حماس نے اپنا تونقصان کیا ہی ہے لیکن اپنے اتحادیوں کا بھی حشر کر دیا ہے۔ اسرائیلیوں پر چڑھائی کر کے اور بہتوں کو یرغمال بنا کے یہ حاصل کیا کرنا چاہتے تھے؟ ان کا یہ خیال تھا کہ فلسطین کا مسئلہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن جائے گا اور اسرائیل بین الاقوامی دباؤ کے نیچے آ جائے گا؟ عالمی رائے کی فکر نہ اسرائیل کو پہلے تھی نہ اب ہے۔ اسرائیل کو فکر صرف امریکہ کی ہے اور امریکہ اُس کے ساتھ ڈٹ کے کھڑا ہے۔ بیشتر یورپی ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ووٹوں اور قراردادوں سے اُسے کبھی سروکار نہیں رہا۔ حماس کے تمام مفروضے غلط نکلے‘ اسرائیل نے غزہ اور اُس کے باشندوں کو ایسی تباہی سے دوچار کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ سوال پھر وہی کہ حماس نے سوائے تباہی کے حاصل کیا کیا؟
حماس کا وجود ختم نہیں ہوا لیکن اتنا نقصان اٹھانے کے بعد ایسے وجود کا کیا فائدہ؟ اسرائیل نے کچھ نہیں چھوڑا ہسپتالوں تک کو تباہ کر دیا ہے اور حالت یہ ہے کہ زخمی لوگوں کے لیے سُن کرنے یا اینستھیزیا کی سہولت تک ہسپتالوں سے ختم ہو چکی ہے۔ اسرائیلی بربریت کے بارے میں چِلاتے رہنے سے تو اسرائیل کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسرائیل پر تنقید بہت ہوئی ہے لیکن اُس کا ہاتھ نہیں رُکا اور غزہ کے باشندوں کی تباہی بند نہیں ہوئی۔
اسرائیل کی پہنچ کو تو دیکھیں‘ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تب شہید کیا جب وہ تہران میں سرکاری مہمان تھے۔ حماس کے عسکری وِنگ کے سربراہ یحییٰ سنوار‘ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسرائیل پر حملے کی ساری پلاننگ اُنہوں نے کی تھی‘ وہ غزہ میں مارے گئے۔ لڑتے ہوئے شہید ہوئے لیکن اسرائیل نے اُنہیں ڈھونڈ تو لیا۔ اور تو اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور بہت سے حزب اللہ کے لیڈر بیروت میں بمباری سے مارے گئے۔ حسن نصراللہ زیر زمین ایک میٹنگ میں شریک تھے کہ خاص زمین دوز بمبوں اور میزائلوں سے اُس کانفرنس ہال کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سے پہلے کئی ایرانی کمانڈر بیروت میں بمباری کا شکار ہوئے۔ ایران نے اسرائیل پر ہوائی حملہ کیا لیکن بیشتر میزائل اور ڈرون گرا دیے گئے اور اسرائیل کو نقصان ہوا بھی تو بہت تھوڑا۔ جواباً جب اسرائیل نے ایران پر فضائی حملہ کیا تو اسرائیلی طیارے آسانی سے اپنے اہداف تک پہنچے۔
تخمینہ پھر لگائیے کہ حماس کے ایڈونچرازم کی وجہ سے اُس کے دونوں بڑے حمایتی‘ ایران اور حزب اللہ‘ کمزور ہوئے۔ حزب اللہ جتنا کر سکتا تھا اُس نے اسرائیل کا مقابلہ کیا لیکن طاقت کا پلڑا اسرائیل کی طرف اتنا زیادہ ہے کہ بھاری نقصان حزب اللہ کا ہوا۔ حزب اللہ اب بھی قائم ہے لیکن پرانی والی بات اُس کی نہیں رہی۔ اورجو کچھ شام میں ہوا ہے اور بشار الاسد کو وہاں سے جو بھاگنا پڑاہے اُس کی تہہ میں آپ جائیں تو وہی حماس کی ایڈونچرازم ہے جس نے اُس خطے میں ایسا ماحول پیدا کیا کہ بشار الاسد کی پوزیشن کمزور ہو گئی اور اُس کے خلاف برسر پیکار جنگجو تنظیموں نے یہ سمجھ لیا کہ اب موقع ہے بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنے کا۔
اب تک بشار الاسد کس وجہ سے بچا ہوا تھا؟ اُس کی پشت پر روس‘ ایران اور حزب اللہ تھے۔ روس یوکرین میں پھنسا ہوا ہے اور اس وقت بشار الاسد کی خاطر خواہ مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا تھا۔ جہاں تک ایران اور حزب اللہ کا تعلق ہے‘ حماس کی چھڑی ہوئی جنگ کی وجہ سے شام میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے تھے۔ بیساکھیوں کے بغیر بشار الاسد مخالف فوجوں کے سامنے چند روز بھی نہ ٹھہر سکے۔ ایران کو بڑا ناز تھا کہ اُس نے آگ کا ایک دائرہ اسرائیل کے گرد کھینچا ہوا ہے اور شام ایران کا حمایتی‘ حزب اللہ ایران کے ساتھ‘ حماس بھی ایران کی حمایت یافتہ اور نیچے یمن میں حوثی بھی ایران کے طرفدار۔ غزہ کی تباہی کے نتیجے میں یہ آگ کا دائرہ ختم ہو چکا ہے۔ حماس چلی تھی مسئلۂ فلسطین کو اجاگر کرنے لیکن حماس کے اٹھائے گئے اقدام کی وجہ سے مسئلۂ فلسطین اتنا پیچھے چلا گیا ہے کہ اُسے اب سنجیدگی سے کوئی نہیں لے گا۔ ویسے بھی مسلم ممالک کیا کرتے تھے‘ زیادہ تر فلسطین کے حق میں قراردادیں پاس ہوتی تھیں۔ اب بھی ہوں گی لیکن پہلے بھی اُنہیں کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا اور اب تو اُس خطے کے حالات ہی بدل چکے ہیں۔
زیادہ عرب ممالک نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کر لیا ہے اور اُس سے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ٹرمپ کی صدارت میں شاید یہ کام بھی مکمل ہو جائے۔ ایران اور شام ہیں‘ جو اسرائیل کے مخالف ہیں لیکن موجودہ حالات کی وجہ سے دونوں کمزور ہو چکے ہیں اور شام تو شاید ایرانی اثر سے بالکل ہی نکل آئے۔ پاکستان جیسے ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا‘ کاکوئی براہ راست تعلق اُس خطے کی صورتحال سے نہیں ہے۔ غزہ کی جنگ شروع ہوئی تھی تو اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو بہت سی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اب جو حالات بنے ہیں اُن کے تناظر میں شاید یہی کہنا پڑے کہ اُس کی سخت اَپروچ صحیح رہی۔
غزہ کی پٹی میں حماس کا اچھا بھلا کام چل رہا تھا۔ حکومت اُس کی تھی‘ عوامی حمایت بھی تھی‘ باہر سے امداد ملتی تھی اور اسرائیل نے بھی اُسے برداشت کیا ہوا تھا۔ اسرائیل کے ساتھ کبھی کبھار کشیدگی بھی ہو جاتی تھی لیکن بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیوں کی نوبت نہیں آتی تھی۔ حماس کی قیادت نے یہ سب چیزیں تباہ کر ڈالیں۔ حماس کی حکومت وہاں رہتی بھی ہے تو غزہ کی بحالی کا کام اگلے پچاس سال میں مکمل نہ ہو گا۔ جلدبازی اور ایڈونچرازم کا یہ نتیجہ نکلا ہے۔ جہاں حماس کی تباہی ہوئی ہے وہاں ایران کی سُبکی ہوئی ہے۔ ایک لحاظ سے بیشتر عرب ممالک ان واقعات سے خوش ہوئے ہوں گے۔ ان میں سے زیادہ تر ممالک نہ صرف ایران کے لیے کوئی نرم گوشہ نہ رکھتے تھے بلکہ ایران کو ایک باقاعدہ خطرہ سمجھتے تھے۔ مرحوم شاہ عبداللہ نے تو ایک دفعہ امریکیوں سے کہا تھا کہ سانپ کو مارنا ہو تو اُس کا سر کچلنا چاہیے۔ سانپ کی تشبیہ وہ ایران سے کر رہے تھے۔ جن عرب ممالک نے امریکہ سے دفاعی معاہدے کر رکھے ہیں اُن کا ہدف اسرائیل نہیں بلکہ ایران ہے۔ اندرون خانہ وہاں کی بادشاہتوں کو اس بات پر بھی اطمینان ہو گا کہ حماس اور حزب اللہ کی طاقت کم ہوئی ہے کیونکہ یہ بادشاہتیں ان مسلح تنظیموں کے لیے بھی کوئی زیادہ نرم گوشہ نہیں رکھتیں۔ عرب بادشاہتوں کو سٹیٹس کو پسند ہے۔ اُن کا مفاد اسی میں ہے کہ حالات جوں کے توں رہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں کوئی ہلچل یا افراتفری پیدا نہ ہو۔ ہلچل تو دور کی بات ہے‘ وہ جمہوریت کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
جسے عرب بہار کہتے ہیں جب وہ بھڑکی تھی توسب بادشاہتیں نروس ہو گئی تھیں کہ یہ بخار ہمارے تک نہ پہنچے۔ اور جہاں جہاں عرب بہار آئی بھی اُس سے حاصل کیا ہوا؟ کہیں بھی جمہوریت پنپ نہ سکی اور آخرکار اُن ممالک میں حالات آمرانہ حکومتوں تک پہنچے۔ عرب بہار تیونس سے شروع ہوئی تھی‘ وہاں آمرانہ حکومت قائم ہے۔ مصر کا تو اور بھی برُا حال ہے‘ وہاں جو جمہوری حکومت قائم ہوئی اُسے بُری طرح کچلا گیا‘ سینکڑوں لوگ مارے گئے اور سابق صدر مرسی کی وفات دورانِ قید ہوئی۔ لیبیا میں بھی ہلچل ہوئی لیکن وہاں کے اندرونی حالات آج تک نہیں سنبھل سکے۔ شام میں بغاوت اب کامیاب ہوئی ہے لیکن شام کا کیا بنتا ہے‘ وہ ابھی واضح نہیں۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت چلانے کا ہم میں کوئی خاص وصف نہیں۔