"DRA" (space) message & send to 7575

لائن آف کنٹرول: پاکستان اور بھارت

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تقریباً ہر سالانہ اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تنازعات خصوصاً مسئلہ کشمیر پر تلخ جملوں کا تبادلہ ایک معمول بن چکا ہے‘ مگر اس دفعہ دونوں ملکوں کے سفارت کاروں کے درمیان زبانی جنگ میں کچھ زیادہ ہی تیزی دیکھنے میں آئی۔ اس کی وجہ وزیراعظم شہباز شریف کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر تھی جس میں بھارت کی موجودہ حکومت کی کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کو دبانے کی پالیسی کو بے نقاب کرنے کے علاوہ نئی دہلی کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر اس کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر پر قبضے کی کوشش کی گئی تو پاکستان کی طرف سے بھرپور جواب دیا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی اس تقریر کے جواب میں جنرل اسمبلی میں موجود بھارتی وفد کی رکن بھاویکا منگلا نندم نے پاکستان پر کشمیر میں ''دہشت گردی کی سرپرستی‘‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ ان الزامات کے جواب میں پاکستانی وفد کے رکن محمد فہیم نے بھارتی نمائندے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ ساری دنیا ریاست جموں و کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کرتی ہے اور کشمیر کبھی بھارت کا حصہ رہا ہے اور نہ ہو گا۔
کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول شروع سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا سبب رہی ہے مگر 2003ء میں دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر معاہدے کے بعد سے یہ سرحد قدرے پُرامن ہو چکی ہے۔ اس معاہدے کے تقریباً ڈیڑھ عشرے بعد جب لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات میں پھر سے اضافہ ہونے لگا تو فروری 2021ء میں پاکستانی اور بھارتی حکام نے اسے پُرامن رکھنے کیلئے ملاقات کی اور اتفاق کیا کہ سرحد پار سے ایک دوسرے پر فائرنگ اور گولا باری سے اجتناب کیا جائے گا۔ اُس وقت سے لائن آف کنٹرول پُرامن چلی آ رہی ہے۔ پھر جنرل اسمبلی کے اجلاس میں یہ دبا ہوا معاملہ اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بھارتی وفد اور میڈیا نے وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر کو بہت اچھالا ہے لیکن بھارتی حلقوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ شہباز شریف متعدد بار بھارت کو باہمی تنازعات خصوصاً مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے پُرامن طریقے سے حل کرنے کی تجویز دے چکے ہیں لیکن بھارت کی طرف سے کوئی مثبت جواب آنے کے بجائے اب لائن آف کنٹرول عبور کرکے آزاد کشمیر پر قبضے کی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔ نریندر مودی کی موجودہ حکومت کے لہجے میں تلخی اور انتہا پسندی کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ حالیہ عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے نریندرمودی پاکستان کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے۔ بھارتی وزیراعظم کا خیال ہے کہ پاکستان کو نشانہ بنا کر وہ اُن ہندوؤں کی ہمدردیاں دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جنہوں نے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیے تھے۔
ادھرپاکستان میں وزیراعظم شہباز شریف کو بھی غیرمعمولی صورتحال کا سامنا ہے۔ آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی استحکام قائم ہونے کے بجائے حکومت کو آئے دن احتجاجی جلسوں‘ جلوسوں سے نمٹنا پڑتا ہے کیونکہ ایک بڑی سیاسی پارٹی‘ پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت آٹھ فروری کو اُس کا مینڈیٹ چرا کر برسر اقتدار آئی ہے۔ اگست 2021ء میں افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان کے شمالی علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں فتنۂ خو ارج اور بلوچستان لبریشن آرمی کی طرف سے پاکستان کے ان دونوں صوبوں‘ جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں‘ میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ حکام کے مطابق اول الذکر اس مقصد کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہی ہے جبکہ مؤخر الذکر کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پاکستان کی کوئی حکومت اس صورتحال میں بھارت کی دھمکیوں پر خاموش ہو کر نہیں بیٹھ سکتی‘ بالخصوص ایسی حکومت جس کی قانونی اور آئینی حیثیت کو ملک کی ایک بڑی پارٹی نے چیلنج کر رکھا ہو‘ اپنی قانونی حیثیت کو ثابت کرنے کیلئے سخت مؤقف اختیار کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس لیے وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے کا سخت جواب دیا۔
بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول عبور کرکے آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کی دھمکی پہلی دفعہ نہیں دی گئی۔ اگرچہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کو مستقل بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرکے کشمیر کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے' حل‘ کرنے کی تجویز بھی دی جا چکی ہے‘ مگر اپنے سرکاری بیانیے میں بھارت نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق ظاہر کرتا ہے کیونکہ 1947ء سے پہلے ریاست جموں و کشمیر میں وادیٔ کشمیر اور جموں کے اضلاع کے علاوہ موجودہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل تھے۔ بھارت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ لائن آف کنٹرول عبور کرنے پر اُسے کیسا سبق سکھایا جائے گا۔ بھارت کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی کسی کوشش کا نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ اس کے باوجود بھارت کے انتہا پسند حلقوں کی طرف سے آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کی متعدد بار باتیں ہو چکی ہیں۔ 1998ء میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو اس وقت کی بی جے پی حکومت کی طرف سے بھی آزاد کشمیر پر قبضے کی دھمکیاں دی گئی تھیں مگر پاکستان کے جوابی ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت کی جانب سے ان دھمکیوں کا سلسلہ رک گیا۔ اب اگر بھارت کی طرف سے دوبارہ ایسی گیدڑ بھبھکیاںسنائی دے رہی ہیں تو اس کا سبب مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہے۔ مودی حکومت نے ستمبر میں کشمیر اسمبلی کے انتخابات کرائے تھے مگر ان انتخابات کا جائزہ لینے والے بھارتی صحافیوں نے اعتراف کیا ہے کہ مودی حکومت کے دعووں کے باوجود کشمیری عوام میں غم و غصہ اور مایوسی موجود ہے۔ اس کا اظہار اب جموں جیسے علاقوں میں بھی ہونے لگا ہے جو ہندو اکثریتی علاقے ہونے کی وجہ سے بی جے پی کا گڑھ سمجھے جاتے تھے۔ جموں کے ضلع کٹھوعہ اور اودھم پور میں کشمیری مجاہدین کی سرگرمیاں شروع ہونے سے مودی حکومت بوکھلا گئی ہے اور اس بوکھلاہٹ میں بی جے پی کے رہنما لائن آف کنٹرول پار کرنے اور آزاد کشمیر پر قبضے کی دھمکیوں پر اُتر آئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا جموں کے واقعات اور مودی حکومت کے ردعمل کو خوب اچھال رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دو ٹوک جواب دینا پڑا۔ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات گزشتہ پانچ برس سے زیادہ عرصے سے تعطل کا شکار ہیں۔ 77 برسوں کی تاریخ میں اگرچہ دونوں ملکوں نے جنگیں بھی لڑی ہیں اور کشیدگی کے ادوار سے بھی گزرے ہیں‘ مگر اتنے لمبے عرصہ تک دونوں ملکوں کے تعلقات میں ڈیڈ لاک نہیں رہا۔ اس طویل ڈیڈ لاک سے نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت‘ آمد و رفت اور قدرتی آفات میں تعاون بری طرح متاثر ہوا ہے بلکہ علاقائی تعاون کی تنظیم سارک بھی بے عمل ہو کر رہ گئی ہے۔ خطے کی سلامتی اور امن کے بارے میں غیریقینی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے دونوں ملکوں کے رہنماؤں کو ایک دوسرے کے خلاف دھمکیاں بند کر کے ان وجوہات کو دور کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے جو دونوں ریاستوں کے مابین بار بار کشیدگی کا باعث بنتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں