یورپ کی نئی پرانی خبریں…(3)

آج کا کالم یورپ کے بجائے شمالی افریقہ کے ایک ملک مراکش سے آنے والی خبر سے شروع کرتے ہیں‘ جو دو یورپی ممالک‘ پرتگال اور سپین کے قریب واقع ہے۔ دوسرے تمام مسلم ممالک کی طرح مراکش میں جمہوریت‘ شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کا شدید فقدان ہے۔ نئی خبر یوں ہے کہ مراکش کی ایک عدالت نے 82 سالہ محمد زین (سابق وزیر‘اور لطیفہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے وزیر) کو بادشاہ (محمد ششم) کی ملک سے طویل غیر حاضری اور جلد واپسی کی کوئی نیت نہ ہونے پر تنقید کرنے کے جرم پر پانچ سالہ قید کی سزا سنائی ہے۔ محمد زین نے کہا تھا کہ اگر بادشاہ کا مستقبل قریب میں وطن واپس آکر اپنی شاہی ذمہ داریاں ادا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تو وہ تخت سے دستبردار ہو جائیں۔ محمد زین نے بادشاہ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بادشاہ کا ایک مارشل آرٹس چیمپئن سے مبینہ رومانوی رشتہ ان کی وطن واپسی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ البتہ عدالت نے محمد زین کو اپنی سیاسی جماعت کے فنڈ میں خورد برد کرنے کے الزام میں پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے۔ محمد زین کا بیٹا (علی رضا) اپنے ملک کا ممتاز وکیل ہے۔ اس نے اپنے باپ کی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے ہر ممکن دلائل دیے مگر بے سود‘ کیونکہ فرمانبردار جج کے ذمہ یہ کام لگایا تھا کہ اس نے ہرحال میں ملزم کو سزا سنانی ہے۔ مارشل آرٹس کا مذکورہ چیمپئن جرمنی میں رہتا ہے اور اسے جرمنی کی عدالتوں سے کئی جرائم میں سزائیں مل چکی ہیں۔ بادشاہ محمد ششم کے اس تعلق پر مراکش میں کوئی شخص اپنی رائے ظاہر کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ البتہ محمد زین کی اپنے بادشاہ کے خلاف حق گوئی نئی بات نہیں‘ انہوں نے سر پر کفن باندھ کر چند سال پہلے یہ انکشاف کیا تھا کہ مراکش کے قدرتی وسائل پر بادشاہ نے خود قبضہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے اس کی ذاتی دولت کا تخمینہ پانچ ارب ڈالر ہے۔ 2001ء میں محمد زین کی شہزادی لیلیٰ سلمیٰ سے شادی ہوئی مگر آٹھ برس قبل علیحدگی ہو چکی ہے۔
دوسری خبر مراکش سے ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے سے موصول ہوئی ہے جو تمام بڑے یورپی اخبارات کی زینت بنی۔ یہ خبر کسی فرد‘ ادارے یا محکمے کے بارے میں نہیں بلکہ ایک درخت کے بارے میں ہے۔ زیتون کا یہ درخت کوئی عام درخت نہیں۔ وجہ اس کی طویل العمری ہے۔ 2010ء میں اطالوی اور جاپانی سائنسدانوں نے 'ریڈیو کاربن ڈیٹنگ‘ کے ذریعے اس درخت کی عمر کا تعین کیا تو یہ چار سے پانچ ہزار سال پرانا نکلا۔ یہ درخت یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام‘ ان تمام مذاہب سے پرانا ہے۔ چار ہزار سال سے زائد عرصہ اس درخت نے تند و تیز طوفانوں اور بارشوں کا مقابلہ کیا۔ چند برس پہلے اسرائیل کی توسیع پسند حکومت نے دریائے اُردن کے مغربی علاقے میں ایک آہنی باڑ لگا کر کاشتکاروں کو ان کی زیر کاشت زمین سے جدا کر دیا۔ مذکورہ درخت کا بھی یہی حال ہوا۔ درخت اور اس کے فلسطینی مالک کے مابین ایک آہنی باڑ حائل ہو گئی مگر باڑ کے نگہبان سپاہی ایک فلسطینی کا شتکار پر رحم کھاتے ہوئے اسے ہر سال اس درخت سے پھل توڑنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ انتظام بالکل عارضی اور غیر یقینی ہے۔ آنے والے دنوں میں کسی وقت بھی اس قدیمی درخت اور اس کے فلسطینی مالک کے درمیان ناقابلِ عبور فاصلہ پیدا ہو جائے گا۔
ماضی قریب میں برطانیہ میں ایک بہت بڑا سیکنڈل سامنے آیا تھا۔ برطانوی فوج کے ایک افسر نے اس راز سے پردہ اٹھایا تھا کہ افغانستان میں برطانوی افواج نہ صرف طالبان سے لڑ رہی تھیں بلکہ وہ رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے دیہات میں جا کر لڑائی میں حصہ نہ لینے والے پُر امن لوگوں کو قتل کرنے کی بہت سی وارداتوں کی مرتکب بھی ہوئیں۔ جو افغان گھرانے ان جنگی جرائم کا شکار ہوئے انہوں نے لندن کی ہائیکورٹ میں ایک مقدمہ دائر کر رکھا ہے تاکہ مجرموں کو ان کے خلاف شہادتوں کی بنیاد پر سزا دلائی جا سکے اور برطانوی حکومت کی وزارتِ دفاع سے کروڑوں پاؤنڈز کا ہرجانہ وصول کیا جا سکے۔ حاجی محمد ابراہیم افغانستان کے صوبہ مہمند کے گورنر تھے‘ انہیں 30 نومبر 2010ء کی رات اُن کے گھر میں گھس کر برطانوی فوجیوں نے محض اس جرم میں قتل کر دیا تھا کہ مہمند پر قبضہ کرتے ہوئے برطانیہ کے 457 سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔ یہ افغان جنگ کے دوران برطانوی فوج کا سب سے بھاری جانی نقصان تھا۔ اس کا بدلہ پُرامن افغان باشندوں کو قتل کر کے لیا گیا۔ ان جنگی جرائم کے خلاف برطانوی عدالت میں مقدمہ دائر کرانے والے گھرانوں کی تعداد 80 ہے۔ برطانوی جریدے ''دی ٹائمز‘‘ کا رپورٹر جولائی میں خود مہمند گیا اور گاؤں گاؤں جا کر جو تفتیش کی‘ اس نے مذکورہ جرائم کے ارتکاب کی مکمل تصدیق کی ہے۔
15 جون کا دن برطانوی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پانچ سو سال پہلے‘ 1740ء میں برطانیہ کی ہسپانیہ سے جنگ کے دوران برطانوی بحریہ کے افسر Gerge Annston کو حکم ملا کہ وہ چھ بحری جنگی جہاز لے کر بحر الکاہل میں جائے‘ وہاں موجود ہسپانوی بحری جہازوں کو غرق کر دے اور سپین کے اُس بحری جہاز کو اپنے قبضے میں لے کر برطانیہ لے آئے جو چاندی سے لدا ہوا ہے۔ برطانوی بحریہ کا کمانڈر جب جنوبی امریکہ کے آخری سرے کیپ ہارن پر پہنچا تو وہاں اس کا بحری بیڑا شدید سمندری طوفان میں پھنس گیا۔ دو جہاز اس برُی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے کہ انہیں مشن چھوڑ کر برطانیہ واپس جانا پڑا۔ تیسرا جہاز چلی کے ساحل پر تباہ ہو گیا‘ جو جہاز طوفان کی تباہ کاری سے بچ پائے اُن کے ملاح ایک موذی مرض (Scurvy) کا شکار ہو کر ناکارہ ہو گئے۔ نومبر 1749ء تک بچے کھچے برطانوی جہاز فلپائن پہنچنے میں کامیاب ہو گئے‘ جہاں وہ ہسپانوی جہاز Carodonga پر حملہ آور ہو کر اس پر قبضہ کرنے کی تیاری کرنے لگے۔ یہ جہاز میکسیکو سے چرائی گئی چاندی سے بھرا ہوا تھا۔ ہسپانوی بحری کمانڈر نے اپنے جہاز کی 50 توپوں سے 35 توپیں اُتروالی تھیں۔ مقصد یہ تھا کہ اپنے جہاز کو توپوں کے وزن سے ہلکا کر کے بحری جنگ میں لڑنے کیلئے زیادہ اہل اور مستند بنایا جائے مگر یہ فیصلہ سپین کے بحری کمانڈر کو اتنا مہنگا پڑا کہ وہ ڈیڑھ گھنٹے کی لڑائی کے بعد ہی جنگ بندی پر تیار ہو گیا۔ برطانوی بحریہ نے چاندی سے بھرے صندوق اپنے جہاز پر منتقل کردیے۔ اب سپین نے جنوبی افریقہ میں Cape of Good Hope کے راستے برطانوی بندرگاہPortsmouth (جو آج بھی برطانوی بحریہ کا صدر مقام ہے) کا رخ کیا۔ بدقسمتی سے اس دوران برطانیہ اور فرانس کی جنگ بھی چھڑ چکی تھی اور فرانسیسی بحریہ رودبارِ انگلستان (English Channel) کی ناکہ بندی کیے ہوئے تھی مگر اس دن اتنی گہری دھند چھائی ہوئی تھی کہ برطانوی بحریہ کے تین جہاز اس دھند سے فائدہ اُٹھا کر خاموشی سے اپنے گھر پہنچ گئے۔ 15 جون کوPortsmouth کی بندرگاہ پر برطانوی بحریہ نے اپنی خوش قسمتی پر خداوند کا شکر ادا کیا اور پادری صاحب نے بہت اچھے الفاظ میں دعا مانگی۔ اس تقریب میں کیک کاٹا گیا‘ موسیقی کی دھنیں بکھیری گئیں اور قومی ترانہ گایا گیا۔ کالم نگار نے بھی اس تقریب میں شرکت کی اور اہلِ پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔
یقینا آپ سپین کے قومی کھیل 'بُل فائٹنگ‘ سے واقف ہوں گے۔ یہ صدیوں سپین کے کلچر کا جزو لانیفک رہا ہے۔ سپین کی نئی بائیں بازو کی (سوشلسٹ) حکومت اس کھیل کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے جو تدابیر سوچ رہی ہے اُن میں سرفہرست سپین کے سب سے بڑے بل فائٹر (جو کھیل کے آخر میں بیل کا گلا کاٹ کر اُسے ہلاک کر دیتا ہے) کو 30 ہزار یورو کے نقد انعام کا خاتمہ ہے۔2007 ء میں سپین میں بُل فائٹنگ کے 3651 مقابلے ہوئے‘ جو 2022ء میں کم ہو کر 1546 رہ گئے۔ ان اعداد وشمار سے سپین کی حکومت یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ بیلوں سے انسانوں کی خونخوار لڑائیوں کے مقابلے اب پہلے جتنے مقبول نہیں رہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں