بڑے باپ کا بڑا بیٹا

بیسویں صدی میں ہمارے دھندلے ذہنی اُفق پر جو دو روشن ستارے اُبھرے اور جگمگائے‘ حسن اتفاق سے ان دونوں کے نام محمد اقبال تھا۔ ایک تھے مشہور سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور دوسرے تھے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال‘ جو قدرے گمنام رہے‘ (شاید اس کی وجہ علامہ اقبال کا ہم نام ہونا تھی)۔ یہ مضمون موخر الذکر کے ایک نامور بیٹے کو آپ سے متعارف کرانے کے لیے لکھا جا رہا ہے۔ شاید آپ اُن بہت کم لوگوں (جن میں سرفہرست پنجاب یونیورسٹی کے تحقیقی دانشور ڈاکٹر محمد اکرام چغتائی ہیں) میں سے ہوں جنہوں نے اُن کا نام سنا ہو یا اُن کی کوئی کتاب پڑھی ہو۔ پہلے باپ سے مل لیتے ہیں۔ محمد اقبال نے عربی میں ایم اے کیا تو اُن کے لیے خوش بختی کا دروازہ یوں کھلا کہ برطانوی حکومت نے اُنہیں برطانیہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی سب سے معیاری دانش گاہوں میں سے ایک‘ کیمبرج یونیورسٹی میں پی ا یچ ڈی کرنے کے لیے سرکاری وظیفہ دیا۔ محمد اقبال جیسے غیر معمولی ذہانت کے مالک شخص کے لیے اس سے زیادہ سنہری موقع اور کون سا ہو سکتا تھا‘جس نے علی گڑھ میں ایم اے کی تعلیم کے دوران محض آٹھ ماہ میں قرآن پاکِ حفظ کر لیا تھا۔ کیمبرج میں اُنہوں نے عربی ادب کے تین عالمی شہرت یافتہ ماہرین کی رہنمائی میں ایک مقالہ لکھا۔ علامہ اقبال کو بھی کیمبرج میں پروفیسر نکلسن کی عالمانہ اور مشفقانہ سرپرستی حاصل رہی۔
پی ایچ ڈی کر کے محمد اقبال ہندوستان لوٹے تو اُنہیں 1922ء میں پنجاب یونیورسٹی میں اورینٹل کالج میں فارسی کا پروفیسر بنا دیا گیا‘ جہاں وہ 26 برس تک رہے اور اس کالج کے پرنسپل بن کر ریٹائر ہوئے۔ محمد اقبال چار بچوں کے باپ تھے۔ بدقسمتی سے جب سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف نو ماہ تھی اور سب سے بڑے کی گیارہ برس تو محمد اقبال کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ سہنا پڑا اور وہ تھا اُن کی بیوی کی وفات کا سانحہ۔ بچے کم عمر تھے‘ کسی رشتہ دار خاتون کی معاونت بھی دستیاب نہ تھی۔ لہٰذا انہوں نے ایک کمال کا غیر رواجی اور بہادرانہ فیصلہ کیا کہ وہ ہمہ وقت تدریس کے کام کے ساتھ ساتھ چاروں بچوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی خود اُٹھائیں گے اور دوسری شادی نہ کریں گے۔ نہ ہی بچوں کو کسی خادمہ کے سپرد کریں گے۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنی اس بات کا مکمل پاس رکھا۔ سارا دن وہ اپنے ننھے بچوں کا بھرپور خیال رکھتے۔ گھر کی دیکھ بھال‘ سودا سلف لانا‘ صفائی ستھرائی کا اہتمام‘ کچن اور گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری بھی ان پر تھی۔ یونیورسٹی کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں اپنی جگہ۔ پھر انہوں نے بچوں کو بھی اپنے ساتھ یونیورسٹی لے جانا شروع کر دیا اور وہاں ان کو اپنی نظروں کے سامنے رکھتے۔
اب ہم ڈاکٹر صاحب کے ایک بچے (محمد دائود) کی طرف چلتے ہیں‘ جنہوں نے اپنی زندگی کے پہلے بیس برس ماڈل ٹائون میں گزارے۔ عمرآٹھ برس ہوئی تو دائود نے اپنے نام کے ساتھ رہبر کا اضافہ کر لیا۔ انہوں نے اُردو میں بارہ بہت اچھی اور عمدہ کتابیں لکھیں۔ جن میں شاعری کے مجموعے‘ کلاسیکی موسیقی کے رموز پر اور خطوط کے مجموعے اور تاریخ ادبیاتِ ایران شامل ہیں۔ 1959ء جب دائود رہبر اپنی ایک کتاب کے سبب زیر عتاب آئے تو خالد احمد نے (بطور وکیل صفائی) آگ برساتے معترضین کو جواب دیا کہ آپ پہلے اُن کی کتاب (کلچر کے روحانی عناصر) پڑھ لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کیا آتش زیرپا ہونے کا جواز بنتا ہے یا نہیں۔ بھلا ہو معترضین کا (یا اُس بھلے دور کا) کہ لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں اُٹھائے ہوئے پتھر زمین پر رکھ دیے۔ غالب کہتے ہیں کہ اُنہوں نے مجنوں پر حملہ آور ہونے کے لیے سنگ اُٹھایا تھا کہ اُنہیں اپنا سر یاد آگیا۔ غالب تین صدیوں بعد (یعنی موجودہ دور میں) پیدا ہوتے تو کیا آج بھی انہیں اپنا سر یاد آتا؟ نہ غالب جیسے صاحبانِ مروت رہے اور نہ آوازِ دوست لکھنے اور قحط الرجال کا ماتم کرنے والے مختارمسعود۔ ہر تاریخی‘ تہذیبی اور ثقافتی دور کی اپنی خصوصیات‘ اپنا مزاج اور اپنی آب وہوا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں خاص طرح کے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ شبلی نعمانی‘ سلیمان ندوی‘ ابوالکلام آزاد‘ علامہ مشرقی‘ عبیداللہ سندھی اور علامہ اقبال سے لے کربعد کے دور میں احتشام حسین‘ سبط حسن‘ ڈاکٹر اقبال احمد‘ پروفیسر حمزہ علوی‘ اعجاز حسین بٹالوی اور دائود رہبر تک۔ میں نے صرف بارہ ممتاز افراد کے نام لکھنے پر اکتفا کیا ہے۔ اب اس پایہ کے لوگ دوبارہ پیدا نہ ہوں گے۔ اس گئے گزرے دور میں غنیمت ہے کہ پاکستان میں روشن دماغی اور عوام دوستی کے چند چراغ اب بھی روشن ہیں۔ آئیے ہم ان کی درازیٔ عمر کی دعا مانگیں۔ وہ گئے تو پھر ہم بالکل تہی دامن ہو جائیں گے‘ اندھیرا مزید گہرا ہو جائے گا۔ ڈاکٹر عائشہ جلال‘ ڈاکٹر ہود بھائی‘ سرور باری‘ فیصل باری‘ پروفیسر حسن عسکری رضوی‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ ڈاکٹر اکبر زیدی‘ عاصم سجاد اختر‘ عبدالستار‘ ڈاکٹر فرخ سلیم‘ ڈاکٹر علی چیمہ‘ ڈاکٹر رسول بخش رئیس‘ ڈاکٹر قیصر بنگالی‘ پروفیسر انجم الطاف جیسے افراد۔ اس مضمون کے موضوع (ڈاکٹر دائود رہبر) تو راستہ ہی میں رہ گئے۔ آئیے ان کو ڈھونڈ نکالیں اور اُن کی گونا گوں خوبیوں پر نظر دوڑائیں۔
اُنہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے قرآنی اخلاقیات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ پھر اسلامیات کے مشہور پروفیسر Cantwell Smith کی دعوت پر کینیڈا کی بلند پایہ یونیورسٹیMcGill میں پڑھانے لگے۔ اس کے بعد انقرہ یونیورسٹی‘ جہاں اُنہوں نے برسہا برس اُردو ادب اور مطالعہ پاکستان پڑھایا۔ اس کے بعد Hartford Wisconsin یونیورسٹی‘ جہاں اُنہوں نے ریٹائر ہو جانے تک یعنی 1967ء سے 1991ء تک 24 برس پڑھایا۔ وہ اپنے طلبہ وطالبات‘ اساتذہ اور احباب کو طنبورہ پر اپنے بجائے ہوئے راگ بھی سناتے۔ ان کی زندگی کے بارے میں پڑھا تو پتا چلا کہ وہ جنوری 1958ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام ہونے والے بین الاقوامی مذاکرہ (Colloquium) میں بھی شریک ہوئے تھے اور اُنہوں نے ایک عالمانہ مگر متنازع مقالہ بھی پڑھا تھا۔ برصغیر ہندو پاک میں اجتہاد کی آواز بلند کرنے والوں میں شاہ ولی اللہ‘ عبید اللہ سندھی‘ حسرت موہانی‘ علامہ اقبال‘ علامہ مشرقی اور ابوالکلام آزاد جیسے افراد قابلِ ذکر ہیں۔ عصرِ حاضر میں یہ شرف جاوید احمد غامدی اور خورشید ندیم صاحبان کو حاصل ہوا۔ جب اہلِ مدرسہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہوئے تو علامہ اقبال نے بجا طور پر فرمایا کہ اجتہاد کی آواز کہاں سے آئے؟
جنوری 1958ء میں لاہور میں ہونے والے اسلامی بین الاقوامی مذاکرہ پر میرے لکھے جانے والے مضامین میں قرۃ العین حیدر اور دیگر سے ملاقات کا ذکر ہے۔ میرے فرائض دربانی تک محدود تھے‘ اگر ہال کے اندرجانے اور کارروائی سننے کی اجازت ہوتی تو میں دائود رہبر کے فکر انگیز مقالہ سے فیضیاب ہوتا۔ دائود صاحب کا مقالہ (کئی ترامیم اور وضاحتوں کے ساتھ) اس کانفرنس کی کارروائی کی رپورٹ میں بھی شامل کیا گیا۔
دائود صاحب نے امریکہ کے مشرقی ساحل کی ایک مہذب ریاست کے ایک مہذب شہر بوسٹن سے ریٹائر ہو کر نقل مکانی کی تو مشرقی ساحل کی سب سے غیر مہذب ریاست فلوریڈا (جو کیوبا سے بھاگے ہوئے مہاجرین سے اَٹی پڑی ہے) میں آباد ہو گئے۔ دائود رہبر نے انگریزی میں بھی تراجم کی دو اچھی کتابیں لکھیں ۔ ایک ان کی نظموں اور غزلوں کا ترجمہ تھا‘ بدقسمتی سے جسے شاعر کی توقعات کے مطابق پذیرائی نہ مل سکی۔ دوسری کتاب غالب کے خطوط کا کمال انگریزی ترجمہ تھا۔ وہ ایک بہترین انشائیہ نویس‘ شاعر‘ افسانہ نگار‘ مترجم‘ فلاسفر‘ تہذیبوں کے درمیان مکالمے کو فروغ دینے والے‘موسیقی کی دھنیں مرتب کرنے والے‘ طبلہ نواز‘ گلوکار اور گٹار بجانے والے تھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں