"SUC" (space) message & send to 7575

جامع اموی دمشق کے سائے تلے

8 دسمبر 2024ء۔ نور الدین زنگی‘ صلاح الدین ایوبی اور رکن الدین بیبروسہ کے مزارات نے دمشق میں اللہ اکبر‘ اللہ اکبر کے نعرے سنے۔ سرکاری ٹی وی پر اعلان سنا کہ دمشق کو آزاد کرا لیا گیا ہے اور جابر حاکم بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ ایئرپورٹ انقلابی قوتوں کے قبضے میں ہے اور بشار الاسد نامعلوم مقام کی طرف فرار ہو چکا ہے۔ قدیم دمشق کے سوق الحمیدیہ‘ تکیہ سلیمانیہ سوق اور سوق البزوریہ میں بند دکانوں کے خوف زدہ مالکان نے اطمینان کے سانس لیے۔ باب شرقی‘ مدحت پاشا‘ مسجد امیہ اور شارع المستقیم کے علاقوں میں گھروں میں اپنے بچوں کو سینے سے لگائی ڈری ہوئی عورتوں کو سکھ کی خبر ملی۔ دریائے بردیٰ کے کنارے طعام گاہوں نے وہ خبر سنی جس کا انہیں مدتوں سے انتظار تھا۔
تین دن پہلے جب میں شام کے موجودہ حالات پر کالم 'روعہ کا خواب‘ سپرد قلم کر رہا تھا تو کہیں ذہن میں یہ بات تھی کہ بشار الاسد اب چند دنوں کا حاکم ہے۔ لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ دو‘ تین دن کے اندر ہی دمشق بشار الاسد کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ایرانی اور روسی یقین دہانیوں کے باوجود نظر آ رہا تھا کہ حامیوں نے اسد حکومت کو اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ انہیں بھی دیوار پر لکھا ہوا نظر آ رہا تھا۔ سرکاری فوج بددل اور بے حوصلہ ہو چکی تھی۔ انتہا درجے کی مہنگائی میں سرکاری فوجیوں کو تنخواہیں نہیں مل رہی تھیں۔ دو دن پہلے بشار الاسد نے فوجیوں کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافے کا اعلان کیا تو یہ بھی ان کا حوصلہ بڑھانے کی ایک آخری کوشش تھی۔ لیکن اب اس کے لیے بہت دیر ہو چکی تھی۔ تیرہ سال کی خانہ جنگی نے فوج کے حوصلے توڑ دیے تھے۔ عوام ساتھ نہیں تھے اور مقابلہ بھی اپنے ہم وطنوں سے تھا۔ جگہ جگہ نئے نئے باغی گروپ سامنے آ چکے تھے اور ملک کا شمالی‘ مشرقی علاقہ حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ رہی سہی کسر جنوب میں ایک باغی گروپ نے پوری کر دی اور سرحدی علاقوں پر قبضہ کرتے ہی اس نے دمشق کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ اس طرح دمشق شمال اور جنوب دونوں طرف سے باغیوں کے نرغے میں آ چکا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ دمشق کے اطراف اور خود دارالحکومت میں کسی لڑائی کے بغیر سرکاری فوجیں سپر انداز ہوتی چلی گئیں۔ اس کی کسی کو توقع نہیں تھی لیکن عراق کی سرحد پر بڑے پیمانے میں شامی سرکاری فوجیوں کو اپنے سامان‘ اسلحے اور گاڑیوں سمیت خود کو عراقی فوج کے حوالے کرنے کی خبروں سے پتا چلتا ہے کہ شامی سرکاری فوج اور حکومتی حکام اب محض جان بچا کر فرار ہونے کو ترجیح دے رہے تھے۔ اور وہ کیوں ایسا نہ کرتے؟ خود بشار الاسد نے بھی تو یہی کیا۔ تو اس کی فوج کو کیا ضرورت تھی کہ وہ اپنی جانیں اس کیلئے دے؟ اور یہ اچھا ہوا کہ مزید خون نہیں بہا۔
