قیدی نمبر 804 کو کٹہرے میں لایا جا رہا تھا۔ آج کل اڈیالہ جیل میں ایک فیکٹری کو آڈیٹوریم کا نام دے کر قیدی نمبر 804 کے فوجداری ٹرائل دھڑا دھڑ جیٹ سپیڈ سے دن رات ہو رہے ہیں۔ ابھی کل صبح شروع ہونے والا‘ القادر یونیورسٹی قائم کرنے کے جرم والا ٹرائل عمران خان کے خلاف رات ساڑھے نو بجے تک چلتا رہا‘ حالانکہ سول جج سے سپریم کورٹ تک‘ عدالتی وقت تین بجے تک ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ٹرائل نہیں قالین کے نیچے انصاف کا قتل ہے۔ بہر حال اسی جگہ مرغیوں کے ڈربے جیسے کیبن بنائے گئے ہیں۔ کارڈ بورڈ کی شیٹس لگا کر ایک طرف ججز کے بیٹھنے کی کرسی میز رکھنے کی جگہ بنی ہے‘ جس کے نیچے ایک ڈربہ نما جگہ پر وکیل حضرات کے کھڑا ہونے کے دو سٹیپس واقع ہیں۔ اس سے پیچھے کی طرف چند کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ کرسیوں کے بعد کی جگہ پہ تین ڈربے اور بھی ہیں جن میں سے ایک میں سیاسی قیدیوں اور پی ٹی آئی ورکرز کو کھڑا ہو کر ڈربے کے اندر سے اپنا فیئر ٹرائل دیکھنے کی ''سہولت‘‘ دی گئی۔ یہ ڈربہ ٹرائل کورٹ کے جج صاحب کی نشست گاہ سے تقریباً چالیس فٹ کے فاصلے پہ بنتا ہے۔ اس لیے ٹرائل کرنے والے جج صاحب کی آواز ان ملزموں تک صرف مائیک کے ذریعے پہنچ پاتی ہے۔ وہ مائیک جو صرف جج صاحب استعمال کر سکتے ہیں جبکہ وکیلوں کے لیے کوئی مائیک موجود نہیں ہے‘ جس کی وجہ سے مقدمے کی سماعت اور گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جانے کے دوران ملزمان کی صفائی کے وکیل صاحبان کیا کہہ رہے ہیں‘ الزامات کے خلاف کس طرح کی‘ کیا وضاحت پیش کر رہے ہیں‘ ملزموں کو کچھ پتا نہیں چل سکتا۔ قیدی ملزموں کے ساتھ والے ڈربے کو مزید دو چھوٹے چھوٹے ڈربوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ پہلا ڈربہ خالی رکھا جاتا ہے جس کا سائز تقریباً 8x10 فٹ ہے۔ خالی ڈربے کے پیچھے والے ڈربے میں چار‘ پانچ صحافیوں کو سلیکٹ کر کے عمران خان کا 'فیئر ٹرائل‘ دیکھنے کے لیے بٹھایا گیا تھا۔ حالانکہ صحافیوں والے تیسرے ڈربے سے عمران خان کو جس ڈربے میں کٹہرا کہہ کر کھڑا کیا جاتا ہے‘ وہ نظر آتا ہے نہ ہی وہ سائیڈ نظر آتی ہے۔ یاد رکھیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی امر واقعہ ہے کہ یہ صحافی جو عدالت کی شرقی جانب والے سب سے پچھلے ڈربے میں بند ہوتے ہیں‘ ان تک عمران خان‘ جج یا وکیل کسی کی آواز نہیں پہنچ سکتی۔ ان ڈربوں کی مشرقی جانب کی بقیہ جگہ کو آپ راہداری کہہ سکتے ہیں جس سے گزر کر کرسیوں والا ڈربہ آتا ہے‘ جس میں زیادہ تر نامعلوم افراد ہی براجمان ہوتے ہیں۔ آگے ایک ٹیبل رکھا ہے جہاں قیدی نمبر 804 کے خلاف مقدمات چلانے والے پراسیکیوٹرز اور سینئر وکلا کے بیٹھنے کی واحد جگہ ہے۔ اسی ڈربے کے مغربی کونے کی دیوار میں سے ایک چھوٹا سا نیا آہنی دروازہ نکالا گیا ہے۔ یاد رہے یہ ڈربہ بازار‘ جہاں قیدی نمبر 804 کے خلاف جیٹ سپیڈ ٹرائل کے تقاضے پورے کیے جار ہے ہیں‘ اس عدل گاہ کو ایسے کمپاؤنڈ اور چار دیوار ی کے اندر قائم کیا گیا ہے جس تک پہنچنے کے لیے وکیل حضرات کی چھ دروازوں پر سر سے پیر‘ جیب سے نیفہ‘ کوٹ سے بوٹ‘ قلم سے گھڑی تک‘ کتاب سے پرچی سمیت ہر چیز کی تلاشی ہوتی ہے اور اکثر چیزیں اندر جانے سے پہلے ہی رکھوا لی جاتی ہیں۔ دو عدد بیریئرز پر تلاشی اس کے علاوہ ہے۔ اسی طرح کی ایک تلاشی کے دوران پچھلے دنوں سینئر پراسیکیوٹر کے بازو سے گھڑی اتار لی گئی۔ اس بدتہذیبی پر جب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں سرکاری وکیل ہوں تو اسے جواب دیا گیا: پھرکیا ہوا۔ وکلا کی خبر یہ ہے کہ جیل پولیس کی وردی میں عجیب و غریب رویوں اور حلیوں والے لوگ وکلا کو تنگ کرنے کے لیے جیل کے احاطے میں پائے جاتے ہیں۔ جہاں لوہے کے نئے بغلی دروازے سے 4x5 فٹ کی گلی ایک اور ڈربے تک قیدی نمبر 804 کو لانے کا واحد راستہ نکالا گیا ہے۔ یہ ڈربے تکون نما ہیں اور ان کا کل رقبہ 4.5x5 فٹ سے زیادہ ہرگز نہیں۔ کپتان کو یہاں بغیر کسی کرسی کے لا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ کپتان کے آنے سے دو منٹ پہلے صحافیوں والے ڈربے سے اونچی اونچی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ پتا چلا کہ عجب اہلکار پُرغضب طریقے سے صحافیوں کی جیل سے باعزت رخصتی میں لگے ہوئے ہیں۔ بغیر عمران خان کی کوریج کی اجازت کے۔
عمران خان کو تقریباً سوا گھنٹہ کٹہرے میں کھڑا رکھا گیا‘ جہاں ان سے بات چیت ہوتی رہی۔ قیدی نمبر 804 پورے عزم اور حواس میں تھا۔ میرے ساتھ منشی شبیر کو دیکھ کر عمران خان نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا شبیر تم کیسے ہو‘ کتنی دیر سے کھڑے ہو؟ کپتان مجھے بتانے لگے کہ میرا ٹی وی اٹھا لیا گیا۔ اس کے باوجود بھی پورے عزم سے بولے کہ میں کھڑا رہوں گا‘ اپنے لیے نہیں رول آف لاء اور قوم کی حقیقی آزادی کے لیے۔ اسی روز کپتان نے جیل میں 500 دن قیدِ تنہائی میں پورے کیے تھے۔
دوسری جانب تنہا قید عمران خان کے لیے ساری دنیا بول اُٹھی ہے جس کی جاری مثال امریکہ سے دینا مناسب ہو گا جہاں 20 جنوری 2025ء تک کی حکومت کے بڑے قد آور لوگ اور 20 جنوری کو آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کے انتہائی اہم عہدوں پر صدر ٹرمپ کے خود نامزد کردہ عہدیدار‘ اقوام متحدہ سمیت عمران خان کی آزادی کے لیے Release Imran Khanکا نعرہ لگا رہے ہیں۔ آنے والی امریکی انتظامیہ کے اہم ترین عہدیدار Richard Allen Grenell نے نامزدگی سے پہلے ٹویٹ کے ذریعے Release Imran Khan کا آفیشل اکاؤنٹ پر بیان جاری کیا۔ آئیے پہلے یہ جان لیں رچرڈ صاحب ہیں کون؟ رچرڈکے تعارف کے لیے اِدھر اُدھر دیکھنے کے بجائے ڈونلڈ جے ٹرمپ کی آفیشل ٹویٹ دیکھ لینا زیادہ بہتر ہے۔ ٹرمپ کے آفیشل اکاؤنٹ پر نامزد امریکی صدر نے لکھا کہ یہ اعلان کرتے مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ ہم نے رچرڈ ایلن گرینیل کو امریکہ کا صدارتی نمائندہ برائے خصوصی مشن کے طور پہ چنا۔ وہ دنیا بھر میں ہاٹ سپاٹ علاقوں پرکام کریں گے‘ جن میں وینزویلا اور شمالی کوریا بھی شامل ہیں۔ مسٹر رچرڈ صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں جرمنی میں امریکی سفیر رہے۔ ایکٹنگ ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے عہدے پر کام کیا۔ صدارتی معاون برائے Kosovo-Serbia مذاکرات کی اہم ذمہ داری نبھائی۔ آٹھ سال اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں خدمات سرانجام دیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک کے تنازعات کو امریکہ کی طرف سے نمٹایا۔ ہمارے ہاں ایک نجی ٹی وی چینل نے‘ جو رچرڈ کے عمران خان کا حامی ہونے کی وجہ سے اس تعیناتی پر ناخوش تھا‘ اردو ٹویٹ ان الفاظ میں کیا ''ہم جنس پرست رچرڈ گرینیل ٹرمپ کے خصوصی ایلچی مقرر‘‘۔ اس ٹویٹ پر 24 گھنٹے کے اندر اڑھائی ملین سے زیادہ پاکستانیوں نے دنیا بھر سے رچرڈکے آفیشل اکاؤنٹ کی ٹرولنگ شروع کر دی۔ جس کے نتیجے میں... (جاری)