"SUC" (space) message & send to 7575

روعہ کا خواب

روعہ کھل اٹھی ''واہ آپ پاکستان سے ہیں! میرے بہت سے پاکستانی دوست ہیں۔ پاکستانی بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں اور میرا عراقی شوہر تو پاکستانی کھانوں کا دیوانہ ہے۔ آپ بہادر لوگ ہیں‘ ڈٹ جاتے ہیں اور اپنی سلامتی پر کوئی سودا نہیں کرتے۔ آپ عراق اور شام کے حکمر انوں کی طرح جھکنے والے لوگ نہیں ہیں‘‘۔ جولائی 2022ء میں روعہ سے استنبول ایئر پورٹ پر نیو جرسی کی فلائٹ کے انتظار میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ تین سالہ بیٹی تھی اور وہ اپنے شوہر کے پاس نیو جرسی جا رہی تھی۔ اس کا تعلق شام کے شہر حمہ سے تھا‘ جو حلب سے 135 کلومیٹر دور ہے لیکن اس کے بیشتر عزیز واقارب حلب میں رہتے تھے۔ دیارِ غیر میں اپنے ملک اور اپنے ہم وطنوں کی تعریف سن کر کیسی خوشی ہوتی ہے۔ ''ہمارے لوگ مر گئے۔ ہمارے خاندان بکھر گئے۔ بیشمار لوگ ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں چلے گئے۔ ہم دنیا میں ٹھکانے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ہمارے شہر میں بجلی نہیں اور جنہیں چاہیے وہ جنریٹر چلانے پر مجبور ہیں۔ بیحد مہنگائی ہے اور ملازمتیں نایاب۔ جان ہر وقت خطرے میں ہے۔ میں اپنے ملک اور عزیزوں کو بہت یاد کرتی ہوں‘ ابھی بہت سے وہیں ہیں لیکن میں وہاں جانا نہیں چاہتی‘‘۔ روعہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں گم سم بیٹھا تھا۔ مہاجرت کی دربدری چکھنے والے ہی ان تکلیفوں کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ شام کے لوگوں پر موجودہ خانہ جنگی میں کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے‘ ہمیں آپ کو ٹھیک سے اندازہ بھی نہیں۔ وطن کی قدر بے وطنوں کو ہوتی ہے۔ دو دن پہلے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر باغی مسلح گروپوں کے قبضے کی خبریں پڑھیں تو روعہ یاد آ گئی۔ معلوم نہیں ان گھرانوں پر اس جنگ میں کیا گزری۔ پتا نہیں یہ قبضہ ان کیلئے اچھی خبر لایا ہے یا بری۔ میرے ذہن میں حلب کی تاریخ اور تصاویر فلم کی طرح چلنے لگیں۔ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک‘ حلب‘ جو بحیرۂ روم اور بین النہرین (میسو پوٹیمیا) کے اہم ترین خطے میں بڑا مرکز رہا ہے۔ یہیں سے فونیقی رسم الخط کی ایجاد بتائی جاتی ہے۔ قدیم شہر کے جنوب میں تل السوادا اور تل الانصاری میں کھدائی سے تانبے کے دور کے آثار دریافت ہوئے۔ ڈھائی ہزار سال قبل مسیح کی تختیاں‘ جو مدفون اور برباد شہروں کے احوال سناتی ہیں۔ پھر ساسانی یعنی فارس کی حکومت کا مسلمانوں نے خاتمہ کیا اور 637 ء میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں مسلمانوں نے اس پورے علاقے پر حکومت قائم کر لی۔ روایتی کھانوں‘ پھلوں اور خشک میووں کا مرکز حلب۔ جہاں ریستورانوں میں دنبے کے کوفتوں یعنی قبہ کے بعد کنافے اور غزل البنات سے دہن شیریں کیا جاتا اور قہوے کی چسکیوں کے ساتھ شطرنج کھیلی جاتی۔ امن و امان کے ساتھ سورج طلوع ہوتا اور ستاروں بھری رات میں داستان گوئی ہوا کرتی۔ بیس لاکھ آبادی کا شہر حلب‘ اب چند لاکھ پر مشتمل ہے اور پورا شہر اُجڑ چکا ہے۔
شام کی موجودہ بدامنی امن کی طرف ہاتھ بڑھائے گی یا پرانی آگ پھر سے بھڑک اٹھے گی۔ ہیئت التحریر الشام نے کئی دیگر باغی گروپوں کے ساتھ مل کر غیر متوقع طور پر حلب سے شامی فوجوں کو نکال باہر کیا ہے۔ یہ اقدام لبنان میں جنگ بندی کے فوراً بعد کیا گیا۔ ان تبدیلیوں کا وقت بہت معنی خیز ہے۔ بشار الاسد کی حامی قوتیں اس وقت کمزور ہو چکی ہیں۔ کئی بڑے شامی کمانڈر مارے گئے ہیں اور شام میں موجود قوت بہت کم رہ گئی ہے۔ ادھر حزب اللہ سنبھلنے کی کوشش کر رہی ہے اور ابھی اسرائیل سے مکمل جنگ بندی نہیں ہو سکی۔ اسرائیل اور حزب اللہ میں اب بھی جھڑپیں جاری ہیں اور اسرائیل نے لبنان میں تازہ کارروائیاں کی ہیں۔ حزب اللہ نے بھی شیبا فارمز پر راکٹ داغے ہیں۔ فریقین نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے ہیں۔ روس یوکرین میں الجھا ہوا ہے۔ ان سب کے بغیر بشار الاسد کی فوجیں کمزور ہیں۔ ناقابلِ یقین برق رفتاری کے ساتھ ہیئت التحریر نے پیش قدمی کی‘ جو سرکاری فوجوں کیلئے بالکل غیر متوقع تھی۔ اب یہ جنگجو حمہ پر بھی کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ یہ 2016ء کے بعد ہیئت التحریر کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ حلب ترکیہ کی سرحد سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘ سو قریبی علاقے کرد باغیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ بشار الاسد نے غیر ملکی اتحادیوں سے مدد کی اپیل کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے دمشق کا دورہ کر کے بشار الاسد حکومت کو حمایت کا یقین دلایا ہے۔ روسی اور شامی طیاروں نے حلب پر قابض گروپوں پر بمباری کی ہے۔