53 سالہ خاندانی حکومت کا اختتام ہوا تو یہ ہر ڈکٹیٹر کیلئے ایک اور سبق تھا۔ ایسا سبق جو دنیا کے ہر ملک میں بار بار دہرایا جاتا ہے‘ لیکن اقتدار کی ہوس اسے ہر بار فراموش کر دیتی ہے۔ اپنے ہی لوگوں کو قتل کر کے‘ جیلوں میں بند کر کے‘ تشدد سے زبان بندی کر کے‘ مہاجرت پر مجبور کر کے کوئی طاقتور ترین شخص بھی زیادہ دیر کرسی پر نہیں رہ سکتا۔ پانچ لاکھ شامی اس خانہ جنگی میں قتل کیے گئے‘ پچاس لاکھ کے قریب مہاجرت پر مجبور ہوئے۔ ادلب‘ حلب‘ حمہ سمیت بڑے شہر کھنڈر بن گئے‘ صرف ایک شخص کے اقتدار پر مسلط رہنے کی خواہش کے سبب۔ وہ اقتدار جس کی ملک اور بیرونِ ملک عزت بھی کوئی نہیں تھی‘ بشار الاسد آخر تک اس سے چمٹے رہنے کی کوشش کرتا رہا۔
اتوار کی صبح جب باغیوں نے دمشق ایئر پورٹ پر قبضہ کیا تو پورے شام کی فضا میں صرف ایک طیارہ تھا۔ یہ دمشق سے اڑا‘ حمص کی طرف رخ کیا اور وہاں سے آگے یہ گم ہو گیا۔ یہ طیارہ کہاں گیا اور اس میں کون تھا؟ اگر یہ بشار الاسد کا طیارہ تھا تو اس نے کس جگہ زمین کو چھوا ہو گا۔ کون سی جگہ ایسی ہو گی جہاں بشار الاسد کو پناہ مل سکتی تھی؟ ہمسایہ ممالک میں اردن‘ عراق‘ لبنان‘ ترکیہ‘ اسرائیل تو نہیں ہوں گے۔ ایران اور روس ممکنہ پناہ گاہیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن ایک غیر مقبول‘ بے لشکر‘ بے سلطنت بادشاہ انہیں بھی کیا فائدہ دے سکے گا؟ یاد ہے محمد رضا شاہ پہلوی کو بھی ملک بدر ہونے کے بعد دنیا بھر میں کسی جگہ پناہ نہیں ملتی تھی۔ ڈکٹیڑوں کا آغاز کچھ بھی مختلف ہو‘ انجام ایک جیسا ہوا کرتا ہے۔ دمشق پر قبضہ بشار الاسد ہی کی نہیں ا س کے حامیوں خاص طور پر ایران اور روس کی بھی بڑی شکست ہے۔ اور اس تمام قبضے میں ترکیہ بہت فائدے میں رہا ہے۔ اس کا اثر ورسوخ شام میں بہت بڑھ جائے گا اور آئندہ حکومت کا ترکیہ پر بہت انحصار ہو جائے گا۔ اس تیز رفتار بلکہ ناقابل یقین کامیابی کا بنیادی راز اس کارروائی کے وقت کا تعین ہے۔ بشار الاسد کا ساتھ دینے والے اس وقت کمزور ترین صورت میں ہیں۔ روس یوکرین کی لڑائی میں بری طرح الجھا ہوا ہے۔ ایران اسرائیل سے حالیہ لڑائیوں میں کمزور ہو چکا ہے۔ حزب اللہ زخم خوردہ ہے اور کسی بڑی کارروائی کے قابل نہیں۔ شام میں ایرانی گروپس کمزور ترین صورت میں ہیں۔ شامی سرکاری فوج بے حوصلہ‘ شکست خوردہ اور تھکی ہوئی ہے۔ شامی عوام حکومت مخالف ہیں۔ امریکہ میں بائیڈن حکومت جا رہی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ شام میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا۔ ٹرمپ نے حال ہی میں اس پر ایک بیان بھی دیا ہے۔ باغیوں نے اپنی طاقت سے زیادہ ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔
