4 اکتوبر 1928ء کو اعظم گڑھ (اُترپردیش) کے ایک پسماندہ گائوں کے نچلے متوسط طبقے کے گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا تو ماں باپ نے اس کا نام ''اولاد باقر‘‘ رکھا مگر بچے نے اپنے والد کا نام (سجاد) مستعار لیا اور قلمی نام کے طور پر 'باقر‘ کا نام اپنایا۔ نام کے آخر میں وہ ''رضوی‘‘ لکھا کرتے تھے حالانکہ اُن کے سگے بھائی (نعیم) اپنے نام کے آخر میں (غالباً اپنی جائے پیدائش کی مناسبت سے) اعظمی لکھتے تھے۔
میں لاہور میں پاک ٹی ہائوس کا 1956ء سے 1966ء تک اتنا پکا گاہک اور چائے خانے کے مالک (سراج صاحب) کا اتنا اچھا دوست رہا کہ جب سول سروس کا بار بار امتحان دیا تو ایک فارم پر اپنا مستقل پتا پاک ٹی ہائوس ہی لکھا۔ خانہ بدوشی کے زمانے میں اُنہوں نے نہ صرف یہ اجازت عنایت کی بلکہ بوقتِ ضرورت (جو اکثر درپیش رہتی تھی) رقم بھی ادھار دیتے تھے‘ جو مہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ ملنے پر میں واپس کر دیتا تھا۔ کم از کم میرے معاملے میں یہ اُدھار محبت کی قینچی ثابت نہ ہوا۔ اس زمانے میں ماسوائے فیض صاحب‘ شاید ہی کوئی ایسا (چھوٹا یا بڑا) شاعر‘ ادیب اور نقاد ہو جو پاک ٹی ہائوس میں باقاعدگی سے حاضری نہ لگواتا ہو۔ کراچی سے محمد حسن عسکری یا بھارت سے چوٹی کے شعرا لاہور آتے تو وہ بھی پاک ٹی ہائوس میں کچھ وقت گزارتے۔ یہیں پر شعرا ایک دوسرے کو اپنی غزلیں اور نظمیں سناتے۔ میری طرح کے لوگ صرف حسنِ سماعت پر گزارہ کرتے اور یوں محسوس کرتے کہ وہ ساتویں آسمان پر اُڑ رہے ہیں۔ آج بھی اس خوش قسمتی پر نازاں ہوں کہ ناصر کاظمی‘ منیر نیازی‘ حبیب جالب اور اس طرح کے کئی شعرا کو براہِ راست سننے والوں میں شامل ہوں۔ میرا ایک قریبی دوست (ارشاد کاظمی) بھی ایسی اچھی (گزارہ موافق) غزل لکھ لیتا تھا کہ شاعروں اور ادیبوں کے حلقے میں شامل ہو سکے۔ اُردو کے نامور نقاد ڈاکٹر وحید قریشی اُس کے دُور نزدیک کے رشتہ دار تھے۔ وہ تعلق بھی اس کے کام آیا اور اس کے سبب میں نے تقریباً تمام بڑے شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی اور اُن کی محافل سے استفادہ کیا۔
سجاد باقر رضوی بھی اس دور کے اچھے شاعروں اور چوٹی کے نقادوں میں شامل تھے۔ درمیانہ قد‘ دُبلے پتلے‘ سوچتی ہوئی آنکھیں‘ گہری سانولی رنگت‘ چہرے سے ذہانت ٹپکتی تھی۔ ان کی سیاہ شیروانی‘ سفید پاجامہ‘ الجھے ہوئے بال‘ انکساری‘ نیک دلی‘ علمیت اور شرمیلا پن کے امتزاج سے بنی مسکراہٹ! دوسروں کی بات زیادہ سنتے تھے اور بڑے دھیان سے۔ بولتے کم تھے مگر ایسے کہ سننے والا متمنی ہوتا کہ وہ بولتے رہیں اور ہمارے علم میں اضافہ کرتے رہیں۔ لطف اللہ خان کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے جن نادرِ روزگار شخصیات کی آوازیں ریکارڈ کر کے ہمیشہ کیلئے ہمارے تہذیبی سرمائے میں شامل کر دیں‘ اُن میں سجاد باقر رضوی کی کانوں میں رس گھولتی آواز بھی شامل ہے۔ آواز کو اتنے اچھے طریقے سے محفوظ کیا گیا کہ اگر سننے والا آنکھیں بند کر لے تو لگتا ہے کہ عمر رفتہ کو آواز دیے بغیر ساٹھ سال پہلے کے لاہور کے چائے خانے میں رضوی صاحب کے ساتھ بیٹھا ہے۔ وہ بے تکان اپنی روانی میں بولتے چلے جا رہے ہیں اور اُن کے دونوں مسحور مداح (میں اور ارشاد کاظمی) دخل دیے بغیر اُن کی باتیں سن رہے ہیں۔ رضوی صاحب کا صرف بچپن نہیں‘ عالمِ جوانی بھی بہت کٹھن مالی مشکلات کا سامنا کرتے گزرا۔
اُن کے والد بھی شعر کہتے تھے اور مزاج پورا شاعرانہ تھا۔ دراصل اس زمانے میں اترپردیش کے لوگ اُردو زبان کو اپنے گھر کی لونڈی قرار دیتے تھے اور اُس کے ساتھ ویسا ہی سلوک روا رکھتے۔ شاعرانہ مزاج کا مطلب یہ کہ شاعر دنیاوی ضرورتوں سے بے نیاز اور بالاتر ہو کر ایک اور ہی دنیا میں رہتا ہے۔ تصورات اور خوابوں کی دُنیا! نہ کام نہ کاج! رضوی صاحب بتاتے کہ اُن کے ابّا نے زندگی میں نہ کوئی کام کیا اور نہ ہی کوئی کمائی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی والدہ اُنہیں جتنی بھی نصیحتیں کرتیں‘ اُن میں سرفہرست یہی ہوتی کہ بڑے ہو کر کبھی شاعر نہ بننا ورنہ تم بھی کسی کام کے نہ رہو گے۔ وہ بھلے زمانے تھے‘ برادری کا نظام اور دیہات کی معاشرتی زندگی ان کے گھر کا چولہا نہ بجھنے دیتی تھی۔ رضوی صاحب نے گھر پر قرآن پاک اور فارسی زبان پڑھی۔ اپنی خداداد ذہانت کے بل بوتے پر پرائیوٹ امیدوار کے طور پر دسویں جماعت (میٹرک) کا امتحان پاس کیا۔ کالج میں داخلے کیلئے الہ آباد جانا پڑا۔ وہاں عمر کا کچھ مسئلہ پیش آیا تو رضوی صاحب نے خود ہی اپنی پیدائش کے سرٹیفکیٹ میں ترمیم کر لی۔ اکتوبر 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئے اور کراچی منتقل ہو گئے۔ یہاں اگلے چار چھ برس بڑی تنگدستی میں گزارے۔ بڑی مشکل سے کلرکی ملی۔ شام کے اوقات میں پڑھ کر ایم اے (انگریزی) اور قانون کی ڈگریاں حاصل کر لیں‘ پھر اردو میں ڈاکٹریٹ کی۔ کراچی میں اعلیٰ تعلیم کے دوران اُنہیں پروفیسر کرار حسین اور محمد حسن عسکری جیسے بڑے دانشوروں کی خوشہ چینی کا اعزاز حاصل ہوا۔ پروفیسر حمید احمد خان (مولانا ظفر علی خان کے بھائی) کا بھلا ہو کہ وہ اُنہیں اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھانے کے لیے لے آئے۔اس کے بعد 13 اگست 1992ء کو اپنی وفات تک وہ لاہور ہی میں رہے۔
جب میری اُن سے ملاقات ہوئی تو وہ اورینٹل کالج میں (ایم اے اُردو کی کلاس) پڑھاتے تھے۔ بدقسمتی سے مستقل غربت میں رہنے کے سبب خراب خوراک اور غیر صحتمند ماحول کا سامنا رہا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور آنے سے قبل ہی وہ ٹی بی کے مریض بن چکے تھے۔ بمشکل اتنے صحت یاب ہوئے کہ پڑھا سکیں۔ چہرے سے غربت اور خرابیٔ صحت ٹپکتی تھی۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ دوستوں کا اصرار بھی اُنہیں تمباکو نوشی کی طرف راغب نہ کر سکا۔ سید وقار عظیم‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی اور ڈاکٹر سید عبداللہ سمیت متعدد مشاہیر رضوی صاحب کے ساتھ پڑھاتے تھے۔ رضوی صاحب کی جو کتابیں شائع ہوئیں اُن میں شعری مجموعے تیشۂ لفظ اور جوئے معانی شامل ہیں۔ تنقید میں تہذیب و تخلیق‘ مغرب کے تنقیدی اُصول‘ وضاحتیں‘ معروضـات‘ علامہ اقبال اور عرضِ حال‘ مرقع ادب (درسی کتاب) کے علاوہ متعدد تراجم کی کتب بھی شائع ہوئیں جن میں داستانِ مغلیہ‘ افتادگانِ خاک (فرانز کا ترجمہ)‘ جدید امریکی ناول نگار‘ حضرت بلالؓ‘ بدلتی دُنیا کے تقاضے (Spinoza کا ترجمہ) شامل ہیں۔ ان کو مطالعہ سے اتنی دلچسپی تھی کہ بس کا انتظار کرتے ہوئے بھی کتاب پڑھتے رہتے۔
میرے علم کے مطابق رضوی صاحب نے مجرد زندگی گزاری۔ کتابیں اور دوست احباب‘ رضوی صاحب نے انہی کی قربت میں زندگی بسر کر دی۔ میں نے اُن سے کئی اعلیٰ اخلاقی اقدار سیکھیں۔ اُن کی اولعزمی‘ استقامت‘ بلند ہمتی اور مشکلات پر قابو پا کر اُبھرنے کی صلاحیت‘ یہ خوبیاں بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔اُنہوں نے 1951ء میں سول سروس کا امتحان بھی پاس کیا تھا مگر انٹرویو میں کام بگڑ گیا۔ ان کا بتانا تھا کہ کمیشن اراکین نے اُن سے آخری سوال یہ کیا کہ آپ اس وقت کیا کام کرتے ہیں؟ اُنہوں نے سچ سچ بتا دیا کہ میں لوئر کلرک ہوں‘ اس بات پر انہوں 300 میں سے 30 نمبر دے کر انہیں فیل کر دیا۔ اس حادثے نے سول سروس کو ایک اچھے افسر سے محروم کر دیا مگر تعلیم وتدریس اور تصنیف و تالیف کی دنیا کو ایک بیش قیمت موتی مل گیا‘ جس کے علم واخلاق سے ایک نہیں بلکہ کئی نسلیں فیض یاب ہوئیں۔