"AYA" (space) message & send to 7575

کشمیر کیسے وجۂ عناد بن گیا؟

عذرِ عناد ضرور ہے‘ ہندوستان اور پاکستان کے عناد کی بنیادی وجوہات تو اور ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی تفریق پرانی ہے اور تنازعۂ کشمیر سے بہت پہلے کی۔ ہندوستان کا بٹوارہ کشمیر کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔ پنجاب کی خونریزی کی وجوہات اور تھیں۔ 1947ء سے پہلے کے تمام اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو کشمیر کا ذکر شاذ و نادر ہی ملے گا۔ بڑے لیڈروں کے بیانات میں بھی یہ ذکر کم ہی ملتا ہے۔ وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جو آزادی کا نقشہ تین جون 1947ء کو پیش کیا تھا اُس میں کشمیر کہاں ہے؟ اس کا فیصلہ بعد میں ہونا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ ضرور ہے لیکن دونوں ممالک کی دشمنی کے پیچھے صرف کشمیر نہیں ہے۔ دشمنی کی وجہ تو دونوں قوموں کی نفسیات میں پنہاں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہم اُسے کور ایشو کہنے لگ پڑے حالانکہ ہم نے اسے کور ایشو کا درجہ 47ء کے بہت بعد دیا۔ مسئلہ ضرور تھا اور 1947-48ء میں دونوں ممالک کے درمیان ہتھیار اٹھانے کی نوبت بھی آئی لیکن اس کے باوجود اور پنجاب میں خونریزی کے باوجود شروع کے سالوں میں ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات پھر بھی قدرے نارمل تھے۔ دونوں ممالک میں آنا جانا آسان تھا‘ تجارت جاری تھی اور یہ رواج نہ پیدا ہوا تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف زہر میں بھگوئے ہوئے بیانات دیے جائیں۔ زہر آلود تعلقات تو 1965ء کی جنگ کی پیداوار ہیں۔ اُس سے پہلے کشمیر کا ذکر ہوتا تھا‘ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کشمیر پر بات چیت کرتے تھے اور کسی بین الاقوامی فورم پر‘ جہاں پاکستان کی نمائندگی ہوتی وہاں کشمیر کا ذکر لازمی سمجھا جاتا۔ لیکن پھر بھی تعلقات دوستانہ نہ سہی نارمل ضرور تھے۔ اور اسی بات کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہندوستان سے بغل گیر ہونے کی ضرورت نہیں لیکن جس قسم کے غیرمنطقی یعنی عقل سے عاری تعلقات استوار ہو چکے ہیں وہ تو ہمارے اپنے مفاد کے خلاف ہیں۔ آج کل جو باہمی تجارت پر قدغنیں لگی ہوئی ہیں اس سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہو رہا ہے؟
ہندوستان اور چین کے تعلقات کشیدہ رہتے ہیں لیکن بہت بڑے پیمانے پر ان کے درمیان تجارت ہو رہی ہے۔ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن باہمی تعلقات پھر بھی استوار ہیں۔ ہمیں پتا نہیں کیا مسئلہ ہے کہ نارمل تعلقات کی افادیت کو سمجھ نہیں سکتے۔ ہمیں اپنے کشمیر کے مؤقف پر قائم رہنا چاہیے‘ اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹیں لیکن تجارت ہونی چاہیے‘ باہمی سیاحت کے مواقع بڑھنے چاہئیں‘ عام لوگوں کا آنا جانا ہو۔ جیسے ہم اپنی اسلامی شناخت پر قائم ہیں ہندوستان اگر اپنے ہندو نظریے پر زور دیتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم ہوتا ہے تو ہمیں اپنے مؤقف کا اظہار پورے زور سے کرنا چاہیے‘ لیکن یہ نہ بھولتے ہوئے کہ کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ہماری ڈیمانڈ کبھی نہ تھی۔ اس سپیشل سٹیٹس کو تو ہم ڈھونگ سمجھتے تھے۔ یہ تو وزیراعظم نریندر مودی نے سٹیٹس ختم کیا تو ہم اس پر چیخنے چلانے لگے حالانکہ سپیشل سٹیٹس سے ہمارا لینا دینا کبھی نہ تھا۔
بات اقرار کرنے کی صرف اتنی ہے کہ ہتھیاروں کے رجوع کرنے میں کشمیر کا کوئی حل نہیں ہے۔ دونوں ممالک اس مسئلے پر جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کا حل تو قریب نہیں آیا۔ دنیا میں اور بھی ایسے کئی مسئلے ہیں جن کا فوری حل کوئی نظر نہیں آتا لیکن فریقین اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے جنگ کی نہیں سوچتے۔ ہم نے اس ضمن میں کئی غلطیاں کیں اور ان سے ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ آج تک کارگل جنگ پر کوئی سوال جواب پاکستان میں نہیں ہو سکا حالانکہ وہ پیش قدمی بیوقوفی کی درخشاں مثال تھی اور اُس سے ہماری بین الاقوامی طور پر بہت سبکی ہوئی۔ یہ جو پاکستان پر کراس بارڈر دہشت گردی کا الزام لگنے لگا‘ یہ کارگل پیش قدمی کی پیداوار ہے۔ یہ لیبل ہم پر ایسا لگا کہ بمشکل ہم اُس سے آزاد ہوئے۔