انبیاء کرام کی سرزمین مسلسل کیسی آزمائشوں سے گزر رہی ہے۔ عراق‘ شام‘ لبنان‘ فلسطین کی طرف سے کئی عشروں سے اچھی خبریں نہیں آ رہیں۔ ملحقہ ممالک بھی اچھے حالات میں نہیں۔ شام کے مسلح باغی گروپوں میں کچھ عرصہ پہلے فری سیرین آرمی نمایاں تھی لیکن اب وہ پس منظر میں چلی گئی ہے۔ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں 1971ء میں شام کے اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ کم وبیش 53 سال سے یہ خاندان اقتدار پر موجود ہے‘ اور اس تمام عرصے میں جبر وتشدد کے ذریعے مخالفین کو کچلتا آیا ہے۔ 2011ء میں خانہ جنگی کی ابتدا بشار الاسدکی طرف سے مخالفین کے ایک پُرامن احتجاج کو بے رحمی سے کچلنے سے ہوئی۔ مخالفین نے ہتھیار اٹھا لیے اور کئی مسلح جنگجو گروپ پیدا ہو گئے۔ یہ گروپ کبھی اکٹھے اور کبھی الگ ہوئے اور بنتے بکھرتے رہے۔ ان میں کئی گروپ وہ تھے یا ہیں‘ جن کا کسی نظریے سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ صرف موجودہ حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔ فری سیرین آرمی بھی ایسا ہی ایک گروپ ہے۔ اب غالب مسلح جنگجو کسی نہ کسی مذہبی گروپ سے منسلک ہیں۔ ہیئت التحریر میں جنگجوئوں کی تعداد 30ہزار بتائی جاتی ہے۔ ماضی میں یہ گروپ مختلف ناموں کے ساتھ سامنے آیا اور اس کا ابتدائی تعلق القاعدہ سے رہا۔ یہ شام میں القاعدہ کا بازو سمجھا جانے والا گروپ تھا لیکن بعد میں اس نے جداگانہ شناخت قائم کر لی۔
اس وقت شام کا جنوب مغربی بڑا علاقہ حکومت کے قبضے میں ہے‘ جس میں ملک کا دارالحکومت دمشق بھی شامل ہے لیکن شمال مشرقی بڑا حصہ کسی نہ کسی باغی گروپ کے کنٹرول میں ہے۔ المالکیہ کے سرحدی شہر سے منبج تک کا شمالی حصہ‘ جس میں بڑا جنوبی علاقہ بھی شامل ہے‘ کر د شامی گروپ سیرین ڈیمو کریٹک فرنٹ کے کنٹرول میں ہے۔ ادلب‘ حلب اور نیچے حمہ تک کے علاقے پر ہیئت التحریر کا قبضہ ہے‘ یہیں تیل کے ذخائر ہیں اور یہ ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ داعش بھی کئی چھوٹے چھوٹے جنوبی خطوں پر قابض ہے۔ ترک حمایت یافتہ شامی گروپ بھی ترکیہ سرحد کے قریب کچھ شمالی حصوں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ اور بھی گروپ ہیں جو حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں اپنی اپنی حکومتیں بنائے ہوئے ہیں۔ سرکاری فوج کو اگرچہ فضائیہ‘ ہتھیاروں اور غیر ملکی امداد کی طاقت حاصل ہے لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پچاس سال سے زیادہ جبر وتشدد کے سبب بشار الاسد کو عوام کی حمایت بہت کم حاصل ہے۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ بتدریج بشار الاسد کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہے۔ حلب اور حمہ پر قبضے کے بعد حکومتی فوجوں نے جوابی کارروائی کی ہے اور اس وقت بھی بہت سے علاقوں میں خونریز لڑائی جاری ہے۔ اگرچہ پہلے بھی حلب سرکاری فوجوں کے ہاتھ سے نکل گیا تھا مگر اس پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا گیا تھا۔ اس بار باغی زیادہ طاقت کے ساتھ موجود ہیں۔
غزہ‘ اور لبنان کی حالیہ جنگوں کے فوراً بعد شام نے اپنی طرف توجہ مبذول کرا لی ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ خطے میں اسرائیل کو شام کی اس بدلتی صورتحال سے فائدہ ہوگا یا نقصان؟ جو اس وقت بھی شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قابض ہے۔ اور خود شام کا مستقبل کیا ہے؟ حال تو بہرحال یہ ہے کہ شام جل رہا ہے۔روعہ نے اپنے نام کا مطلب ''حسین خواب‘‘ بتایا تھا۔ کیا روعہ کا ملک پھر سے حسین خواب دیکھ سکے گا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں