یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر پاکستانی نیند سے بیدار ہوتے ہی‘ بشرطیکہ وہ سو پایا ہو‘ اپنے ذہن پر سوار کر لیتا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ سماج معاشی الجھنوں‘ سیاسی جنگوں اور عدم استحکام کا شکار رہے تو ایسی بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اکثر لوگ اپنے روزگار اور کام دھندوں میں مصروفیت کے باوجود وقت ملتے ہی سیاست کا دفتر کھول کر ایک دوسرے کے سامنے یہ سوال دہراتے رہتے ہیں۔ جو بھی جواب ملے‘ مطمئن نہیں ہوتے۔ کوئی جواب کسی کے پاس ہو تو کوئی یقین کرے۔ ہم سیاسی کشیدگی‘ شدید ترین نفرت اور لڑائی جھگڑوں کی فضا میں اندازوں سے اسی لیے کام لیتے ہیں کہ ہمارے سیاسی کھیل کے سب ضابطے اور قواعد‘ یا تو بے سود ہو چکے ہیں یا پھر ایسی تبدیلیاں بڑے ایوانوں میں چند ساعتوں میں لائی گئی ہیں کہ ان کی سمجھ ہی کسی کو نہیں کہ آخر حکمران ملک کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ جو آئینی بینچوں کی تشکیل اور اس نئے کھیل کو جم کر کھیلنے کے لیے چھبیسویں آئینی ترمیم کی گئی ہے تو عقل مندوں کو اشارے سے زیادہ یقین کر لینا چاہیے کہ مخلوط نظام‘ جسے ہم انگریزی میں ہائبرڈ کہہ رہے ہیں‘ اس کی قانونی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک بڑے حکمران اتحاد کی بات گزشتہ مضمون میں کر چکا ہوں‘ اس لیے کچھ مزید کہنے کی ضرورت نہیں۔ طاقت کے استعمال کا قانونی جواز مل جائے اور اس کا استعمال اور زور ایک جماعت کو‘ جسے ملک کے منجھے ہوئے بزرگ سیاستدان ''شر پسند‘ فتنہ اور ملک دشمن‘‘ قرار دے رہے ہیں‘ کو ختم کرنے میں ہو‘ تو بھی عوام کی نظروں میں اسے اقتدار میں رہنے کے لیے ریاست اور اس کے اداروں کو استعمال کرنے کی ترکیب سے زیادہ وقعت نہیں ملتی۔ بات یہ بھی ہے کہ اتحادی حکومت‘ جو گزشتہ تین سالوں سے تین مختلف رنگوں میں جمہوری اتحاد‘ نگران حکومت اور جماعتی اتحاد کی صورت میں ملک اور ہماری قسمت کے فیصلے کرنے پر مامور اور مسلط ہے‘ اس پر اعتماد صرف اس کے قریبی حلقوں کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آتا۔
دوسری طرف معتوب پارٹی اور اس کے بانی اور کھلاڑیوں کی تازہ بھرتی احتجاج‘ مزاحمت اور جلوسوں پر مُصر ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ نہ صرف یہاں کے عوام بلکہ اُن سب مبصرین کے نزدیک جنہوں نے آٹھ فروری کی رات کو سب کچھ ہوتے دیکھا ہے‘ ایسی سیاسی جادوگری کا توڑ صرف مزاحمت میں ہے۔ یہ سوچ کر انہوں نے دیگر شہروں میں جلسے‘ جلوس اور اسلام آباد کی طرف مارچوں کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ ملک دو متضاد دعووں اور دو متضاد کاوشوں کی زد میں ہے۔ اس طویل سیاسی لڑائی میں جس طرح ہم نے ماضی کی سیاسی لڑائیوں میں دیکھا‘ نتیجہ کچھ مختلف ہی نکلا۔ کم از کم وہ نہیں تھا جو مزاحمت کار چاہتے تھے‘ اور وہ بھی نہیں تھا جو ان کو دبانے والوں کی خواہش تھی۔ ظاہر ہے ماضی کی حکومت کی طرح‘ موجودہ اتحادی حکومت بھی اپنا اقتدار محفوظ بنانے کے درپے ہے‘ اورا سی مقصد کے لیے ریاستی طاقت‘ باہمی گٹھ جوڑ اور دیگر حربے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ ایسا کرتے ہوئے ماضی کی اپنی تاریخ کے کچھ اوراق پلٹ لیتے۔ اس وقت سیاسی جنگوں کی آگ میں جلتے ملکوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ لیتے۔ تاریخ فراموشی تو کوئی ہمارے ملک کے سیاسی کرداروں کو دیکھ کر سمجھے اور سیکھے۔ شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ طاقت کا استعمال بار بار اور اس انداز میں‘ کہیں بھی ہو۔ وقتی طور پر لوگوں کو منتشر کیا جا سکتا ہے‘ کچھ عرصہ کے لیے دبایا بھی جا سکتا ہے مگر پھر وہ کہیں نہ کہیں جمع ہو کر آجاتے ہیں۔ ہمارے حالات ابھی تک وہ نہیں جو امریکی جنگی اتحاد نے طالبان کے افغانستان کے کیے تھے مگر ایک مثال معتوب پارٹی کے پُرجوش کارکنوں پر صادق آتی ہے۔ جب تقریباً 15 سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا اور امریکی فوجی اتحاد طالبان کو شکست نہ دے سکا تو ان کے کمانداروں نے کہا کہ یہ ایسے لال بیگ ہیں کہ ہم جتنا مارتے ہیں اتنے ہی زیادہ کچھ دیر کے بعد کہیں سے نکل آتے ہیں۔ سنا ہے کہ ہماری اتحادی حکومت کے آنسو گیس کے ذخیرے میں نمایاں کمی آئی ہے کہ دو گھنٹے تو سرخ لکیر کے کہیں قریب شیلنگ ہوتی رہی اور اسی طرح اٹک سے لے کر ممنوعہ منزل تک‘ مظاہرین پر ہر جگہ اس گیس کا استعمال ہوتا رہا۔ گولیوں کی بات ہم نہیں کرتے۔ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آوازیں سنی ہیں۔ کچھ وقت کا بھی اندازہ ہے‘ اس کے علاوہ ہمیں کچھ پتا نہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر حکومتی شعبدے بازوں کی باتوں پر عوام کا اعتماد نہ رہے تو ان کے اندازوں کی حدود وقیود ہوا میں اُڑ جاتی ہیں۔
جو بھی کوئی کہے کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے‘ معیشت بہتر ہو رہی ہے اور ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے معتوب پارٹی کی حکومت باقی ماندہ صوبے میں گرانے کے لیے گورنر راج اور پارٹی پر پابندی لگانے کی مشاورت شروع ہے‘ اندر کی بات سب کو معلوم ہے کہ مقصد اتحادی حکومت کا استحکام اور وسیع تر حکمرانی اتحاد‘ اشرافیہ کے اتحاد کو تقویت اور طوالت دینے کی وہی گھسی پٹی فرسودہ ترکیبیں ہیں جو ماضی کے حکمرانوں نے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کی تھیں۔ آپس کی بات ہے کہ سیاسی عقلمندوں میں ان کا کبھی شمار نہیں ہوتا جو تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے۔
گزشتہ تین سالوں سے جاری تصادم کے دوسری جانب بھی لوگ تاریخ اور عصری سیاست کی عالمی بساط سے نابلد نظر آتے ہیں۔ جذبہ اور جنون اور معتوب پارٹی میں نوجوانوں کی اکثریت کو وہ اپنی طاقت مانتے ہیں‘ جو ایک بہت بڑا سیاسی سرمایہ ہے۔ مگر اس کو بار بار سڑکوں پر دھکیل کر‘ مارچوں میں الجھا کر اور میدان میں رات کے اندھیروں میں آنسو گیس اور گولیوں (ربڑ کی) کی بوچھاڑ میں چھوڑ کر قیادت غائب ہو تو یہ سرمایہ بڑھے گا نہیں‘ ضائع ہو جائے گا۔ میدان میں اترنے والے کارکن کیونکر آئندہ شعلہ بیانی کرتے‘ آگ اگلتے رہنمائوں کی آواز پر متحرک ہوں گے؟ اتحادی حکومت اور اس کے سرپرستوں کے بارے میں تو معلوم ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بارے میں نعرہ بازی کے علاوہ کوئی سنجیدہ اور قابلِ عمل حکمت عملی تو دور کی بات‘ کوئی ڈھنگ کی بات کرتا ہوا بھی نظر نہیں آتا۔
برق رفتار ترقی اور سائنسی کرشموں کے اس زمانے میں مارچوں اور دھرنوں سے انقلاب لانے کی باتیں سن کر ہمیں اپنے وقت کے وہ انقلاب‘ جن میں ایک عرصہ تک یہ درویش بھی شامل تھا‘ یاد آتے ہیں۔ بہت خیالی پلاؤ پکتے‘ بڑے بڑے خواب دیکھتے اور بڑے بڑے انقلابوں کی ٹوپیاں سر پر رکھتے‘ اور باتیں بھی اسی طرح کی کی جاتی تھیں‘ نعرے بھی کم وبیش یہی تھے۔ عملی سیاست اور طاقت کے توازن اور اس کے پاکستان کی تاریخ کے ایسے مظاہر صرف سیاسی اندھوں ہی سے مخفی ہوں گے۔ وسیع تر حکمران اتحاد اور معتوب پارٹی کے مابین تصادم ہمیں تو کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آ رہا۔ ہماری سیاسی جنگ میں شاید کوئی ایسا موڑ آ جائے کہ یہ احساس پیدا ہو کہ ایسی جنگوں میں سب ہارتے ہیں‘ کوئی نہیں جیت سکتا۔ عوام ملک اور معاشرہ تو ہار مان چکا ہے کہ حریف دونوں جانب سے برسر پیکار ہیں اور ہم روزانہ یہی سوال کرتے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ بے بسی‘ بے چینی اور بے یقینی ہو تو ایسی۔