تربیت اور توازن نہ ہوں تو انسان اپنی زندگیاں سرابوں کی نذر کر ڈالتے ہیں۔ پہلے ذرا تربیت اور توازن کی بات کر لیتے ہیں۔ ان دونوں کا تعلق علم و حکمت سے ہے جن کا حصول ارد گرد کے سماجی ماحول‘ خاندانی روایات اور سب سے بڑھ کر دورِ حاضر کی تعلیم سے ہے۔ شخصیت سازی کے پیچیدہ عمل میں کئی دیدہ ونادیدہ عناصر کارفرما ہوتے ہیں جن میں خاندانی ماحول میرے نزدیک انتہائی اہم ہے۔ میں خود اپنی زندگی کے اوائل میں کبھی جھانکتا ہوں تو ہر سطح اور ہر مقام پر جن لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا‘ ان کی باتوں‘ اکثر کہانیوں‘ تجربوں اور مروجہ رجحانات کا رنگ لوگوں پر غالب نظر آیا۔ وقت کے دریا کے بہاؤ کی طرح سماجی رویے‘ اگر انسان نفسیاتی طور پر مضبوط نہ ہو تو‘ اسے خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتے ہیں۔ کردار کی مضبوطی اور پختگی خصوصاً نوجوانوں میں ہم نشینوں سے راسخ ہوتی دیکھی ہے۔ آپ اگر ہماری نسل کے ہیں تو یاد ہوگا کہ ہمارے بڑے کیا کہا کرتے تھے کہ کامیاب لوگوں کی مثال پر چلو‘ علم حاصل کرو اور کچھ بننے کی کوشش کرو۔ ہم نے بھی اپنے طویل تدریسی دور میں جب بھی موقع ملا اپنے طلبہ کو فضول باتوں‘ فضول کاموں اور فضول لوگوں سے دور رہنے کی ہدایت کی۔ ہر وہ چیز فضول ہے جو آپ کو اپنے مقصدِ حیات اور منزل کی طرف قدم بڑھانے میں کوئی رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔
آج کے دور میں رویے بہت بدل چکے ہیں۔ سماجی رجحانات میں مادیت پرستی‘ جاہ و مقام کی خواہش اور زر و دولت کی پرستش نے لوگوں کے گلے میں غلامی کی سنہری زنجیر ڈال رکھی ہے۔ جائز و ناجائز نے پرانے وقتوں کے معیارات بگاڑ دیے ہیں۔ دولت کی چمک نے اکثر لوگوں کی نظروں اور ذہنوں کو دھندلا دیا ہے۔ ایسے عمومی رویے اعلیٰ طبقات کی نقالی کی خواہش سے ترویج پاتے ہیں جنہیں ہم بالا حکمران طبقہ کہتے ہیں۔ ان کی صفوں میں خاندانی اور پرانی روایات کے لوگ بھی ہیں جنہیں دولت اور عزت خاندانی ورثے کے طور پر ملی ہے‘ اور وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنی محنت‘ لگن اور تدبیر سے صنعت و تجارت میں نام بنایا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے جدید پیشوں میں عروج پاکر ان طبقات میں جگہ بنائی ہے۔ میرے نزدیک وہ سب لوگ قابلِ تعریف اور لائقِ احترام ہیں جنہوں نے اپنی محنت سے مقام‘ آسودگی‘ شہرت یا دولت حاصل کی ہے۔ معاشرے کے لیے یہ لوگ اگر مثال مان لیے جائیں تو آنے والی نسلوں کو بھی تحریک ملتی ہے۔ میری استدعا یہ ہے کہ اگر آپ اپنی محنت سے زندگی میں کچھ بن سکے ہیں تو اپنے دیہات کو‘ جہاں سے آپ اٹھ کر آئے ہیں‘ کبھی نہ بھولیں۔ وہاں جاتے رہیں‘ لوگوں سے ملیں اور فرصت ہو تو مقامی سکولوں میں بچوں سے ملیں اور اپنے سفر‘ منازل اور مقام کے بارے میں بتائیں۔ یقین مانیں‘ آپ بچوں کی زندگیاں بدل سکتے ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ میں تیسری کلاس میں تھا۔ ہیڈ ماسٹر نے پورے سکول کو میدان میں کھڑا کر دیا۔ ایک صاحب نے‘ جو محکمہ انہار میں انجینئر تھے‘ مختصر تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس سکول میں پڑھتے تھے‘ مٹھائی تقسیم کی اور اس کے بعد انہیں کبھی نہ دیکھا۔ لیکن ان کی آمد سے دل میں تصور پیدا کہ اس سکول سے بھی لوگ کسی مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔
بچپن کے زمانوں میں تقریروں اور نصائح سے زیادہ زندہ مثالیں تحریک پیدا کرتی ہیں اور زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ باتیں بچوں کے ذہنوں میں زیادہ دیر نہیں ٹھہرتیں۔ ہمارے ہی سکولوں سے پڑھے ایک وکیل کا نام اکثر ہمارے اساتذہ لیا کرتے تھے کہ وہ کس قدر مشکل حالات کے باوجود ایک نامور قانون دان بنے۔ ہمارے سب بزرگ بھی عبدالرحمن جھلن صاحب کے نقشِ قدم پر چلنے کا کہتے تھے۔ ہماری مسافت اور منزلیں کچھ اور سمت میں تھیں‘ مگر جہاں بھی رہے وکیل صاحب کا دل میں کبھی کبھار خیال آتا اور جی کرتا کہ فرصت ملے تو ان سے ملاقات کریں۔ بھلا ہو اس جدید ٹیلی فون کی سہولت کا کہ عشروں سے بچھڑے دوستوں کو بھی تلاش کیا اور دور دراز کے علاقوں میں بستے عزیزوں کو بھی کہ جن سے رابطے کی صورت صرف ان کے ہاں حاضری دینا ہی ہوا کرتی تھی۔ آخر ایک دن ان کے آبائی گاؤں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے‘ کچے کے علاقے میں جھلن صاحب کی زیارت کو نکل ہی گیا۔ وہ ہماری پہلی اور آخری ملاقات ثابت ہوئی کہ کچھ عرصہ بعد وہ اس جہانِ فانی کو داغِ مفارقت دے گئے۔ کاش میں ان مرحوم انجینئر صاحب سے بھی مل سکتا مگر ہمارے کالج میں پہنچنے سے پہلے ہی شاید اپنا سفرِ زندگی تمام کر چکے تھے۔
زندہ اور مقامی مثالوں کے علاوہ طالب علموں کو‘ بشرطیکہ وہ طالب علم ہوں‘ کامیاب لوگوں کی سوانح حیات پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں‘ خود آج تک عالمی تاریخ کو پڑھنے کا یہ بہترین طریقہ سمجھتا ہوں۔ اس سے کہیں زیادہ ہر دور کے سماج‘ سیاست اور مشرقی رویوں کے علاوہ انسانی جذبہ و تحریک اور ہمت و استقامت کی خود نوشت میرے دل میں خوشی کی نئی پھلجھڑیاں پیدا کرتی ہیں۔ یہاں صرف دو کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ایک سر گنگا رام اور دوسرے بینجمن فرینکلن‘ جن کی داستانِ حیات پڑھ کر کرشموں اور معجزات پر یقین پختہ ہو جاتا ہے۔
آج کی دنیا میں‘ مغربی ہو یا مشرقی‘ رول ماڈل کا بہت بڑا اثر پڑتا ہے۔ میڈیا کتاب‘ اخبار‘ رسالے یا زیادہ طاقتور ٹی وی کا ہو‘ کئی ماڈلوں کو اجاگر کرتا رہتا ہے۔ برقی میڈیا کی رسائی فون سے لے کر سکرینوں تک‘ غریب سے لے کر پسماندہ علاقوں تک کے عوام کی دسترس میں ہے۔ لیکن اس دوران یہ بھی خدشہ ہے کہ ترتیب اور توازن نہ ہوں تو کچے ذہنوں میں حقیقت اور سراب میں تمیز کی صلاحیت نہیں رہتی۔ سرابوں میں زیادہ چمک اور اکثر لوگوں کو نزدیک ترین نظر آتے ہیں مگر جب اس طرف قدم رکھتے ہیں تو کہیں ذہنی ارتعاش کے صحراؤں میں کھو جاتے ہیں‘ اور کبھی شمالی افریقہ کے ریت کے میدانوں میں بھٹک کر‘ اور کبھی سمندر کے پانیوں کی تہہ میں زندگیاں گنوا بیٹھتے ہیں۔ مرکزی پنجاب کے چند اضلاع کا سماجی ماحول ایسا بنا ہوا ہے کہ ہر خاندان کی خواہش ہے کہ ان کا کم از کم ایک نوجوان کسی مغربی ملک میں چلا جائے تو وہ بھی علاقے کے معتبر اور امیر لوگوں کی فہرست میں ایک دن اپنا مقام لکھوا لیں گے۔ گزشتہ برس350 افراد ڈوبے‘ پھر بارہ اور رواں ہفتے چالیس سے لگ بھگ زندگی کی بازی ہار گئے۔ نجانے ایسی مسافتوں میں بلوچستان میں کتنے قتل کر دیے گئے اور کتنے افریقی ممالک میں غلام بنا لیے گئے۔ یہ صرف پاکستان ہی نہیں‘ دیگر ممالک کی بھی کہانی ہے۔ غربت اور بے روزگاری سے کہیں زیادہ ان اضلاع میں تارکینِ وطن کے نمائشی محلات‘ بڑی بڑی گاڑیاں اور اپنے علاقائی دوروں کے وقت شاہ خرچیاں ہیں جو دولت کے سراب میں نوجوانوں کو پُر خطر مسافت کی راہ پر ڈال رہی ہیں۔ کئی بار سنا ہے کہ ایک کو سمندر نگل گیا تو ہرجانے کے طور پر باپ نے ایجنٹ سے دوسرا بیٹا بھی بھیجنے پر معاملہ طے کر لیا۔ دل کڑھتا ہے کہ آج کے دور کے رول ماڈل کیسے کیسے لوگ ہیں اور کیسے رویے لوگوں کو کن راہوں پر ڈال رہے ہیں۔ اگر آپ خود ساختہ‘ کامیاب‘ متحرک اور معاشرے کا درد رکھتے ہیں تو اپنے دیہات‘ گاؤں اور محلوں میں اورجہاں موقع ملے‘ ایک مثال پیش کریں‘ رول ماڈل اور محرک کا کردار ادا کریں۔ آپ زندگیاں بدل سکتے ہیں۔