اس وقت دمشق پر قبضہ کرنے والی سب سے بڑی قوت ہیئۃ التحریر الشام ہے‘ جس کے سربراہ احمد حسین الشرع یعنی ابو محمد الجولانی ہیں۔ ان کا آبائی علاقہ گولان کا پہاڑی علاقہ تھا جہاں سے یہ گھرانا 1967ء میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ 1982ء میں پیدا ہونے والے الجولانی نے شام اور عراق میں ایک اسلامی ریاست کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ ان کے والد نے بھی اسد حکومت میں قید وبند کی مصیبتیں اٹھائیں اور پھر فرار ہوکر اردن سمیت کئی عرب ممالک میں در بدر پھرتے رہے۔ موجودہ سربراہ 2011ء میں شام کی خانہ جنگی کے دوران عراق سے شام واپس آئے اور یہیں اپنے مسلح گروپ کی بنیاد رکھی جس نے القاعدہ سے بتدریج دوری اختیار کی۔ اس وقت ابومحمد الجولانی دنیا بھر میں مرکزی خبروں میں ہیں۔ میں ان کا ایک حالیہ انٹرویو سن رہا تھا جو حلب پر قبضے کے بعد لیا گیا ۔ یہ انٹرویو متاثر کن تھا اور اس میں ملک شام کی بہتری کیلئے بہت سے امکانات تھے۔ الجولانی کے مطابق جو سرکاری فوجی ہتھیار ڈال دیں گے انہیں عام معافی دے دی جائے گی۔ مخالفوں اور حریف گروپس کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں ہو گی۔ فتح کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔ شامی مہاجرین جو مختلف ملکوں یا پناہ گزین کیمپوں میں ہیں انہیں دعوت دی گئی ہے کہ واپس آکر ملک کی تعمیر کریں اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں۔ سرکاری ادارے فی الحال وزیراعظم غازی الجلالی کی سربراہی میں کام کرتے رہیں گے‘ جو دمشق میں موجود ہیں اور انہوں نے دمشق نہ چھوڑنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ الجلالی نے آئندہ ملک کی تعمیر اور انتخابات کیلئے مخالفین کو مفاہمتی پیغام بھی دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ شام میں موجود عوام اور بیرونِ ملک شامی مہاجرین کا دمشق کی خبروں پر کیا ردعمل ہے۔ وڈیوز‘ تصویروں‘ خبروں میں عام شہریوں میں خوشی کی لہر دیکھی جا سکتی ہے۔یہی حال دنیا بھر میں شامی مہاجرین کا ہے۔
شام کی تعمیر نو آسان تو ہرگز نہیں‘ لیکن ناممکن بھی ہرگز نہیں۔ مختلف مذہبی‘ مسلکی‘ نظریاتی‘ گروہی طبقات میں بٹا ہوا یہ ملک خانہ جنگی سے نہیں بلکہ مفاہمت ہی سے نئی زندگی کا آغاز کر سکتا ہے۔ ایسے میں ابومحمد الجولانی کا یہ اعلان بہت خوش کن ہے کہ ہمیں لڑائی کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ بقائے باہمی کی بنیاد پر ملک کی تعمیرِ نو کی طرف بڑھنا ہے۔ کیا اس قدیم اور حسین ملک کی رونقیں بحال ہو سکیں گی اور مکمل امن قائم ہو سکے گا؟ کیا بیرونی مداخلت ختم ہو سکے گی؟ کیا ہم جامع مسجد اموی دمشق کے صحن میں پھر قدم رکھ سکیں گے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں