جیسے ایکسٹینشن کے قانون کے لیے تمام سیاسی جماعتیں بشمول پی ٹی آئی بے تاب ہو گئی تھیں ایک بار پھر بے وقوفی کی ٹوپی پہن کر سیاسی جماعتیں آئینی پیکیج کے مسئلے پر استعمال ہونے کیلئے بے قرار لگ رہی ہیں۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی تو سمجھ آتی ہے کہ اُن کا مفاد اسی میں ہے کہ سپریم کورٹ کے پَر کاٹے جائیں اور جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکا جائے۔ لیکن پی ٹی آئی اور جے یو آئی کو کیا ہو گیا ہے؟ قوم کے سامے عذر یہ کہ اتفاقِ رائے پیدا کر رہے ہیں۔ کس بات پر اتفاقِ رائے؟ ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے کہ دیکھ نہیں سکتے کہ سرکار کے ارادے کیا ہیں؟ آئینی یا عدالتی اصلاحات میں کسی کی کوئی دلچسپی نہیں۔ اس سارے ناٹک کا ایک ہی مقصد ہے کہ شاہ جی کہیں چیف جسٹس نہ بن جائیں۔ اول اور آخر یہی ایک مقصد ہے‘ باقی سب لفاظی ہے۔
مولانا فضل الرحمن گرم و سرد دونوں چیزیں کر رہے ہیں۔ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ ہم اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ حکومت کا طریقہ کار صحیح نہیں اور وہ ڈرانے اور دھمکانے سے کام لے رہی ہے۔ اُن سے کوئی پوچھے کہ آپ جیسے زیرک سیاستدان کو یہ سمجھ نہیں کہ حکومت اس سارے ناٹک سے چاہتی کیا ہے؟ جب سب کو معلوم ہے کہ مقصد محض شاہ جی کا راستہ روکنا ہے‘ کہ کوئی اور بن جائے وہ نہ چیف جسٹس بنیں تو مذاکرات کا ڈھونگ رچانے کا مقصدکیا؟ جب بنیادی مقصد اس سارے فعل کا مشکوک ہے تو آپ اس فعل کا حصہ کیوں بن رہے ہیں؟ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ سوائے بدنامی کے اور آپ کے حصے میں کیا آ سکتا ہے؟ حالیہ مہینوں میں جے یو آئی سربراہ نے اپنا کھویا ہوا سیاسی مقام بہت حد تک واپس پا لیا ہے۔ کیوں پھر سے اس مقام کو کھونے کا خطرہ مول لے رہے ہیں؟ ہر کوئی اُن کے در پر حاضری دے رہا ہے۔ اصول کی اگر بات ہے تو ایک ہی طرف کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔ اگر آپ شکاریوں کے ساتھ شکار کریں اور خرگوش کے ساتھ بھی بھاگیں تو یہ تو پھر دوغلاپن کہلائے گا۔
سب سے حیران کن پوزیشن البتہ پی ٹی آئی کی ہے‘ آپ کس چکر میں پڑے ہوئے ہیں؟ آپ کا تو دوٹوک مؤقف ہونا چاہیے کہ سرکار ایک گھناؤنے کھیل میں لگی ہوئی ہے جس کا مقصد اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ اور حیثیت کو نقصان پہنچاناہے۔ اور جو سیاسی جماعت جمہوری اور آئینی تقاضوں کی پاسداری کادعویٰ کرے اُسے اس کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ لیکن آئے روز پی ٹی آئی کے وفود بھی مولانا صاحب کے در پر حاضری دے رہے ہیں۔ یہ کوئی منت سماجت کا موقع نہیں ہے۔ عام لوگوں کو سمجھ آ رہی ہے کہ حکومت کے مقاصد کیا ہیں اور ہمارے لیڈرانِ کرام اس ناٹک کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
شاہ جی سے ان کو ڈر کیا ہے؟ یہی کہ حکومت کا آلہ کار نہیں بنیں گے اور آئینی اصولوں پر ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔ آج کے حالات میں سب سے ناپسندیدہ روش یہی ہے اور یہی فکر ہے کہ شاہ صاحب اصولوں کے کچھ زیادہ ہی پاسدار بنے ہوئے ہیں۔ ایک تو ابھی تک سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کو‘ کیا حکومت اور کیا الیکشن کمیشن‘ ہضم نہیں کر پا رہے۔ فیصلہ یہ تھا کہ جو آزاد نشستوں پر پی ٹی آئی کے ممبران منتخب ہوئے ہیں‘ پی ٹی آئی کے ممبر ہی سمجھے جائیں گے۔ اتنی سی بات ہے‘ سادہ سی‘ لیکن اگلوں کے گلے میں یہ فیصلہ پھنسا ہوا ہے۔ نہ اُگل سکتے ہیں نہ نگل سکتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی توسیع کی بات تو چل نہ سکی لیکن حکومتی جماعتیں اسی خواہش میں مری جا رہی ہیں کہ بہرحال شاہ جی کو آگے نہیں آنے دینا۔ مطلب یہ کہ یہ سارا میلہ شاہ صاحب کیلئے لگ رہا ہے۔ کیونکہ یہ ڈرکھائے جا رہا ہے کہ وہ آئے تو پتا نہیں الیکشن کا کیاکریں گے اور پتا نہیں کون کون سے اور فیصلے سنا دیں گے۔
(ن) لیگ ویسے ہی کانچ کے پیروں پر کھڑی ہے۔ کیا وفاق اورکیا پنجاب‘ جو کچھ اُسے ملا ہے تحفتاً ملا ہے۔ سہاروں کے بغیر یہ حکومتیں چل نہیں سکتیں نہ قائم رہ سکتی ہیں۔ محترم قاضی صاحب جا رہے ہیں اور اُن کے جانے سے عدلیہ کا سہارا بھی نہیں رہے گا۔ اوپر سے جسٹس منصور علی شاہ آ گئے تو یوں سمجھا جائے کہ وفاقی حکومت اورالیکشن کمیشن دونوں کیلئے سخت جھٹکوں والا زلزلہ آ جائے گا۔ اسی ڈر سے تمام ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں کہ کسی طرح پارلیمان میں نمبر پورے ہوں اورعدلیہ کی ٹانگیں جکڑنے والی یہ آئینی ترمیم پاس ہو سکے۔
یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ اس نمائشی حکومت میں رہتے ہوئے بھی (ن) لیگ عملی طور پر پنجاب سے فارغ ہو چکی ہے۔ میاں نواز شریف کو بھی پتا ہے کہ اُن کی لیڈری کے دن گئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی میٹنگوں میں زبردستی بیٹھ جاتے ہیں پر پَلّے کوئی چیز رہی نہیں۔ پیپلزپارٹی کا مسئلہ البتہ مختلف ہے۔ اُن کی نظریں مستقبل پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ وقت کب آئے گاجب بلاول زرداری اس ملک کے وزیراعظم ہوں گے۔ اس مقصد کے پورا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ قیدی نمبر 804 سلاخوں کے پیچھے رہے۔ اور یہ سلاخوں والی بات تب ہی قائم رہ سکتی ہے جب اعلیٰ عدلیہ آپ کی ہمنوا ہو۔ بلاول کا لہجہ دیکھا ہے؟ اس نام نہاد آئینی پیکیج کے لیے ایسے ایسے مضحکہ خیز دلائل دیے جا رہے ہیں کہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ حیدرآباد کے جلسہ میں فرما رہے تھے کہ قائداعظم اور جسٹس دراب پٹیل بھی ایک آئینی بینچ کی بات کرتے تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ کی صورت میں ان سب کو ایسے ڈراؤنے خواب آ رہے ہیں کہ بڑے دور کی انہیں سوجھ رہی ہے۔ شاہ جی آ گئے اور قیدی نمبر فلاں کے حالات ذرا بہتر ہو گئے تو بلاول بھٹو زرداری کے وزارتِ عظمیٰ کے خواب نوڈیرو تک محدود رہ جائیں گے۔ شاہ جی سے ہماری تھوڑی بہت واقفیت رہی ہے۔ جج وغیرہ نہیں بنے تھے تو لاہور میں کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی تھی۔ اُن کا مزاج بڑا دھیما اور سلجھا ہوا ہے۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ اُن کی وجہ سے اتنے لوگوں کو اونچے درجے کا بخار ہو جائے گا۔
وکلا حضرات کو بھی دیکھئے‘ کہاں گئے وہ وکلا تحریک کے نعرے؟ جنرل پرویز مشرف نے ایک چیف جسٹس کو تائب کرنے کی کوشش کی تھی۔ ساری اعلیٰ عدلیہ کو زنجیریں پہنانے کا ارادہ نہ تھا۔ لیکن وکلا ایسے اُٹھے کہ قیامت کا سماں پیدا کر دیا۔ اب کیا ہو گیا ہے؟ وکلا بٹے ہوئے ہیں‘ کوئی ایک زبان بول رہا ہے کوئی کچھ اور۔ حالانکہ اس آئینی پیکیج کی جو تجاویز ہیں وہ ہمارے سابقہ طالع آزماؤں نے بھی نہ سوچی تھیں۔ ان تجاویز میں یہ ہے کہ تین سینئر ترین ججوں میں سے چیف جسٹس کا چناؤ وزیراعظم اور ایک پارلیمانی کمیٹی پر چھوڑا جائے گا‘ ایسا ہوا تو عدلیہ کا کیا بچے گا؟ ان دو اڑھائی سالوں میں میڈیا کا جو حال ہوا ہے ہمارے سامنے ہے۔ حکومتی من مانیاں قوم دیکھ رہی ہے۔ ایک اعلیٰ عدلیہ رہ گئی تھی ان من مانیوں کے سامنے اور اُس کے پیچھے بھی ہمارے مہربان پڑے ہوئے ہیں۔
یہ وقت مصلحت پسندی کا نہیں دوٹوک سٹینڈ لینے کا ہے۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کو اُن کے حال پر چھوڑا جائے لیکن باقی جماعتیں تو سمجھیں کہ اتنا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اور وکلا سے پوچھا جائے کہ کون سی خواب آور گولیاں انہوں نے لے رکھی ہیں۔ مشرف کے دور کی وکلا تحریک میں تو ہمارے مکرم دوست بڑے چمکتے اور گرجتے تھے‘ ان کی لمبی تقریریں چینلوں پر براہِ راست نشر ہوتی تھیں۔اب انہیں کیا ہو گیا ہے؟ یہ وقت آنکھیں کھولنے کا ہے نہیں تو ہم پھر تبصرے کرتے ہی رہ جائیں گے۔ اور پہلے یہ تو دیکھ لیں پارلیمان میں کیا ہوتا ہے۔