کئی بار اعلان سنے ہیں‘ اور سابق وزیراعظم‘ تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے ایک دفعہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی ناکام کوشش بھی کر دیکھی۔ تب کچھ لوگوں نے نمائشی طور پر بجلی کے بل جلائے تھے۔ اس پس منظر اور موجودہ حالات کے تناظر اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے سول نافرمانی کی باتیں ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے دعوے کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہم اب کسی کا امتحان نہیں لینا چاہتے کہ ہمارا زمانہ گزر گیا‘ مگر احتراماً ایک سوال اٹھاتے ہیں کہ سول نافرمانی کے فلسفوں‘ اس کی تاریخ اور تحریکوں سے ہمارے اسمبلیوں کے اندر اور باہر کتنے سیاست کار کچھ آگاہی رکھتے ہوں گے؟جھنڈے اٹھا کر مختلف سیاسی جماعتوں کے جلسوں اور جلوسوں میں دیہاڑی دار اور رضاکار کارکنوں کی تو ہم بات ہی نہیں کرتے‘ جس دانش گاہ سے ہم آخری لیکچر دے کر اب اپنے جنگل میں سکھ اور چین کی زندگی گزار رہے ہیں‘ وہاں دو عشروں کے دوران ''عدم تشدد اور اس کی عملی شکل‘‘ پر کئی بار ایک کورس پڑھایا۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ ہمارے سماجی ماحول سے رواداری‘ حسن سلوک اور برداشت ایک عرصہ سے ہجرت کر چکے ہیں۔ اب تو طویل عرصے سے کشمکش کی فضا اتنی گہری ہے کہ کچھ یاد ہی نہیں رہا کہ ایک دوسرے سے اختلاف کی اخلاقیات کیا ہیں‘ احترام آدمیت کیا ہوتا ہے‘ باہمی عزت واحترام اور مہذب گفتگو کا انداز کیا ہے۔ یہ سب کچھ ذہن میں رکھ کر یہ کورس ترتیب دیا تھا۔ شروع ہم ہنری ڈیوڈ تھورو (1817-1862ء) سے کرتے تھے‘ اور پہلا موضوع ہی سول نافرمانی تھا۔ تھورو نے کوئی سیاسی تحریک چلائی اور نہ کسی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ اس کے فلسفوں کی کئی تہیں ہیں جو فطرت سے لے کر سادگی اور حکومت کے قوانین کی نافرمانی کے جواز تک پھیلی ہوئی ہیں۔ تاہم یہاں سب کی وضاحت ممکن نہیں۔ سردست صرف سول نافرمانی کی بات کرتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سول نافرمانی کے فلسفے کی روح اور اس سے متاثر کچھ سیاسی تحریکوں کی بنیاد عدم تشدد پر ہے۔ مرکزی نقطہ یہ ہے کہ پُرامن احتجاج سے حکومت پر اخلاقی دبائو ڈال کر قوانین‘ پالیسیاں اور رویوں کو بدلا جا سکتا ہے۔ یہ درویش بھی اس خیال کا حامی‘ پیروکار اور پرچارک رہا ہے کہ پُرامن مزاحمت میں جو طاقت ہے‘ اس کا مقابلہ کسی اور طاقت سے نہیں کیا جا سکتا‘ اور نہ ہی اس کا کوئی اور متبادل ہے۔ جونہی کوئی گروہ‘ جماعت یا تحریک ریاستی جبر‘ ناانصافی اور تشدد کے خلاف تشدد کا ہتھیار استعمال کرتی ہے‘ وہ اس مقابلے میں ناکام رہتی ہے کیونکہ شہری ریاست کی قوت و طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن شہریوں کے پاس اخلاقی طاقت ضرور ہوتی ہے جسے وہ پُرامن احتجاج کی صورت بروئے کار لاتے ہیں۔ افریقی نیشنل کانگریس‘ جس کے بانی اور روحِ رواں نیلسن مینڈیلا تھے‘ ایک عرصہ تک عسکریت پسندی کی بنیاد پر قائم رہی۔ اسی دوران وہ جیل میں بھی ڈال دیے گئے۔ عالمی سطح پر ایسی تحریکوں کو کبھی پذیرائی نہیں ملتی‘ خاص طور پر مغرب میں۔ جب اس تحریک نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی تو دنیا نے جنوبی افریقہ کے درد کو محسوس کرنا شروع کر دیا اور آخرکار نسل پرست اقلیتی حکومت سے آزادی نصیب ہوئی۔ برصغیر میں ایسی تحریک کے بانی مہاتما گاندھی ہیں۔ انگریزوں نے ایک قانون بنایا تھا کہ کوئی فرد یا کمپنی حکومت کی اجازت کے بغیر نمک نہیں بنا سکتی۔ نمک پر بھی ٹیکس ہوا کرتا تھا۔ گاندھی جی نے اس قانون کو انسانی مفاد کے خلاف قرار دیا اور اس کے خلاف مشہور ''نمک مارچ‘‘ شروع کیا جو چوبیس دنوں تک سمندر کی طرف جاری رہا۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ دو سو چالیس میل کی مسافت پیدل طے کی اور ساحل پر پہنچ کر کھارے پانی سے نمک بنایا۔ مقصد اس قانون کی خلاف ورزی کرنا تھا۔ اس مارچ کے دوران شرکا کو کئی مرتبہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘ مگر ان کی تربیت ایسی تھی کہ کسی نے ایک پتھر بھی پولیس پر نہیں پھینکا۔
