"RBC" (space) message & send to 7575

اجتہاد ضروری مگر کون کرے

دینی امور کے بارے میں لکھنے کی اس درویش میں صلاحیت نہیں۔ یہ موضوع اس میدان کے شاہسواروں کے لیے ہے۔ ہم صرف اُن کے علم سے مستفید ہونے کو کافی سمجھتے ہیں۔ سید محمد شمس الدین صاحب ہمارے معاصر‘ ایک ممتاز استاد اور عالم دین ہیں۔ ان سے تعلق اور یارانہ اُس وقت سے ہے جب ہم نے کم وبیش نصف صدی قبل اکٹھے جامعہ پنجاب کے پرانے کیمپس کے شعبہ اسلامیات میں اُس زمانے کے اساتذہ سے اکٹھے استفادہ شروع کیا تھا۔ کمال کے لوگ تھے‘ جن میں پروفیسر خالد علوی اور پروفیسر بشیر الدین صدیقی کا نام ذہن میں ابھی تک ہے۔ ہمارے کلاس فیلوز میں سے محترم طاہر القادری صاحب بھی تھے جو پاکستان کی سیاست‘ دینی تحریک اور اپنے اداروں اور تصانیف کے حوالے سے ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ آج کل محترم نذیر احمد غازی صاحب کو بھی ٹیلی ویژن پر اسلامی پروگراموں میں جلوہ گر دیکھتا ہوں۔ کچھ دیگر کے نام ابھی تک یاد ہیں‘ رابطہ مگر نہ رہ سکا کیونکہ ہم سب اپنی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں‘ زندگی کے جھمیلوں میں دور نکل گئے۔ میرے خیال میں شعبہ اسلامیات میں فقط ایک آدھ ماہ گزارا ہو گا کہ شعبہ سیاسیات میں جانے کا اتفاق ہوا۔ تب نیا کیمپس بالکل نیا تھا‘ اور ہم سب وہاں ہاسٹل نمبر 1 کے اولین مکین تھے۔ پرانے دوستوں سے وہاں ملاقات ہوئی‘ اور چلتے چلتے ایک آدھ کلاس میں بھی گھس بیٹھا تو شعبہ سیاسیات میں داخلے کا ارادہ باندھ لیا۔ اس مضمون میں بھی میرٹ پر تیسرا نمبر بنا تھا‘ مگر اسلامیات سے ادھر کا رخ کر رہا تھا تو اس زمانے کی نظریاتی کشمکش کے تناظر میں وہاں کے اہلِ کرم نے درویش کو کسی مذہبی جماعت کا 'جاسوس‘ اور 'پرانا کارکن‘ خیال کرتے ہوئے بہت سی رکاوٹیں ڈالیں۔ بہت پاپڑ بیلنے کے بعد اپنی صفائی کا یقین دلایا‘ انہیں مطمئن کیا تو ہی ہم داخل ہو سکے۔ اسلامیات کے دوستوں سے ملاقاتیں ہاسٹل میں ہوتی رہیں۔ طاہر القادری اور شمس الدین قریب ہی رہتے تھے اور اکثر کھانے کی میز پر سلام دعا اور گپ شپ ہو جاتی۔ طاہر القادری سے رابطہ بعد میں بھی رہا جب وہ لاء کالج میں لیکچرار مقرر ہو کر جامعہ پنجاب میں آئے۔ اُس وقت میں شعبہ سیاسیات کا استاد تھا۔
ایک عرصہ کے بعد لاہور میں قیام کے دوران شمس الدین سے ملاقات ہوئی تو کئی پرانی باتوں کے علاوہ یہ بھی یاد دلایا کہ کہا کرتے تھے کہ 'مولویو! کم کھایا کرو‘۔ میں تو آج بھی مولویوں کے علاوہ سب کو یہی مشورہ دوں گا۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ شمس الدین نے میرے مشورے پرکم ہی عمل کیا تھا۔ کبھی فون پر بات ہو جائے تو اُن کی طرف سے حلوے کی پیش کش کے بغیر کال ختم نہیں ہوتی۔ اُن کی طرف سے حلوے کا انتظار تو رہے گا مگر گزشتہ ماہ اُنہوں نے ہماری روح کی غذا کے لیے اجتہاد کے موضوع پر اپنی پُرمغز کتاب ارسال کی۔ دورِ جدید کا ایک انتہائی اہم سوال زیر بحث لائے ہیں کہ اسلامی دنیا میں‘ خصوصاً پاکستان میں پارلیمان اجتہادی کردار ادا کر سکتی ہے یا نہیں؟ اسی میدان میں میری دلچسپی بہت پرانی ہے‘ مگر صرف پڑھنے‘ پڑھانے کی حد تک‘ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں‘ فقط سیاسیات کا طالب علم ہوں اور گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے یہ میدان اتنا وسیع ہے کہ اس میں سفر کے لیے تاریخ‘ سماجی علوم‘ فلسفے اور ادب تک کی جادہ پیمائی کرنا پڑتی ہے۔
علم سیاسیات میں کئی ماہرین نے سیاسی اسلام کے بارے میں‘ خصوصاً اس کے نظریات اور تحریکوں کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے۔ تقریبا ایک صدی یا اس سے کچھ زیادہ عرصے میں اسلام اور ریاست اور اسلام اور دورِ حاضر کے سیاسی نظریات اور مختلف ممالک میں مذہبی جماعتوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا۔ اسی میدان میں کچھ عرصہ پہلے لاہور کی ایک جامعہ کے لیے کورس ترتیب دیا اور کئی بار پڑھایا۔ دورِ حاضر کی سیاست کو اسلامی ممالک میں اسلامی جماعتوں کے نظریات اور تحریکوں کے بغیر کوئی نہ سمجھ سکا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے۔ اس بارے میں علمی بحثیں تو بہت ہیں اور ہر موضوع اپنے لحاظ سے پیچیدہ اور وسیع ہے۔ ان سب میں اسلامی ریاست کا قیام‘ اس کی ذمہ داری اور طریقہ کار پر کتابوں‘ مصنفین اور مفکرین کی کمی نہیں۔ اگر کمی ہے تو اتفاقِ رائے کی۔
''پارلیمان کے اجتہادی کردار‘‘ پر جب سید شمس الدین کی کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو اس اہم موضوع پر بھی گزشتہ صدی کے مفکرین اور علمائے دین میں کئی آراء سامنے آئیں۔ کچھ تو پہلے معلوم تھا مگر جس جامعیت اور تفصیل سے پروفیسر صاحب نے ان سب کا احاطہ کیا ہے وہ کبھی ایک جلد میں نہیں دیکھا۔ نہایت ہی سادہ مگر دل میں اُتر جانے والے ابلاغ کے ساتھ جمال الدین افغانی سے لے کر غامدی صاحب تک قلم فرسائی کی ہے۔ ان میں اکثریت کا خیال یہ ہے کہ آج کے دور کی پارلیمان مذہبی امور خصوصاً عبادات کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے اور نہ ہی اسے کسی اجتہاد کا حق ہے۔ یہ کام حکومت کے کسی بھی ادارے کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ایک ایسا ادارہ جو مجتہدین اور علما پر مشتمل ہو‘ وہ پارلیمان کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی پارلیمان کی معاونت کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل یا ادارہ تحقیقات اسلامی‘ جو ایوب دور میں بنے تھے‘ موجود ہیں۔ کونسل کی طرف سے کبھی کبھی فتوے جاری کیے جاتے ہیں جن میں کچھ عرصہ قبل یہ بھی تھا کہ وی پی این کا استعمال غیر اسلامی ہے۔ نظریاتی کونسل جانے اور پارلیمان‘ مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ پارلیمان کونسلوں پر کان نہیں دھرتی اور دھرتی ہے تو اس دھرتی کے طاقتور حکمرانوں کے اشاروں پر۔
سوچنے کی بات یہ ہے‘ اور جس پر ہمارے دوست شمس الدین صاحب نے سیر حاصل بحث کی ہے کہ پارلیمان میں جو نمائندے ہم منتخب کر کے بھیجتے ہیں‘ ان میں علمی اور عملی استعداد کس حد تک ہے کہ وہ ایک ادارے کے طور پر اجتہاد کر سکیں؟ اس بارے میں آپ کو ہماری رائے اور تبصروں کی ضرورت نہیں‘ آپ خود سیانے ہیں۔ ہمیں تو یہ خدشہ لاحق ہے کہ ہماری پارلیمان کبھی یہ اعلان نہ کر دے کہ وہ دینی امور کی تشریح اور تعبیر کر سکتی ہے‘ تو نہ جانے پھر مذہب کے نام پر یہاں کیا کچھ ہو گا۔ جو پہلے کچھ گروہ کر رہے ہیں وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ میری ادنیٰ رائے میں اجتہاد صرف مجتہد ہی کر سکتے ہیں‘ جنہوں نے اسلامی علوم کا کسب اس کمال درجے کا کیا ہے جس کے مقام کے بارے میں عمومی اتفاق ہو۔ اہم بات تو یہ ہے کہ پارلیمان کا کوئی بھی کردار اجتہادی ہو یا کسی اور مسئلے کے بارے میں‘ ہر ملک کی تاریخ‘ تہذیب‘ روایات اور موجودہ دور میں غالب طبقات کے مفادات کے مطابق ہی طے پاتا ہے۔ علمی مباحث اور ان پر تحقیق اور تالیف کا مقصد علم کی روشنی پھیلانا ہے۔ اس کاوش میں ہمارے دوست نہایت ہی کامیاب ہیں کہ ہم جیسے دشتِ سیاست کے مسافر بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کام میں ایسا کوئی دعویٰ کیا اور نہ ہی کوئی عالم اور استاد کر سکتا ہے کہ اجتہاد کے میدان میں کوئی رائے یا فیصلہ حرفِ آخر ہے۔ اگر اُن کے مؤقف‘ دلائل اور ان کے کام سے واقفیت ہو تو ہر پڑھنے والا اپنی رائے خود قائم کر سکتا ہے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ تحقیق وتالیف سے علم بڑھتا ہے‘ گھٹتا نہیں۔ جو اضافہ پروفیسر ڈاکٹر سید شمس الدین نے کیا ہے‘ اس میدان میں گراں قدر سرمایہ ثابت ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں