اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے بنایا۔ مٹی میں آج 92 کے قریب دھاتی عناصر دریافت ہو چکے ہیں۔ ان میں لوہا‘ تانبا‘ سونا‘ چاندی‘ یورینیم‘ جپسم اور لیتھیم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ دھاتیں انسانی جسم میں بھی موجود ہیں۔ دھاتوں پر مشتمل مٹی جب پانی کے ساتھ ملی تو اس نے سیاہ گارے کی شکل اختیار کر لی۔ اسی گارے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے لیس دار اور چپکنے والا پانی نکالا۔ پھر اس سے گوشت پوست کا انسان بنا ڈالا۔ اس کے رگ و ریشے اور خلیات کے اندر 'نفس‘ نامی شے کو پیوست کر دیا۔ حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ اور دیگر محدثین قرآن مجید کی آیات اور احادیثِ طیبہ سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسان کا اللہ پر ایمان بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ یعنی ایمان کی کیفیت اُس وقت بڑھ جاتی ہے جب ایک مومن کوئی ایمان افروز واقعہ ملاحظہ کرتا ہے اور جب کسی الحادی یا بُری مجلس میں بیٹھتا ہے‘ جب کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو ایمان کی کیفیت دھندلانا شروع کر دیتی ہے۔ اسی طرح انسان کے اندر نفس نام کی شے تو ایک ہی ہے مگر اس کی حالتیں تین ہیں۔ سب سے بلند ترین حالت کو قرآن مجید میں ''نفسِ مطمٔنہ‘‘ کہا گیا ہے۔ اسے جب انسان کے جسم سے نکالا جاتا ہے تو مخاطب کرکے کہا جاتا ہے: ''اے اطمینان والی جان! واپس اپنے رب کے پاس آ جا‘ تو اُس سے خوش ہے‘ وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں کے ساتھ شامل ہو جا۔ اور میری جنت کی رہائشی بن جا‘‘۔ (الفجر: 27 تا 30)
اسی طرح اس سے کم درجہ والا نفس یا جان ''نفسِ لوامہ‘‘ ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کیونکہ ہر غلطی پر اس کے اندر ملامت اور احتساب کا نظام ٹھیک کام کر رہا ہوتا ہے۔ تیسرا نفس ''نفسِ امارہ‘‘ ہے۔ یہ انسان کو برائی کا حکم دیتا ہے‘ جس پر جسم عمل کرنے کو دوڑتا ہے۔ جی ہاں! نفس کی یہ تین حالتیں ہیں جو ادل بدل ہوتی رہتی ہیں۔ کامیاب وہ انسان ہے جو ''مطمئن‘‘ جان یا نفس کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔
گوشت پوست کے جسم میں ایک چیز نفس ہے تو ایک چیز ''روح‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا تو آخر پر ان میں روح پھونکی۔ اس کی کتنی اقسام ہیں‘ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ تاہم! انسان کے اندر جو روح ہے‘ سورۃ الاسراء (نبی اسرائیل: 85) میں اس کے بارے میں واضح کہا گیا کہ یہ اللہ کے ''اَمر‘‘ یعنی اللہ کے حکم میں سے ہے۔ یہ کوئی خاص (لطیف ترین) شے ہے جسے انسان جاننے سے قاصر ہے۔ تخلیقی طور پر روح کے اندر علم کی جو صلاحیت رکھی گئی ہے‘ انسان اس کی کامل حقیقت کو نہیں جان سکتا۔ باقی اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو بھی ''روح الامین‘‘ کہا ہے اور قرآن مجید میں انہیں ''روح القدس‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کے کلام کو بھی ''روح‘‘ کہا گیا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ روح کی بھی اقسام ہیں مگر کس قدر ہیں‘ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ البتہ یہ کائنات کی اعلیٰ ترین اور ایک خاص حقیقت ہے جس کے شرف سے انسان کو مشرف اور معزز کیا گیا ہے۔
قارئین کرام! قرآن و حدیث کی روشنی میں میرا استدلال یہ ہے کہ انسان روح‘ نفس اور جسم پر مشتمل ہے۔ جب انسان کی موت واقع ہوتی ہے فرشتے اس کا ''نفس‘‘ نکالتے ہیں۔ ساتھ ہی روح بھی محوِ پرواز ہو جاتی ہے۔ جسم مٹی سے بنا ہے‘ وہ مٹی میں واپس چلا جاتا ہے۔ روح اور نفس کی جوڑی آسمان کی جانب پرواز کر جاتی ہے۔ یہ پرواز پاکیزہ نفس اور روح کی ہوتی ہے۔ خبیث اور ظالم نفس کے لیے آسمان کا دروازہ نہیں کھلتا۔ اسے واپس زمین پر پٹخ دیا جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ کے فرمان کے مطابق اسے پہلے آسمان کے دروازے سے واپس زمین پر دے مارا جاتا ہے۔ روح اور نفس کا جوڑا ہی اصل اور حقیقی انسان ہے۔ بعض اہلِ علم نفس اور روح کو ایک ہی حقیقت مانتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ بہرحال! یہ ایک علمی اختلاف ہے اور قابلِ قدر ہے۔ میرا مؤقف یہ ہے کہ یہ دو حقیقتیں ہیں مگر آپس میں منسلک ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل انسان‘ روحانی انسان ہے۔
گزشتہ جمعۃ المبارک کے اگلے پہر پاکستان کے مایہ ناز عالمِ دین پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی رحمۃ اللہ علیہ انتقال کر گئے۔ دو ہفتوں سے وہ ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ شوگر اور بلڈ پریشر انتہائی بلند تھے۔ شوگر کی وجہ سے ان کا زخمی انگوٹھا بھی کٹ چکا تھا۔ مگر ان کی موت کا واقعہ کافی حیران کن اور ایمان افروز ہے۔ ہسپتال میں وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے۔ مجھے بڑے بھائی پروفیسر محمد سعید کے پاس لے چلو۔ خدمتگار ساتھیوں نے پس وپیش سے کام لیا کیونکہ ان کی حالت نازک تھی۔ حافظ مکی صاحب کے اصرار پر جب ڈاکٹروں سے مریض کو گھر لے جانے کی اجازت مانگی گئی تو انہوں نے بھی انکار کر دیا۔ اب حافظ مکی صاحب نے خود ہی ڈرپ کی سوئیاں اتار دیں اور آکسیجن ماسک ہٹا دیا۔ یہ کہتے ہوئے وہ باہر کو چل دیے کہ میرے پاس وقت کم ہے۔ ہسپتال سے باہر آ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ان کے بھائی جان باخبر ہو چکے تھے۔ گاڑی ان کے پاس پہنچی تو انہوں نے بھی سمجھایا کہ ہسپتال واپس چلے جائیں مگر وہ یہی کہہ رہے تھے کہ میرے پاس وقت کم ہے۔ پھر وہ گاڑی سے اترے اورگھر کے بجائے مسجد میں چلے گئے۔ باتیں کرتے کرتے اچانک کہنے لگے مجھے لینے والے آ گئے ہیں۔ پاس موجود ڈاکٹر ہمدانی کو کہا کہ گواہ رہنا‘ میں اللہ کی توحید پر ہوں۔ پھر انہوں نے کلمہ شہادت بلند آواز سے پڑھا اور ساتھ ہی لیٹ گئے۔ آنکھیں بند۔ دیکھا تو وہ اپنے اللہ کے پاس جا چکے تھے۔ سبحان اللہ! ہسپتال سے نکلے‘ گھر کے بجائے مسجد میں پہنچے اور کلمہ پڑھتے ہوئے اُن کے ساتھ چلے گئے جو انہیں لینے آئے تھے۔ یہ اللہ کے فرشتے تھے۔
چند دن قبل ہی تو میں نے ہسپتال میں ان کی عیادت کی تھی۔ وہ بہتر ہو رہے تھے مگر لینے والے آ جائیں اور جانے والا تیاری یوں کرے کہ وہ مسجد سے اپنے رب کی جانب آخری سفر کا آغاز کرے تو یہ فقط قسمت کی بات ہے اور حافظ مکی قسمت کے دھنی نکلے۔
تعزیتی مجلس تھی‘ حضرت مولانا زاہد محمود قاسمی بتانے لگے کہ اذان ہو رہی تھی اور ابا جان حضرت مولانا ضیاء القاسمی کہنے لگے: لینے والے آ گئے ہیں۔ ساتھ ہی کلمہ پڑھا اور روح پرواز کر گئی۔ قارئین کرام! میرے نانا جان حضرت شیخ الحدیث مولانا تاج الدینؒ جنہوں نے اپنے مدرسہ میں نصف صدی سے زائد طلبہ کو عالم بنایا‘ انہوں نے فجر کی نماز پڑھائی‘ نماز کے بعد درس دیا‘ گھر آئے‘ ناشتہ کیا۔ جونہی لیٹے اللہ کو یاد کیا اور اللہ کے پاس پہنچ گئے۔ میری نانی اماں نے بتایا: میں نے رات خواب دیکھا کہ ہمارے کمرے کی چھت کھل گئی ہے اور ایک سفید رنگ کا نورانی پرندہ کمرے میں آیا اور کمرہ نور سے بھر گیا۔ جہاں تمہارے ابا (نانا) جان لیٹے تھے‘ وہیں سے اُس نے ایک جھپٹا مارا اور واپس چلا گیا۔ اللہ اللہ! رات کو خواب دیکھا اور نانی جان کا خواب اگلی صبح کو تعبیر بن کر سامنے آ چکا تھا۔
میری والدہ محترمہ 45 سال کی عمر میں فوت ہوئیں۔ بستر پر لیٹے لیٹے فضا میں ہاتھ بلند کرکے کوئی شے حاصل کرتیں اور منہ میں لے جاتیں۔ پھر انہوں نے نماز شروع کر دی اور نماز کی حالت میں ہی اپنے اللہ سے جا ملیں۔ حافظ محمد عبداللہ بہاولپوری نے ''یا رب‘‘ کہا اور ساتھ ہی روح پرواز کر گئی۔ اے مولا کریم! ہمیں بھی ایسی ہی موت عطا فرمانا‘ آمین۔