انور ابراہیم کون ہیں؟
سادہ جواب یہ ہے کہ ملائیشیا کے وزیراعظم ہیں اور حالیہ دنوں پاکستان کے دورے پر تھے۔ یہ سادہ جواب مگر ان کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ان کی حیثیت اس سے بڑھ کر ہے۔ ان کی داستانِ حیات میں بہت سے نشیب وفراز ہیں۔ دورِ حاضر کے مسلم سماج کی تفہیم میں‘ اس داستان کا مطالعہ بہت مددگار ہے‘ اگر دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔
ملائیشیا بیسویں صدی میں ایک ترقی یافتہ ملک بن کر ابھرا۔ مسلم دنیا میں اسے ایک مثال قرار دیا گیا۔ معاشی خوشحالی اور وہ بھی پورے وقار کے ساتھ‘ ملائیشیا کا امتیاز سمجھا گیا۔ ملائیشیا کی اس نئی پہچان میں مہاتیر محمد کا کردار اہم تھا۔ یہ سفر انہوں نے انور ابراہیم کی رفاقت میں آگے بڑھایا۔ وہ ان کے نائب وزیراعظم تھے۔
ایک مرحلے پر دونوں میں اختلاف ہوا۔ مہاتیر محمد کے اندر بیٹھا ہوا ایک سخت گیر حکمران سامنے آیا اور انور ابراہیم کو ایک ناقابلِ بیان الزام لگا کر جیل بھیج دیا گیا۔ انہوں نے زندگی کے کئی قیمتی برس جیل میں گزار دیے۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کی اہلیہ نے نہ صرف ان کا مقدمہ لڑا بلکہ ان کی سیاست کو بھی زندہ رکھا۔ یہ ایک خاتون کے عزم کی شاندار مثال تھی۔ مہاتیر محمد عمر کے ساتھ سیاسی زوال کا شکار ہوئے اور انور ابراہیم آج ملک کے وزیراعظم ہیں۔
بیسویں صدی میں اسلامی تحریکوں نے جو قیادت پیدا کی‘ انور ابراہیم اس کے نمائندہ ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ان تحریکوں کے بطن سے جنم لینے والی وہی قیادت اقتدار تک پہنچی جس نے اپنی راہیں ان تحریکوں سے الگ کیں۔ اس نے اپنی جماعتیں بنائیں یا وہ قومی دھارے میں موجود کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو گئی۔ ترکیہ میں طیب اردوان نے نجم الدین اربکان سے اپنا راستہ الگ کیا اور اب طویل عرصے سے اقتدار میں ہیں۔ پاکستان کی اسلامی تحریک کے آغوشِ تربیت میں بڑے ہونے والے‘ مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی قوت بن کر اقتدار تک پہنچے۔ انور ابراہیم بھی مولانا مودودی اور اخوان سے متاثر نوجوانوں میں شامل تھے۔ وہ بھی مگر ارتقا سے گزرے اور آج ان کی ایک الگ شناخت ہے۔
اس قیادت نے اپنے اپنے ملکوں کو ترقی کا کوئی متبادل ماڈل نہیں دیا۔ یہ وہی سرمایہ دارانہ نظام ہے جو اس وقت دنیا میں غالب ہے۔ مہاتیر محمد کا ماڈل وہی تھا جو پاکستان میں نواز شریف صاحب کا تھا۔ ایک بڑا انفراسٹرکچر اور سرمائے کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی۔ ملائیشیا اور ترکیہ نے سرمایہ دارانہ نظام کی ثقافتی اور تہذیبی ضروریات کا بھی خیال رکھا۔ اس بنا پر سیاحت نے ان کی معاشی بہتری میں ایک کردار ادا کیا۔ ملائیشیا اور ترکیہ نے سیاسی معاملات میں بظاہر مسلم تشخص کا خیال رکھا اور عالمی فورمز پر مسلمانوں کا مقدمہ پیش کیا‘ اگرچہ کوئی عملی قدم کم ہی اٹھایا۔ اسی طرح مغرب سے معاملہ کرتے وقت‘ قومی حمیت کو بھی وزن دیا۔ ملکی سطح پر مسلم تہذیب کو بھی زندہ رکھا۔
انور ابراہیم سیاست میں ایک مصلح (Reformist) شمار ہوتے ہیں۔ ان کا یہ تعارف مگر کسی پالیسی میں متشکل نہ ہو سکا۔ ملائیشیا کا وزیراعظم بننے کے بعد‘ وہ نظام میں کوئی ایسی اصلاحات نہ لا سکے جنہیں ان کے ساتھ خاص قرار دیا جا سکے۔ ملائیشیا کی سول سوسائٹی سیاست میں بھی متحرک ہے۔ وہ اقتدار کی سیاست کا حصہ نہیں لیکن نظام میں اصلاحات کی قائل ہے۔ سول سوسائٹی کے محاذ نے انور ابراہیم کا ساتھ دیا مگر اب ان پر مایوسی غالب ہے اور انہوں نے اس کاا علانیہ اظہار بھی کر دیا ہے۔
دوسری طرف مہاتیر محمد بھی ایک بار پھر ان کے ناقد کے طور سامنے آئے ہیں۔ 'بلومبرگ‘ نے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ جاری کی جس میں یہ کہا گیا کہ انور ابراہیم اب انتقام کے راستے پر چل پڑے ہیں اور مہاتیر محمد کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کے احکام دیے گئے ہیں۔ حکومت نے اس سے انکار کیا ہے۔ مہاتیر اور ان کے خاندان پر کرپشن کے الزامات نئے نہیں۔ یہ ان کے دورِ اقتدار ہی میں سامنے آئے تھے اور بہت سے ثقہ لوگوں کو ان پر اصرار تھا۔ تاہم ان کو دوبارہ زندہ کرنا‘ شاید حکمت پر مبنی فیصلہ نہ ہو کیونکہ مہاتیر محمد اب سیاست میں غیر فعال ہیں اور کم وبیش سو برس کی عمر میں ان الزامات کا پیچھا کرنا بہت مستحسن بھی نہ ہو۔
انور ابراہیم نے ایک اور مخالف‘ سابق وزیر خزانہ دائم زین الدین کے خلاف بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ وہ مہاتیر محمد کے ساتھی تھے اور جب مہاتیر نے انور ابراہیم سے وزارتِ خزانہ واپس لی تو انہیں وزیر خزانہ بنایا۔ 2021ء میں پاناما پیپرز کی طرح پنڈورا پیپرز بھی منکشف ہوئے تھے‘ جن میں ان کے اثاثے بھی سامنے آئے۔ وہ ملائیشیا کی ایک بڑی کاروباری شخصیت ہیں۔ یہ ا ثاثے زیادہ تر ان کی بیگم کے نام پر تھے‘ اس لیے تحقیقات کا آغاز بھی انہی سے کیا گیا ہے۔
مجھے اس وقت پاکستان اور ملائیشیا کی سیاست میں بڑی یکسانیت دکھائی دے رہی ہے۔ دونوں کے حالات میں اگرچہ بہت فرق رہا‘ بالخصوص علاقائی حوالے سے۔ ملائیشیا کو خارج سے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا ایک پُرامن خطہ ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ اس کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ داخلی طور پر بھی یہاں جو کشمکش ہے‘ ملائیشیا اس سے محفوظ ہے۔ تاہم کرپشن کے الزامات اور اہلِ سیاست کے باہم تعلقات کے حوالے سے ایک یکسانیت ہے‘ جس کے سبب دونوں اس وقت جمود کا شکار ہیں۔ ملائیشیا کی معیشت بھی اس طرح کے امکانات کا مظاہرہ نہیں کر رہی‘ جن کے لیے اس کی شہرت تھی۔
مسلم ممالک میں سیاسی استحکام اور نظام کا تسلسل ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ترکیہ میں کمال ازم نے جو عدم توازن پیدا کر دیا تھا‘ اربکان اور پھر اردوان کے آنے سے‘ ایک توازن میں بدل گیا ہے۔ تاہم اردوان اور مہاتیر محمد کے غیر جمہوری رویے سے دونوں ممالک کو نقصان ہوا ہے۔ ملائیشیا میں اس کی وجہ سے داخلی خلفشار پیدا ہوا اور اسی طرح ترکیہ کی ترقی بھی متاثر ہوئی۔ بنگلہ دیش کی ترقی کا بھی غلغلہ رہا مگر حسینہ واجد صاحبہ کی آمرانہ سوچ نے ایک بار پھر بنگلہ دیش کو عدم استحکام میں مبتلا کر دیا ہے۔
بحیثیت مجموعی یہ کہا جا سکتا کہ مسلم ممالک‘ دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی متبادل نہیں دے سکے۔ انہوں نے اگر ترقی کی بھی تو اسی ماڈل کو اپناتے ہوئے جو اس وقت دنیا میں رائج ہے۔ دوسری طرف یہ ممالک اپنے اپنے ممالک میں استحکام نہیں لا سکے۔ استحکام اگر ہے تو وہاں جہاں بادشاہت ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر وہاں تیل نہ ہوتا‘ جس کی وجہ سے عام شہری کی زندگی میں بھی خوشحالی آئی‘ تو کیا بادشاہت قائم رہ سکتی تھی؟ جہاں جہاں جمہوری تجربات کیے گئے وہاں وہاں ملک فوجی آمریتوں کی گرفت میں چلا گیا۔ ان تمام پہلوئوں پر ضرورت ہے کہ بات کی جائے۔
انور ابراہیم کے اس دورے کی منصوبہ بندی کرتے وقت‘ وزارتِ خارجہ کو چاہیے تھا کہ وہ ملک کے اہلِ دانش کے ساتھ اُن کی ایک نشست کا اہتمام کرتے جہاں مسلم ممالک کے سیاسی نظاموں کو درپیش مسائل زیرِ بحث آتے۔ انور ابراہیم مسلم دنیا کے واحد وزیراعظم ہیں جن کی وجۂ شہرت ان کا علم اور دانش ہے۔ جب مہاتیر محمد پہلی بار پاکستان آئے تو اس وقت اسلامی یونیورسٹی‘ اسلام آباد میں ان کے ساتھ اسی طرح کی ایک نشست رکھی گئی تھی۔ مجھے بھی اس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کا اہتمام ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے کیا تھا جو اُس وقت یونیورسٹی میں شعبہ سماجی علوم کے ڈین تھے۔
انور ابراہیم جیسے لوگ اس وقت وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کوئی امتیاز پیدا نہیں کر سکے۔ مسلم معاشروں کے اس المیے پر ضرور غور ہونا چاہیے۔