آج یکم جنوری ہے‘ یعنی ایک برس اور بیت گیا۔ ادھر مرا دل دھڑک دھڑک کر عجیب عبرت بھری ندامت سے سوچتا ہے‘ کہ یہ سال بھی کٹ گیا ہے۔
خود احتسابی سے ہی بات کا آغاز کرتے ہیں۔ 2024ء کے لیے میں نے کیا کیا ارادے باندھے تھے‘ کیا کیا سوچا تھا‘ کیا کیا منصوبے ترتیب دیے تھے اور کن کن گم گشتہ خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا عزمِ صمیم کیا تھا۔ تقریباً پندرہ کتابیں پڑھنے‘ انہیں سمجھنے اور ان کی تعلیمات سے اپنی شخصیت کی ترتیبِ نو کا جو پختہ عزم کیا تھا وہ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچا‘ بس پانچ‘ چھ کتابیں ہی بمشکل پڑھ سکا اور ان اعلیٰ نگارشات کا نچوڑ تو اپنی روح میں بالکل جذب نہیں کر سکا۔ اسی طرح ظلمتِ شب میں اپنے حصے کی کچھ شمعیں جلانے کی دلی خواہش تھی‘ اُن میں سے بھی اکا دکا ہی روشن ہو سکی ہیں۔ اسی طرح کم از کم دو کتابوں کی تصنیف و تالیف پیشِ نظر تھی مگر بمشکل ایک کتاب پر کچھ کام آگے بڑھا ہے۔ استادِ گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی نے سچ ہی کہا ہے کہ‘ یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے۔
ایک بار میں نے عرب سینٹر منصورہ کے ڈائریکٹر مولانا خلیل حامدی سے پوچھا کہ آپ منصورہ اور بیرونِ ملک دوروں میں بہت مشغول رہتے ہیں مگر اس کے باوجود آپ نے عربی اور اُردو میں اتنی کتب کیسے تصنیف کر لی ہیں‘ اس کا راز کیا ہے؟ حامدی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اس کا راز یہ ہے کہ میں نمازِ فجر کے بعد تصنیف و تالیف کا کام شروع کر دیتا ہوں اور جب خلقتِ خدا کی دس بجے کے قریب دفتروں میں آمد و رفت شروع ہوتی ہے تو اس وقت تک میں دن بھر کا کام مکمل کر چکا ہوتا ہوں۔ یقینا بڑے کاموں کے لیے بڑی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہ ریاضت فولادی عزم و ارادے کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔
اب آئیے عالمی منظر نامے کی طرف‘ ایک طرف خلائی سیارہ سورج کے قریب جا پہنچا اور اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت سے استفادے کا ٹرینڈ بھی 2024ء میں برق رفتاری سے آگے بڑھا مگر دوسری طرف اس سال کے دوران انسانیت کے علمبرداروں کے ہاتھوں تذلیلِ آدمیت کے نئے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ شرفِ آدمیت و انسانیت کے انہی دعویداروں کی آنکھوں کے سامنے انسانوں کی ہزاروں کی تعداد میں شب و روز نسل کُشی کی جا رہی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اہلِ غزہ کو خاک و خون میں تڑپا رہا ہے اور سب کچھ امریکہ کی پشت پناہی اور سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ خون جماتی ہوئی سردی اور شدید بارش میں پھول سے بچے خیموں میں تڑپ تڑپ کر شہید ہو رہے ہیں اور امریکہ کی قیادت میں اکثر یورپی ممالک بے پناہ سنگدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
غزہ میں سوا سال سے فضائی بمباری اور ٹینکوں کی گولہ باری سے تقریباً 46 ہزار فلسطینی شہید اور ایک لاکھ زخمی ہو چکے ہیں۔ شہیدوں میں 17 ہزار پھول سے بچے اور 10 ہزار سے زائد خواتین بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ 174 میڈیا ورکرز اور 1150 نرسیں اور دیگر میڈیکل معاونین بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 600 مساجد شہید‘ 800 سکول اور 26 ہسپتال صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے ہیں۔ اس ساری تباہی و بربادی پر امریکی و یورپی حکومتوں کی سنگدلی ہم اوپر بیان کر آئے ہیں مگر جہاں تک مغربی عوام کا تعلق ہے وہ پچھلے 15 ماہ سے سچی انسانی ہمدردی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ دو عالمی جنگوں کے بعد امنِ عالم کے لیے جو اقوامِ متحدہ تشکیل دی گئی تھی‘ وہ ایک بار پھر اپنے مشن میں بُری طرح ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
2024ء میں تین چار مرتبہ سلامتی کونسل میں اسرائیلی نسل کُشی رکوانے اور غزہ میں سیز فائر کرانے کی کوشش کی گئی مگر ہر بار انسانی حقوق کے نام لیوا امریکہ نے ان قراردادوں کو ویٹو کر دیا اور قیامِ امن کی ہر کوشش کو مسترد کر دیا۔ جہاں تک عربوں کا تعلق ہے وہ بے حسی اور لاتعلقی کی سنگدلانہ تصویر بنے ہوئے ہیں۔ عرب حکومتیں اسرائیلی چیرہ دستیوں پر مہر بلب ہیں۔ انہوں نے عرب لیگ یا او آئی سی کے فورم سے کوئی بھرپور قسم کا احتجاج کیا ہے نہ ہی سفارتی محاذ پر کوئی بڑی بھاگ دوڑ کی ہے۔ اسلامی دنیا کی بھی بڑی بڑی حکومتیں مجموعی طور پر منقارِ زیر پر ہیں۔
اہلِ غزہ کے لیے اکتوبر 2023ء سے جماعت اسلامی پہلے جناب سراج الحق اور پھر حافظ نعیم الرحمن کی زیر قیادت بڑی بڑی احتجاجی ریلیاں نکالتی رہی ہے۔ دو تین روز قبل جماعت نے حافظ صاحب کی زیر قیادت غزہ میں اسرائیلی ظلم و بربریت رکوانے کے لیے اسلام آباد میں ملین مارچ کیا۔ اس موقع پر امیر جماعت نے پُرجوش خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 25 کروڑ پاکستانی اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ا سلام آباد میں حماس کا دفتر کھولے‘ اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرے اور غزہ میں فوری سیز فائز کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے فورم سے زبردست مہم چلائے۔
کالم کے اختتام پر 2024ء میں اپنے وطنِ عزیز کا جائزہ لیے بغیر بات ادھوری رہے گی۔ حکومتی دعووں کے مطابق اس گزرے سال کے دوران معیشت مضبوط ہوئی ہے‘ اس کے برعکس اپوزیشن کے نزدیک ملکی اکانومی کے لیے یہ بدترین سال تھا۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہنگائی 25 فیصد سے صرف چار فیصد رہ گئی ہے جبکہ زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ اشیائے ضرورت یا تو پرانی قیمتوں پر دستیاب ہیں یا مزید اضافہ ہوا ہے۔
حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ہماری برآمدات میں بہت اضافہ ہوا ہے مگر امر واقع یہ ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمد ٹیکسٹائل ہے۔ صرف فیصل آباد میں ایک سو سے زیادہ سپننگ یونٹس بند پڑے ہیں۔ ان ملوں کی مشینری کباڑیوں کو فروخت کی جا رہی ہے۔ ہمارے صنعت کار ناموافق صنعتی و تجارتی حالات کی بنا پر کچھ اور ملکوں میں جا کر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال اور سیاسی عدم استحکام کی بنا پر بیرونی سرمایہ نہیں آ رہا۔ ان حالات میں برآمدات میں اضافہ تو نہیں‘ کمی ضرور ہو سکتی ہے ۔
اب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ''اڑان‘‘ پاکستان کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق پاکستان کی برآمدات کو 60ارب ڈالر سالانہ تک پہنچایا جائے گا۔ معیشت میں ذرا سی بہتری کے مثبت اشارے بینکوں کی شرحِ سود میں واضح کمی اور سٹاک ایکسچینج میں اضافہ ہیں‘ تاہم اس طرح کے مثبت اشارے وقتی اور لمحاتی ہوتے ہیں۔ 2024ء میں وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے رخصت ہونے والے امریکی صدر جوبائیڈن کو خط لکھا تھا اور اس کے بعد ایک ڈیلیگیشن بھی واشنگٹن بھیجا گیا تھا۔ اب ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے بارے میں کئی مثبت خبریں آ رہی ہیں۔ اس موقع پر حکومت کو ایک مضبوط ڈیلیگیشن بھیج کر اپنی کوششیں تیز تر کر دینی چاہئیں۔
یہ بات بار بار عرض کر چکے ہیں کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کا آنا ممکن نہیں۔ بعد از خرابیٔ بسیار سیاستدانوں کے مذاکرات کا آغاز تو ہوا ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیموں کے سارے ہی ممبران سنجیدہ ہیں اور مثبت طرزِ فکر رکھتے ہیں۔ البتہ باہر بیٹھے ہوئے (ن) لیگی اور پی ٹی آئی لیڈران مسلسل تیر اندازی کر رہے ہیں۔ ہماری تجویز ہو گی کہ حکومت اور تحریک انصاف دونوں کی قیادتیں مذاکرات کے دوران اپنے اپنے غیرمذاکراتی تیر اندازوں کی زباں بندی کے احکامات صادر کریں تاکہ مذاکرات کی نیّا کنارے لگے اور 2025ء میں سیاسی و معاشی استحکام قائم ہو اور ملک میں خوشحالی آئے۔