سچ میں تو ہماری ساری نام نہاد جہادی اپروچ غلط مفروضوں پر مبنی تھی اور جہاد کے نام پر ہمیں بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ ایک تو آنکھیں بند کرکے افغانستان کے معاملات میں ملوث ہوئے اور اسی دوران کشمیر میں مداخلت کا الزام ہم پر لگا۔ اس سے کشمیر کے مسئلے کا حل قریب نہیں آیا لیکن ہمارا بین الاقوامی امیج بہت متاثر ہوا۔ ایک یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے ہاں بڑے فخریہ انداز سے کہا جاتا رہا کہ کشمیر میں جہادی سرگرمیوں کی وجہ سے پانچ‘ چھ لاکھ انڈین فوج کشمیر میں پھنسی ہوئی ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اس پھنسا ہونے سے ہمارا کیا فائدہ ہوا؟ کیا ہم بھارتی پنجاب یا راجستھان پر چڑھائی کا ارادہ رکھتے تھے کہ ہم خوش ہوں کہ اتنی انڈین فوج پہاڑوں اور وادیوں میں پھنسی ہوئی ہے؟ تو سوائے ہماری بین الاقوامی بدنامی کے ان سرگرمیوں سے ہمیں کیا ملا؟
نام نہاد جہاد کا بھوت ہمارے سر پر سوار نہ ہی ہوتا تو ہمارے لیے بہتر تھا۔ اس قسم کی سرگرمیوں سے کتنے ہی اسلامی ممالک ہیں جو تباہی سے ہمکنار ہوئے۔ ہم بھی اس سلسلے میں خسارے میں رہے ہیں۔ جہادی تحریروں سے متاثر ہونے کے بجائے ہمارا ماڈل سنگارپور جیسی ریاستیں ہونا چاہیے تھا۔ اُن کی تقلید کرتے‘ جنوبی کوریا کو دیکھتے‘ ہانگ کانگ کی ترقی کا راز سمجھنے کی کوشش کرتے۔ تخلیقِ پاکستان سے لے کر آج تک ہم اور ہی راستوں پر چلتے رہے۔ بابائے قوم نے تو کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات وہ کینیڈا اور امریکہ کی طرح دیکھتے ہیں۔ کہاں وہ ریلیشن شپ اور کہاں آج کی صورتحال جس میں دائیں بائیں ہمسائیوں سے ہمارے تعلقات نہ صرف خراب ہیں بلکہ ہمارے رابطے بہت محدود ہو کے رہ گئے ہیں۔ یہ کہاں کی دانائی ہے؟
مستقبل میں جھانکیں تو کشمیر مسئلے کا حل نظر نہیں آتا۔ لیکن میل جول کے مواقع تو بڑھائے جا سکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کارگل اور وادیٔ لیہہ کا راستہ کھلنا چاہیے۔ سرینگر اور مظفر آباد کا راستہ کھلے‘ سیالکوٹ اور جموں کے درمیان سفر اور ویزہ پابندیاں آسان ہوں۔ لاہور اور امرتسر کی ٹریفک بڑھنی چاہیے۔ گنڈا سنگھ والا بارڈر کھلے۔ اسی طرح سندھ اور راجستھان کے درمیان ایک سے زیادہ انٹری اور ایگزٹ پوائنٹ ہونے چاہئیں۔ کراچی اور ممبئی کے درمیان بحری راستہ ایکٹو ہونا چاہیے۔ ہوائی رابطے نہ صرف بحال ہوں بلکہ انہیں بڑھایا جائے۔ کشمیر پر تقریریں ہوتی رہیں گی اور ہونی چاہئیں لیکن اتنے سرحدی راستے کھل جائیں تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آدھی ٹینشن ویسے ہی ختم ہو جائے۔ تجارت بڑھنی چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارے ٹرک ہندوستانی سڑکوں پر چلیں اور وہاں کے ٹرک لاہور سے ہوتے ہوئے پشاور تک جائیں۔ کیا ہم اتنی کمزور ریاست ہیں کہ ایسا برداشت نہ کر پائیں گے؟ مغربی اور مشرقی یورپ میں ویزہ پابندیاں یورپی یونین کی وجہ سے ختم ہو چکی ہیں۔ یہاں برقرار رہیں لیکن بے فیض قسم کے اقدامات سے تو پرہیز کیا جائے۔
کیا اپنے عقیدے اور جنہیں ہم اپنے نظریات کہتے ہیں‘ کے بارے میں اتنا کمزور ذہن رکھتے ہیں کہ سمجھیں کہ وہاں کے باشندوں کی آمدورفت بڑھے گی تو ہم اندر سے کمزور ہو جائیں گے؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم کمزور ہو چکے ہیں لیکن اس کمزوری کی وجہ ہندوستان نہیں۔ ہم اپنے معاملات خوش اسلوبی سے چلا نہیں سکے۔ داخلی استحکام حاصل نہ ہو سکا اور ترقی کی شاہراہیں ہماری آنکھوں سے اوجھل رہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے‘ اس میں قدم رکھنے کی کوشش کریں۔ اور ہو سکے تو فرسودہ خیالات سے چھٹکارا حاصل کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں