شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والا فقیر! ایسا بے مثال شخص میر علی احمد تالپور کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟ مناسب ہوگا کہ ان کا تعارف کرانے سے پہلے سندھ کی سیاست میں تالپور گھرانے کے کردار کا مختصر جائزہ پیش کیا جائے۔ جب 1843ء میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا‘ اُس وقت تالپور گھرانہ سندھ کا حکمران تھا۔ تالپور قبیلہ بلوچستان سے اٹھارہویں صدی کے دوسرے حصے میں نقل مکانی کر کے سندھ آیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہیں اس وقت کے سندھ کے حکمران کلہورہ خاندان کی فوج میں بڑی تعداد میں بھرتی بلوچ سپاہیوں کی قیادت سونپی گئی تھی۔ 1783ء میں تالپوروں نے کلہورہ خاندان کو معزول کر کے ان کی جگہ اپنی حکومت قائم کر لی۔
تالپوروں کی بادشاہت تین ریاستوں (حیدرآباد‘ خیرپور اور میرپور خاص) میں قائم ہوئی مگر بالادستی حیدرآباد کی تھی۔ 1832ء کے معاہدے کے باوجود تالپور خاندان اور انگریزوں کے تعلقات پہلی افغان جنگ کے بعد اتنے خراب ہو گئے کہ انگریزوں نے 1843ء میں تالپوروں کو شکست دے کر سندھ کو اپنی وسیع مقبوضات میں شامل کر لیا۔ اس موقع پر میر مراد علی تالپور نے اپنی کامیاب سفارکاری سے انگریز فوج کے ساتھ لڑنے کے بجائے صلح کر لی اور خیر پور ریاست پر اپنی حکمرانی قائم رکھی۔ یہ ریاست 1955ء تک قائم رہی‘ پھر اسے مغربی پاکستان میں ضم کر لیا گیا۔
بیسویں صدی میں میر بندہ علی تالپور‘ میر غلام علی تالپور‘ منور علی تالپور اور ان کا بیٹا اعجاز علی تالپور سیاسی میدان میں نمایاں ہوئے۔ وہ نہ صرف اسمبلیوں کے رکن بنے بلکہ وزارتی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں۔ انگریزوں سے ہارنے کے بعد تالپوروں نے دوبارہ انگریزوں کی خوشنودی حاصل کر لی۔ میر علی احمد اور میر رسول بخش تالپور کے والد (میر نبی بخش خان) انگریز کے اتنے بڑے خیر خواہ بن گئے کہ انہیں Knight Hood (سر کا خطاب) ملا۔ افسوس کہ مجھے میر رسول بخش تالپور سے ملاقات کا کبھی موقع نہیں مل سکا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ذہنی طور پر بائیں بازو کے رہنماؤں خصوصاً فیض احمد فیض اور عوامی لیگ کے بہت قریب رہے۔ پیپلز پارٹی میں ان کی شرکت اتفاقاً ہوئی۔ بھٹو صاحب نے جنرل ایوب خان کے خلاف اپنی عوامی تحریک کا آغاز حیدرآباد سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ تالپور برادران سے ملنے حیدرآباد گئے تو مقامی ہوٹل میں رات گزارنے کیلئے انہیں کمرہ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ جب وہ تالپور برادران سے ملنے ان کی رہائشگاہ گئے تو ان کا بڑا دوستانہ بلکہ شاہانہ استقبال کیا گیا۔ گفتگو کے دوران میر رسول بخش خان نے جب اپنے مہمان سے پوچھا کہ وہ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں تو بھٹو صاحب نے ہوٹل والا قصہ بیان کیا اور کہا کہ اب کراچی واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ دونوں بھائی بیک زبان بولے کہ آپ ہمیں شرفِ میزبانی بخشیں۔ بھٹو صاحب مان گئے۔ اگلے دن میزبانوں نے اپنے مہمان سے حیدرآباد آنے کا مقصد پوچھا تو جواب ملا کہ وہ ایک نئی سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیں جو جمہوریت اور عوامی فلاح و بہبود کیلئے جدوجہد کرے گی اور وہ ساتھیوں کی تلاش میں حیدرآباد آئے ہیں۔ دونوں بھائیوں نے بھٹو صاحب کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ابھی نہ پیپلز پارٹی کا تاسیسی اجلاس ہوا تھا اور نہ اس کا منشور لکھا گیا تھا۔ پارٹی کا نام تک طے نہیں پایا تھا۔ اس وقت تک سب کچھ ہوا میں تھا‘ ایک خواب کی طرح۔ سندھ کے ایک بڑے طاقتور گھرانے کے دو ممتاز افراد کی اخلاقی اور سیاسی امداد کا وعدہ لے کر بھٹو صاحب بڑے خوش و خرم کراچی واپس آئے اور اپنی پارٹی کے قیام کی کوشش زیادہ سنجیدگی اور توجہ سے شروع کر دی۔ آخر پارٹی معرضِ وجود میں آگئی۔ میر علی احمد تالپور اور رسول بخش تالپور دونوں کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملا اور دونوں آرام سے الیکشن جیت گئے۔ ایک تو پارٹی لیڈر سندھی اور دوسرا یہ کہ پنجاب اور سندھ کی سیاسی ہوا بھی اس وقت پیپلز پارٹی کے حق میں چل رہی تھی۔ میر علی احمد صاحب کو کوئی وزارتی عہدہ نہ دیا گیا البتہ رسول بخش تالپور کو سندھ کا گورنر بنادیا گیا۔
آئیے اب ہم میر علی احمد تالپور سے ملتے ہیں۔ میرے محترم بزرگ دوست جناب ایم کے جنجوعہ جن دو بڑی شخصیات کو لندن سے لنکا شائر مجھ سے ملانے اور لنکا شائر کی وادیاں دکھانے لائے‘ وہ تھے جناب ولی خان اور میر علی احمد تالپور۔ میں نے ان معزز مہمانوں کو مانچسٹر میں (اپنے عزیز دوست چودھری محمد اعظم کے گھر) دیکھا تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ غالب کا شعر بار بار ذہن میں آیا:
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
میں اپنے دوستوں کے ساتھ معزز مہمانوں کا استقبال کرنے سٹیشن پر گیا۔ جناب ولی خان تو مانچسٹر میں میرے ایک قریبی دوست کے گھر ٹھہرے مگر میر صاحب مانچسٹر سے 30میل دور ڈارون نامی قصبے میں میرے گھر ٹھہرے۔ ان دنوں میر صاحب بھٹو صاحب سے کسی وجہ سے (جو انہوں نے اصرار کے باوجود مجھے نہ بتائی) اتنے ناراض تھے کہ وہ قومی اسمبلی کے ان چار اراکین میں شامل تھے جنہوں نے 1973ء کے آئین پر دستخط نہ کیے۔ 1971ء میں میری ان سے لنکا شائر اور پھر لندن میں تین ملاقاتیں ہوئیں۔ لندن میں ایک دفعہ وہ معمولی بیمار ہو گئے تو میری موجودگی میں حاکم علی زرداری صاحب بھی ان کی عیادت کیلئے آئے۔
میرصاحب نے اپنی عملی سیاست کا آغاز جمعیت علمائے ہند سے کیا تھا‘ حالانکہ ان کا مذہبی سیاست سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ انہیں اپنی اس غلطی کا احساس تین سال بعد ہوا۔ جمعیت علمائے ہند چھوڑنے کے بعد میر صاحب کے ساتھ 'آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘ جیسا معاملہ پیش آیا۔ وہ 1939ء میں علامہ مشرقی کی دعوت پر خاکسار تحریک میں شامل ہوئے۔ یہ ایک نچلے متوسط طبقے کی تنظیم تھی جبکہ میر صاحب نہ صرف بڑے جاگیردار تھے بلکہ اپنے بھائی (رسول بخش) کی طرح عوام دوست بھی تھے۔ 1941ء میں علامہ مشرقی کو قید کی سزا سنائی گئی تو میر صاحب 22 ماہ کیلئے خاکسار تحریک کے سربراہ رہے۔ علامہ مشرقی نے رہائی کے بعد میر صاحب کو ایک خط لکھ کر الزام لگایا کہ سندھ میں انہوں نے جو تنظیم بنائی ہے وہ خاکسار تحریک کے مقاصد کے مخالف کام کر رہی ہے۔ اس کے بعد میر صاحب نے اپنے راستے جدا کیے اور کانگریس میں شامل ہو گئے۔ وہ کانگریس جو ہندوستان کی آزادی اور قیام پاکستان کی مخالف سرگرمیوں میں مصروف تھی۔ میر صاحب سیکولر سوچ کے مالک تھے‘ وہ ہر قسم کے مذہبی تعصب اور فرقہ واریت سے بالاتر تھے۔ کانگریس میں ان کا گزارا اچھا رہا مگر تاریخ کا پانسا پلٹا اور پاکستان بن گیا۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد میر صاحب کو (غالباً ایک فوجی عدالت کے بے حد مشکوک کورٹ مارشل قوانین کے تحت) چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔(جاری)