گزشتہ کالم میں رواں سال وفات پانے والی دو عالمی شہرت یافتہ شخصیات کا تذکرہ ہوا تھا۔ تیسری مشہور شخصیت ایک خاتون تھی جس کا نام اولگا گڈوِن (Olga Goodwin) تھا۔ وہ اپریل 1958ء میں کیوبا میں انقلابی تحریک کی رکن بنی۔ انقلابی تحریک میں شمولیت کی وجہ اس کی بے انتہا غربت تھی‘ جو اکثر اسے اور اس کے اہلِ خانہ کو فاقہ کشی پر مجبور کر دیتی تھی۔ وہ دن رات کیوبا کے جنگلوں میں پیدل چل کر کاسترو کی انقلابی تحریک میں شامل ہوئی جہاں اسے ایک نرس کی ذمہ داری سونپی گئی۔ فارغ وقت میں اسے انقلابی رضاکاروں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا کام دیا گیا۔ انقلابیوں میں ایک امریکی نوجوان بھی شامل تھا جس کا نام William Morgan تھا۔ نومبر 58 19ء میں شدید غربت کے عالم میں ان دونوں کی شادی کیوبا کے ایک جنگل میں ہوئی۔ دلہن کو شادی کی جو انگوٹھی دولہا کی طرف سے پہنائی گئی تھی وہ درخت کے ایک پتے کو توڑ مروڑ کر بنائی گئی تھی۔ 1959ء کا پہلا دن ان کیلئے یوں مبارک ثابت ہوا کہ سال کے پہلے دن کیوبا کا آمرِ مطلقFulgencio Batista بھاگ کر پڑوسی ملک میں پناہ گزین ہو گیا۔ اولگا کے خاوند کو سی آئی اے نے بھاری رقم پیش کرکے کاستر و کو قتل کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر یہ خاندان ثابت قدم رہا۔ بدقسمتی سے اس کے کاسترو کے ساتھ نظریاتی اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے گئے۔ مورگن پر انقلاب دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلایا گیا۔ بعد ازاں اسے سزائے موت دے دی گئی۔ اولگا کو بھی قید تنہائی کی سزا دی گئی۔ 1971ء میں اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے کیوبا میں گرفتار شدہ افراد کے دورانِ قید حالات کی تفتیش شروع کی تو بڑی مشکل سے اولگا کو سالوں کے بعد رہائی ملی۔ 1978ء میں اولگا کو امریکی ویزا مل گیا مگر کیوبن پولیس نے اسے جہاز پر سوار ہونے کی اجازت نہ دی۔ ایک دن اسے خبر ملی کہ کیوبا میں پیرو کے سفارتخانے میں سیاسی پناہ گزین اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اولگا سرپٹ بھاگی مگر اس کے پہنچنے تک سفارتخانے کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ اولگا دیوار پر چڑھ کر سفارتخانے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ جب سفارتخانے نے ان پناہ گزینوں کو امریکی ریاست فلوریڈا کے دارلحکومت میامی کی طرف بحری سفر پر روانہ کیا تو ان پر کیوبن بحریہ نے گولہ باری شروع کر دی۔ ایک گولہ اولگا کی کشتی کو لگا اور وہ ڈوبنے لگی۔ اولگا کئی گھنٹے دم سادھے کشتی میں لیٹی رہی۔ بالآخر وہ کرشمہ ہو گیا جس پر اولگا کی زندگی یا موت کا فیصلہ ہونا تھا۔ کسی نہ کسی طرح اولگا امریکہ جا پہنچی۔ وہاں پہنچ کر اولگا نے اپنی زندگی خدمت خلق کیلئے وقف کر دی۔ وہ مرتے دم تک یہ کوشش کرتی رہی کہ اپنے مرحوم شوہر کی باقیات کیوبا کی قبر سے نکال کر امریکہ لے آئے اور مسیحی عقیدے کے مطابق دفن کرے۔ اس سال 16اپریل کو (87 برس کی عمر پانے کے بعد) اولگا کی روح اس کے جسم سے پرواز کرکے اس کے خداوند سے جا ملی۔
چوتھی شخصیت بھی ایک خاتون ہے جس نے 107 سال کی عمر پائی اور آخری دم تک تندرست اور جسمانی طور پر چاق و چوبند تھی۔ نام تھا Isabel Crook۔ وہ ایک فوجی ٹرک پر سوار ہو کر بیجنگ کے اس بڑے سکوائر میں جا پہنچی جہاں ماؤزے تنگ نے یکم اکتوبر 1949ء کو چین میں عوامی انقلاب کی کامیابی اور سوشلسٹ حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کی آنکھوں کے سامنے انسانی تاریخ ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے اور آج کے دن وہ سوشلسٹ انقلاب کی منزل کی طرف قدم بڑھائے گی۔ 1999ء میں چینی انقلاب کی پچاسویں سالگرہ منائی گئی تو اس موقع پر ایک بہت اچھی کتاب شائع کی گئی جس کا نام تھا ''China Remembers‘‘۔ ازابیل نے اس کتاب کے مصنفین کو یکم اکتوبر 1949ء کو منعقد ہونے والی یادگاری تقریب کا آنکھوں دیکھا حال سنایا۔ یہ وہ اعزاز تھا جو انہیں حاصل ہوا۔ ازابیل کینیڈا کی رہنے والی تھیں جہاں انہوں نے علمِ بشریات (Anthropology) کی تعلیم حاصل کی اور تقریباً اپنی ساری عمر چین میں گزار دی۔ وہ اپنے برطانوی شوہر David Crook کے ساتھ برسہا برس چین کے دور افتادہ اور انتہائی پسماندہ دیہات میں جا کر رہیں جہاں انہوں نے جانوروں کا چارہ (جوار‘ باجرہ اور میٹھے آلو) کھایا۔ انہوں نے چینی دیہاتیوں کا لباس پہنا۔ ماؤزئے تنگ کے تاریخی اعلانِ آزادی سے آٹھ ماہ پہلے اس وقت Crook بیجنگ میں موجودہ تھا جب اس پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہوا اور کمیونسٹ انقلابی فوجیوں نے اپنی فتح کی خوشی میں ایک بڑا جشن منایا۔ انقلابی فوج کے کمانڈر نے سو کے قریب غیرملکیوں کو ایک ضیافت میں شرکت کی دعوت دی۔ ازابیل اور اس کے شوہر کو اس دعوت میں مہمان بننے کا اعزازحاصل ہوا۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے Crook کو صاف نظر آرہا تھا کہ قوم پرست فوج کے اندر کرپشن اس حد تک رچ بس گئی تھی کہ اس کی اس میدانِ جنگ میں ناکامی نوشتۂ دیوار بن چکی تھی۔جب چین ثقافتی انقلاب کے بدترین آزمائشی دور سے گزرا تو یہ گھرانہ 1966ء کے موسم گرما میں برطانیہ اور کینیڈا میں تعطیلات گزار رہا تھا۔ اُسی سال ازابیل اپنے تین بیٹوں کے ساتھ نومبر میں چین واپس گئی‘ چند ماہ بعد اس کا خاوند بھی چین آگیا اور بدقسمتی سے اکتوبر 1967ء میں وہ جاسوسی کے بے بنیاد الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ازابیل کو بھی اُس یونیورسٹی سے‘ جہاں وہ اُن دنوں پڑھا رہی تھی‘ گرفتار کر لیا گیا اور تین سال قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ اس دور میں اس نے ماؤزئے تنگ کی تصانیف کا مکمل مجموعہ تین بار پڑھ لیا۔ 1973ء میں ان کی جان خلاصی ہوئی اور انہیں رہائی ملی۔ ثقافتی انقلاب میں لاکھوں بے گناہ افراد مارے گئے۔ سخت سزا کے باوجود اس جوڑے کی چینی انقلاب کی حمایت میں رتی بھر فرق نہ آیا۔ انہوں نے بڑی بے خوفی کے ساتھ جون 1999ء میں تیانمین سکوائر پر مظاہرہ کرنے والے سینکڑوں طلبہ کا ساتھ دیا۔ بعد ازاں ان دونوں کو چین میں مشیران کا درجہ بھی دیا گیا۔ Crookجوڑے نے تمام آزمائشوں میں بڑی ثابت قدمی سے اہلِ چین کا ساتھ دیا اور اہلِ چین کی دوستی بڑھائی۔ ازابیل نے جب ڈیوڈ سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو شادی کا مقام برطانیہ طے پایا۔ تب اس بہادر اور مہم جو خاتون نے چین سے برطانیہ کا سفر جس طرح طے کیا وہ فقید المثال ہے۔ وہ چین کے وسیع قطعہ زمین سے سفر کرتی ہوئی تبت پہنچی۔ جہاں سے کوہِ ہمالیہ عبور کرکے ہندوستان آئی‘ پھر سارے ہندوستان کو عبور کرکے بمبئی پہنچی اور وہاں سے بحری جہاز سے سفر کرتے ہوئے شادی کی مقررہ تاریخ سے پہلے برطانیہ پہنچنے میں کامیاب رہی۔ اس سفر میں کئی ماہ لگ گئے مگر آج تک کسی خاتون نے شمالی چین سے برطانیہ کا سفر اتنے غیرروایتی طور پر نہیں کیا۔ 2015ء میں جب یہ عظیم خاتون اپنی سویں سالگرہ کے قریب پہنچی تو وہ ان 30 افراد میں شامل تھی جنہیں چینی حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغات دیے۔ چار برس بعد وہ چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر چین گئی جہاں اسے طلائی ہار پہنایا گیا اور صدر نے اس کی اہلِ چین کے ساتھ 70 سالہ دوستی پر اسے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس نے اپنی جوابی تقریر میں کہا کہ اس کا مشنری باپ کہا کرتا تھا کہ اگر چین چھ لعنتوں سے نجات حاصل کر لے تو وہ یقینا ترقی کر سکے گا اور وہ چھ لعنتیں جہالت‘ گدا گری‘ جسم فروشی‘ جوا‘ فیم اور شراب نوشی ہیں۔ انقلابِ چین کی کامیابی کے 30 سال بعد وہ چین گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ چین نے ان چھ لعنتوں سے نجات حاصل کر لی ہے۔ ان کا آخری جملہ یہ تھا کہ اگر اہلِ چین خدا کے وجود کو مان لیں اور اس کی حقانیت پر ایمان لے آئیں تو یوں سمجھیے کہ ان کی دنیا جنت نظیر بن گئی ہے۔