوئی سنتا۔اُنہیں کچھ کھانے پینے کو دیا جاتا‘ یہاں کے لوگوں میں عقل ہوتی توبلوچستان ہاؤس کے دروازے اُن کیلئے کھول دیے جاتے۔ ایسا ہوتا تواُن کے رویوں پر کچھ اثر تو پڑتا۔ بحیثیت قوم بلوچ ایسے ہیں کہ تھوڑی عزت کیلئے ترستے ہیں۔ اوریہاں کے حکمران حلقے ایسے ہیںکہ طاقت اور جبر کے نیچے تولیٹ جاتے ہیں لیکن کمزوریا محروم طبقات کو عزت دینا گناہ سمجھتے ہیں۔وہی لوگ جب بلوچستان کو واپس ہوئے اُن کے اندرغصہ سلگ رہا تھا۔ یہ جو گوادر والا قصہ اب ہوا ہے‘ بلوچ یکجہتی کونسل اورماہ رنگ بلوچ کے راستے میں ہروہ رکاوٹ ڈالی گئی جس کا سوچاجاسکتا تھا۔ لیکن وہ لوگ اپنے زورپر پھر بھی گوادرپہنچ گئے اور تب اُن سے سمجھوتا کرنا پڑا۔ افلاطونوں سے کوئی پوچھے کہ عقل سے کام کچھ پہلے لے لیا جاتا توخاصی شرمساری سے بچ جاتے۔ لیکن یہ سب فضول باتیں ہیں‘ جنہیں کچھ سننا اورسمجھنا چاہیے اُنہیں کون سمجھائے۔
فائروال کے اپنے محرکات ہیں‘ ایک جماعت کو دبانا ہے کیونکہ سرکاری ذہنوں میں یہ سوچ رچ بس گئی ہے کہ اس جماعت کا سب سے مؤثرہتھیار سوشل میڈیا ہے۔ اس کو قابو کرلیا جائے توجماعت کو قابو میں لانا آسان ہو جائے گا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ دو سال سے زائدکاعرصہ ہوچکا ہے‘ کون سے حربے اس جماعت کے خلاف استعمال نہیں ہوئے لیکن حاصل کیا ہواہے؟جماعت دب گئی ہے‘ ختم ہو گئی ہے‘ اس کے ورکرز اسے چھوڑگئے ہیں؟چند عہدیدار اورٹکٹ ہولڈر ادھراُدھرہوئے ہیں لیکن جماعت کو کیا فرق پڑا ہے؟بات تو تب بنتی کہ اندرون اڈیالہ جیل سے چیخ و پکار کی آوازیں آتیں‘ گرمی اور حبس کا رونا رویا جاتا‘ اے سی لگانے کی درخواستیں ہوتیں‘ دونوں میاں بیوی جواندر ہیں ان کے چہرے لٹکے ہوتے‘ حوصلے ٹوٹ جاتے‘ صحافیوں کے سامنے فریادیں کرتے کہ دیکھیے ہمارے ساتھ کتنا ظلم ہو رہا ہے۔ ایسا کچھ ہواہے؟ بشریٰ بی بی کے ناقدین کی کوئی کمی نہیں لیکن ماننا پڑتا ہے کہ جیل دلیری سے کاٹ رہی ہیں۔اپنے خاوند کیلئے سہارابنی ہوئی ہیں۔ یہی تو پریشانی ہے کہ جن کو پریشان کرنا تھا پریشان ہونے سے انکاری ہیں۔ بنیادی بات دماغوں میں جا نہیں رہی۔جن نوٹنکیوں سے رجیم چینج کے بعد حالات نہ سنبھلے گئے‘ جن کو حکومت نہ چلانی آئی‘ کیا فارم 47کی اسناد کو ہاتھوں میں تھامے حالات کو سنبھال سکتے ہیں؟ یہ تو طفیلی لوگ ہوئے‘ ان کی اصلیت قوم نہیں جانتی؟ رہ گیا مکھن لگانا ‘ اُس سے کام چلتا پھر تو اور بات تھی۔ لیکن حالات کچھ زیادہ بگڑ چکے ہیں۔وزیراعظم کو صدسلام لیکن مؤدبانہ گزارش ہے کہ بات مکھن لگانے سے آگے جاچکی ہے۔
سننے میں آتا ہے شاہجہان ثانی یعنی بڑے میاں صاحب لڈو کھیلتے دن گزارتے ہیں۔ مذاق نہیں کررہا‘ کرنے کو جوکچھ نہیں ہے۔سننے میں یہ بھی آتا ہے کہ داماد صاحب بھی ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ شاعر نے کیا کہا تھا ‘ آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں۔ زمانے کا ستم دیکھیے کہ اقتدارکا لشکارا اور چھٹی بھی کردی گئی ہے۔میاں صاحب کو چپ رکھنے کی قیمت پنجاب حکومت کی صورت میں اداکی گئی ہے۔وزیراعظم خوش اسلوبی سے اپنے ایجنڈے پر کارفرماہیں۔کچے کے علاقوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں تعلیم اورصحت کی سہولیات پہنچائی جائیںتاکہ وہاں کے باسیوں کی سوچ بدلے۔ پاکستان میں جہاں یہ سہولیات موجود ہیں وہاں کسی کا کیابگاڑاجاسکا ہے؟ کیا اَن پڑھ اور کیا پڑھے لکھے سب باہر جانے کی لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔ پڑھے لکھوں کا حال دیکھ کر کچے کے بادشاہ کہتے ہوں گے کہ ہم بغیر پڑھے ہی ٹھیک ہیں۔