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی شہری حقوق کی تحریک کی کامیابی کا راز پُرامن احتجاج تھا۔ اگر لوگوں کے دھرنوں پر گھوڑے دوڑانے اور ان پر خونخوار قسم کے کتے چھوڑنے کی وڈیوز دیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ پُرامن احتجاج کی کیا قیمت چکانا پڑتی ہے اور کس طرح بڑی اور طاقتور ریاست بالآخر ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ سول نافرمانی کا ایک اور اصول تھورو کے جیل جانے کے واقعے سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ سیاہ فام لوگوں کی امریکہ میں غلامی اور سپین کے ساتھ جنگ کی مزاحمت کے طور پرانہوں نے ''پول ٹیکس‘‘ (Poll Tax) جو خصوصاً جنگ کے لیے لگایا گیا تھا‘ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ حکومت نے انہیں جیل میں ڈال دیا جہاں انہوں نے اُس وقت تک رہنا تھا جب تک ٹیکس ادا نہ ہوتا۔ اگلے روز ان کے کسی دوست نے ٹیکس ادا کر دیا اور وہ رہا ہو گئے‘ لیکن وہ اپنے دوست کی اس حرکت سے خوش نہ تھے۔ اصول یہ ہے کہ اگر آپ نے قانون کی نافرمانی کی ہے تو بصد خوشی اس کے مطابق سزا کے لیے بھی اپنے آپ کو تیار رکھیں۔ اس سے بچنے کے لیے کوئی عذر قابلِ قبول نہیں۔ اور بھی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ جن میں تخلیقی ادب‘ شاعری‘ خیالات اور فلسفوں کے ذریعے کسی بھی نظام کے خلاف مزاحمت جاری رہتی ہے۔ ہمارے ان تمام حوالوں سے ہمارے ادیبوں‘ شاعروں اور کئی نوع کے لکھاریوں اور صحافیوں کی تمام علاقائی اور قومی زبان میں پُرامن احتجاج اور مزاحمت کی ایک قابلِ فخر روایت ہے‘ لیکن عملی طور پر ہماری سیاست میں عدم تشدد اور پُرامن احتجاج کہیں نظر نہیں آتے۔ کہنے کو تو سب امن کی بات کرتے ہیں کہ مگر ہجوم پولیس کے سامنے آتے ہی پتھرائو شروع کر دیتا ہے اور نوبت آنسو گیس‘ رکاوٹوں اور گولیوں تک پہنچ جاتی ہے۔
آج تک ہم نے ملک میں ایسی کوئی تحریک نہیں دیکھی جس میں تشدد کی آمیزش نہ ہو‘ بلکہ ہماری سیاسی زبان پر نفرت‘ حقارت‘ بے بنیاد الزام تراشی اور دھمکیوں کا رنگ کچھ زیادہ ہی غالب ہے۔ سب کے جلسوں میں‘ اور اب تو بڑی بڑی سکرینوں پر بھی غدار‘ ملک دشمن‘ لٹیرے‘ ڈاکو اور چور کی آوازیں ہر طرف سے سنائی دیتی ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ ہمارے رہبروں کے نزدیک حریف مقدمہ چلنے سے پہلے ہی ہر اُس جرم کے مرتکب قرار پاتے ہیں جس کی تکرار وہ اپنے جلسوں‘ جلوسوں اور بیانات میں ہر روز کرتے ہیں‘ تو اس عالم میں کسی جماعت کے کارکن عدم تشدد کو کیسے قبول کریں گے ؟ انہیں تو اکسایا جاتا ہے‘ حملوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں اکثر جماعتیں نوجوانوں کے ہاتھ میں ہتھیار بھی دیتی رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے بانی کے ذہن میں کوئی مختلف خاکہ ہو مگر موجودہ سیاسی تقسیم کے حامل پاکستانی معاشرے کی جوہری ساخت سول نافرمانی کے لیے موزوں نہیں۔ ایسے بیکار اعلانات کا مقصد صرف یہ ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو کم نہیں ہونے دینا اور اپنے بیانیے کو زندہ رکھنا ہے۔ اتحادی حکومت بھی کوئی مثبت قدم ابھی تک نہیں اٹھا سکی کہ حزبِ اختلاف کے ساتھ اعتماد سازی کے لیے اقدامات کرے۔ پہلے تو یہ مختلف شہروں میں سینکڑوں مقدمے بیک وقت قائم کرنے کی روایت کو توڑے اور اس سیاسی گناہِ کبیرہ سے تائب ہو اور ملک کے مفاد میں صلح صفائی کا راستہ اختیار کرے۔ اتحادی بھی بیکار کے‘ مگر انہی پرانے دھندوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب تو بیکار کی باتیں سننے کے عادی ہو چکے ہیں۔