اہلِ بنگال! ہم نے مغربی پاکستان کی سیاسی‘ انتظامی‘ عسکری شخصیات کو سقوطِ ڈھاکہ کیلئے موردِ الزام ٹھہرایا۔ ہم 53 سال سے ان معاملات پر بات کرتے اور وہ غلطیاں مانتے آئے ہیں جنہوں نے بیچ میں دیواریں کھڑی کر دیں۔ ہم نے خود کو مجرم قرار دیا اور آپ کو بے گناہ! ہم مجرم تھے لیکن کیا پوری حقیقت یہی ہے؟ کیا آپ یا آپ میں سے کچھ برابر کے مجرم نہیں تھے؟ آج یہ سوال آپ سے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی دوست ایسی تحریریں پڑھ کر‘ یا شاید پڑھے بغیر ہی‘ آپ کو مکمل بری الذمہ اور خود کو مکمل ذمہ دار قرار دینے لگتے ہیں۔ میرا مؤقف یہ ہے کہ تمام مغربی پاکستانیوں کو سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اسی طرح تمام مشرقی پاکستانی بھی اس سانحے سے بری الذمہ نہیں سمجھے جا سکتے۔ دونوں اطراف کچھ سیاسی‘ عسکری‘ انتظامی کردار ایسے تھے جنہوں نے مل کر یہ خونیں حادثہ تخلیق کیا۔ عام طور پر دونوں طرف عوام اس میں شریک نہیں تھے۔ البتہ یہ درست ہے کہ ایک شدید جذباتی اشتعال اور احساسِ محرومی میں مشرقی پاکستان میں ایک بڑا گروہ وجود پا چکا تھا جو علیحدگی کو مسائل کا حل سمجھنے لگا تھا۔ اس گروہ کی تعداد کیا تھی‘ یہ ایک الگ سوال ہے۔
اہلِ بنگال! پاکستان کیلئے آپکی جدوجہد کو کون فراموش کر سکتا ہے۔ مسلم لیگ کی بنیاد 1906ء میں اُس وقت ڈھاکہ میں رکھی گئی جب مغربی علاقوں کے لوگ سیاسی شعور سے کم وبیش نابلد تھے۔ قراردادِ لاہور شیر بنگال اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی۔ آپ نے ایک نسل‘ ایک زبان اور ایک ثقافت ہوتے ہوئے بھی مغربی بنگال کیساتھ اکائی نہیں جوڑی اور خود کو بھارت سے الگ کیا۔ کانگریس کی سر توڑ کوشش کے باوجود آپ نے سلہٹ ریفرنڈم میں پاکستان کو ووٹ دیا۔ نواب سلیم اللہ خان‘ اے کے فضل الحق‘ حسین شہید سہروردی‘ مولوی تمیز الدین‘ پروفیسر غلام اعظم اور دیگر عمائد بنگال کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ مولوی تمیز الدین اُس اسمبلی کے سپیکر تھے جو توڑی گئی اور سپیکر اس اقدام کے خلاف عدالت میں گئے۔ اہلِ بنگال! 1947ء سے 1971ء تک‘ 24 سال میں آپکے چار وزیراعظم آئے۔ خواجہ ناظم الدین‘ محمد علی بوگرا‘حسین شہید سہروردی اور جناب نور الامین۔ انکی مجموعی مدت ساڑھے پانچ سال کے لگ بھگ بنتی ہے۔ باقی ساڑھے اٹھارہ سال مغربی پاکستانیوں اور ڈکٹیٹروں کے حصے میں آئے‘ ساڑھے پانچ سال بہت کم مدت ہے لیکن بہرحال 24 سال میں یہ 20 فیصد بنتی ہے۔ دیگر بنگالی وزرا ان کے علاوہ ہیں۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس مدت اور ان وزارتوں میں بنگالیوں کے احساسِ محرومی کا کیا مداوا کیا گیا؟ اگر یہ اتنے ہی بے دست وپا عہدے تھے تو قبول کیوں کیے گئے اور کیا یہی جواز ان مغربی پاکستانی سیاسی وزرائے اعظموں کو اور وزیروں کو نہیں ملنا چاہیے جو اس دوران عہدوں پر فائز رہے؟ بنگال کے استحصال کے الزام سے آپکے رہنما کیسے بری ہیں؟
اہلِ بنگال! آج آپ شیخ مجیب الرحمان اور اس کے خاندان کو بھارتی بروکر کا خطاب دیتے ہیں۔ آپ کے ہاں سے مسلسل کئی عشروں سے‘ حسینہ واجد کے بعد سے علی الاعلان کہا جا رہا ہے کہ اس گروہ نے بنگلہ دیش کو بھارتی غلامی میں دھکیل دیا۔ کیا یہ وہی شیخ مجیب نہیں تھا جس پر 1968ء میں اگرتلہ سازش کیس بنا تھا۔ اگر آپ آج اسے ایجنٹ کہہ رہے ہیں تو 1968ء میں جب ہم یہ بات کہتے تھے تو اس وقت آپ نے یہ بات کیوں نہ سنی؟ جو شخص آپ کے خیال میں 1971ء میں بنگالیوں کا خیر خواہ تھا‘ وہ محض چار سال بعد ہی 1975ء میں بنگالیوں کا دشمن قرار دے کر قتل کیوں کر دیا گیا؟ اہلِ بنگال! ہماری طرح آپ بھی متحدہ پاکستان میں ڈکٹیٹروں سے بہت تنگ تھے۔ آپ اپنے سیاسی شعور اور جدوجہد کی تاریخ رکھتے تھے۔ لیکن کیا غاصبوں کے بغیر آپ نے اپنا ملک چلا لیا؟ کیا آپ کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ 1975ء سے 2009ء تک 29 کامیاب و ناکام فوجی بغاوتیں بنگلہ دیش میں ہوئیں۔ اگست 1975ء کی خونیں بغاوت‘ جس میں شیخ مجیب اور اس کے گھرانے کو قتل کر دیا گیا‘ اور خوندکر مشتاق احمد کو لایا گیا اور جنرل ضیا الرحمان کو چیف آف آرمی مقرر کیا گیا‘ پھر اسی سال نومبر میں بریگیڈیئر خالد مشرف کی بغاوت‘ جس میں خوندکر مشتاق کو الگ کر دیا گیا‘ پھر اسی سال نومبر میں خالد مشرف اور ساتھیوں کو قتل کرنے کی نئی بغاوت‘ جس میں چیف جسٹس کو سربراہ بنایا گیا۔ پھر جنرل ضیا الرحمن‘ جو 1977ء میں ملکی صدر بنا۔ ضیا الرحمن کو بھی مئی 1980ء میں آرمی آ فیسرز نے قتل کر دیا۔ پھر اکتوبر 1977ء میں فضائیہ کے افسران کی بغاوت‘ پھر نئے آرمی چیف جنرل ارشاد کی بالادستی‘ جس نے کٹھ پتلی صدر عبدالستار کو عہدے پر بٹھایا۔ پھر مارچ 1982ء میں جنرل ارشاد حسین کا صدر کو برطرف کرکے آئین معطل کرنا اور خود کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر قرار دینا۔ پھر جنرل ارشاد کا 1983ء میں صدر بن جانا۔ پھر 1996ء کی ناکام بغاوت‘ 2011ء میں فوجی ناکام بغاوت‘ پھر 2007ء میں جنرل معین کی فوجی بغاوت‘ یہ محض چند واقعات ہیں۔ تاریخ میں تمام تفصیلات موجود ہیں۔ فوج کے اندر کی بغاوتوں کا خونچکاں باب الگ ہے جس میں 2009ء میں بنگلہ دیش رائفلز کی طرف سے اپنے ڈائریکٹر جنرل شکیل احمد کو 56 دیگر افسران سمیت قتل کرکے بپا کی گئی بغاوت بھی شامل ہے۔ یہ سب 53 سال کا کتنا دورانیہ ہے‘ خود حساب لگا لیجیے کہ اتنی بغاوتیں تو 1947ء سے اب تک پاکستان میں بھی نہیں ہوئیں۔ جو ہوئیں وہ ایسی خونیں نہ تھیں۔ آپ کو ان 53 سالوں میں ''عوامی نمائندگی‘‘ کے نام پر کتنی دیر اقتدار ملا؟ کیا یہ مدت بنگلہ دیش کی قومی عمر کا 20 فیصد بنتی ہے؟ حسینہ واجد کے اقتدار کو تو آپ خود جبر واستبداد اور غیر منصفانہ انتخابات کے ذریعے تسلط مانتے ہیں۔ کیا اسے سول اقتدار میں شمار کر سکتے ہیں؟ آپ نے شیخ مجیب کو 'بنگا بندھو‘ کا خطاب دے کر اسے قوم کا باپ مانا لیکن کیا اس خاندان کے کسی ایک فرد نے بھی 1971ء کی جنگ میں حصہ لیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ شیخ مجیب کا بیٹا شیخ کمال 1974ء کی بنگلہ دیش بینک ڈکیتی میں ملوث تھا اور فرار ہوتے ہوئے پولیس کی گولی کا نشانہ بنا؟ کیا شیخ مجیب کی زندگی میں اس کے قریبی اور چہیتے افراد کی غنڈہ گردی اور تشدد کے واقعات ڈھکے چھپے ہیں؟ کیا بپی نامی ایک چہیتے (جسے آپ نے کمبل چور کا لقب دیا) نے میجر دالم کی بیوی نمی دالم کو ایک شادی کی تقریب سے اغوا نہیں کیا تھا؟ وہ میجر دالم‘ جو ''جنگ آزادی‘‘ کا اہم کردار تھا۔ جسے بعد میں بنگلہ دیش سے فرار ہونا پڑا اور جس نے بعد میں ایک کتاب لکھ کر بہت سے حقائق منکشف کر دیے۔
اہلِ بنگال! 1970ء کے قیامت خیز سمندری طوفان سے لاکھوں جانیں گئی تھیں‘ آپ نے ناکافی انتظامات کا ذمہ دارمغربی پاکستان کو ٹھہرایا ۔ کیا 1971ء کے بعد بنگلہ دیش میں سیلابوں اور سمندری طوفانوں سے ہلاکتیں ختم ہو گئیں؟1974ء میں بنگلہ دیش کے غذائی قحط‘ جس میں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہلاکتیں ہوئی تھیں‘ کی ذمہ داری کس پر ہے؟ مسلسل یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا کہ تیس لاکھ بنگالیوں کو 1971ء کے آپریشن میں ہلاک اور تین لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ ایک بے گناہ معصوم بنگالی کی ہلاکت یا ایک عورت کی عصمت دری بھی شرم سے سر جھکا دینے والی ہوتی ہے لیکن یہ انتہائی مبالغہ آمیز اعداد وشمار کبھی ثابت ہوئے؟ کبھی وہ فہرست ناموں کے ساتھ شائع کی گئی؟ ایک مغربی بنگالی مصنفہ شرمیلا بوس نے اپنی کتاب Dead Recokning میں اس کی تردید کر دی اور بنگلہ دیشی تاریخ دانوں نے بھی اسے عملاً ناممکن قرار دیا۔ کیا دنیا بھر کے آزاد ذرائع میں کسی نے آپ کے اعداد وشمار کی تائید کی؟ اگر نہیں‘ تو پھر یہ جھوٹ یا انتہائی مبالغے کے سوا کیا ہے؟ اور وہ جو بہاریو ں کا قتل عام کیا گیا؟ اور جس جس طرح قتل کیا گیا‘ کیا وہ انسان نہیں تھے؟ کیا اس بربریت پر کبھی آپ کا سر شرم سے جھکا ہے؟
سوال تو اور بھی بہت ہیں۔ لیکن کتنے دہرائے جائیں؟ بنیادی سوال تو ایک ہی ہے: اہل بنگالِ کیا کیا آپ نے اپنے ساتھ؟ کیا کیا آپ نے؟