ہمارا معاشرہ اس وقت عدل سے بہت دور جا چکا ہے اور ہم زندگی کے ہر شعبہ میں جانبداری سے کام لیتے ہیں۔ گھریلو اور سماجی زندگی میں بھی انصاف کا فقدان واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اسی طرح مذہبی معاملات میں بھی بالعموم جانبدارانہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ سچی بات سننے کے باوجود لوگ اس کو ماننے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتے۔ یہی حال سیاست کا ہے۔ ہمارے سیاسی معاملات میں الجھائو کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم عصبیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی کام ہمارا پسندیدہ لیڈر کرے تو ہم اس کی غلط بات کی بھی توجیہات و توضیحات کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن اگر وہی کام کوئی مخالف کرے تو ہم اس کی بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت سے بگاڑ پیدا ہو چکے ہیں۔ لوگ اپنے غلط مؤقف کی اصلاح کرنے کے بجائے بے جا تاویلات پیش کرتے ہیں۔ جب ہم کتاب وسنت کی تعلیمات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات بڑی وضاحت سے سامنے آتی ہے کہ ہمیں ہر معاملے میں عدل سے کام لینا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النساء میں اس حقیقت کو بیان کیا کہ عادلانہ رویے وہاں پر بھی اختیار کرنے چاہئیں جہاں پر انسان کے کسی قریبی عزیز کا معاملہ ہو اور قرابت کی محبت کو عدل پر غالب نہیں آنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت 125میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ بنو علمبردار انصاف کے‘ گواہی دینے والے اللہ کے لیے‘ اگرچہ ہو یہ گواہی تمہاری اپنی ذات کے یا والدین اور رشتہ داروں کے خلاف‘ خواہ ہو کوئی مالدار یا غریب‘ بہرحال اللہ تم سے زیادہ خیر خواہ ہے ان کا‘ پس مت کرو تم پیروی اپنی خواہشاتِ نفس کی‘ عدل نہ کرنے میں‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بہرطور عدل چاہتے ہیں اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی جانبداری کو ناپسند کرتے ہیں۔
کئی مرتبہ انسان کسی سے مخالفت کی وجہ سے بھی عدل کے راستے کو چھوڑ دیتا ہے‘ یہ طرزِ عمل بھی خلافِ دین ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت 8 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے ایمان والو! بنو تم قائم رہنے والے اللہ کی خاطر گواہی دینے والے انصاف کی اور نہ باعث بنے تمہارے لیے دشمنی کسی قوم کی کہ نہ کرو تم انصاف۔ انصاف کرو‘ یہی بات زیادہ قریب ہے تقویٰ کے‘ اور ڈرتے رہو اللہ سے‘ بیشک اللہ خوب باخبر ہے اس سے جو تم کرتے ہو‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح کسی کی حمایت میں ناانصافی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ اسی طرح کسی کی مخالفت میں بھی ایسا رویہ نہیں اپنانا چاہیے جو عدل کے خلاف ہو۔
عدل سے انحراف کی ایک بڑی وجہ ذاتی‘ گروہی‘ سیاسی اور فرقہ ورانہ مفادات کا حصول ہے۔ انسان اپنے ذاتی مفاد اور انانیت کی وجہ سے بھی جھوٹ بولنے پر آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔ خاندانوں میں کئی مرتبہ عداوت کی وجہ سے لوگ اپنے قریبی رشتہ داروں کے بارے میں بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔ سورۂ یوسف میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو بیان کیا کہ آپ علیہ السلام جب عزیزِ مصر بن چکے تھے اور آپ نے اپنے بھائی حضرت بنیامین کو ایک تدبیر کے ذریعے اپنے پاس روک لیا تو بھائیوں کو بظاہر یہ بات نظر آئی کے بادشاہ کا پیالہ حضرت بنیامین کے سامان سے برآمد ہوا لہٰذا انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی ذات پر بھی تہمت لگانے سے گریز نہ کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ واقعہ سورۂ یوسف کی آیات 70 سے 77 میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ''پھر جب لدوانے لگے ان کا سامان تو رکھ دیا ایک پیالہ سامان میں اپنے بھائی کے‘ پھر اعلان کیا ایک پکارنے والے نے‘ اے قافلے والو! یقینا تم ضرور چور ہو۔ وہ بولے متوجہ ہوکر کہ کیا چیز کھو گئی ہے تمہاری؟ جواب دیا: نہیں مل رہا اس میں پیمانہ بادشاہ کا‘ جو لائے گا اسے ایک اونٹ بھر غلہ ہے اس کے لیے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ وہ بولے: اللہ کی قسم یقینا تم کو معلوم ہے کہ نہیں ہم آئے اس غرض سے کہ فساد کریں زمین میں اور نہ ہیں ہم چوریاں کرنے والے۔ انہوں نے کہا: اچھا چور کی کیا سزا ہے اگر تم جھوٹے ہو؟ جواب دیا کہ اس کی سزا یہی ہے کہ جس کے اسباب میں سے پایا جائے (اسے غلام بنا لیا جائے) وہی اس کا بدلہ ہے‘ ہم تو ایسے ظالموں کو یہی سزا دیا کرتے ہیں۔ پس (یوسف نے) ان کے سامان کی تلاشی شروع کی‘ اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے‘ پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان سے نکالا۔ ہم نے یوسف کے لیے اسی طرح یہ تدبیر کی۔ اس (وقت کے) بادشاہ کے قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے سکتا تھا‘ مگر یہ کہ اللہ کو منظور ہو۔ ہم جس کے چاہیں درجے بلند کر دیں‘ ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس نے چوری کی (تو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ) اس کا بھائی (یوسف) بھی پہلے چوری کر چکا ہے۔ یوسف نے اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا اور ان کے سامنے بالکل ظاہر نہ کیا۔ اور کہا کہ تم بدتر جگہ میں ہو‘ اور جو تم بیان کرتے ہو اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے‘‘۔ اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کئی مرتبہ حسد اور نفرت انسان کو انصاف سے دور لے جاتے ہیں‘ جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے نبیﷺ کے احکامات اس حوالے سے بالکل واضح ہیں کہ کسی بھی طور پر عدل وانصاف کے راستے کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ہمارے ہاں سماجی معاملات کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات میں بھی ناانصافی کا چلن عام ہے اور ہم اپنے ممدوح کو ہر صورت درست اور جسے ہم ناپسند کرتے ہیں‘ اسے ہر صورت غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح جرم وسزا کے معاملات میں بھی یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اپنے قریبی عزیز واقارب کے حوالے سے نرم رویہ اختیار کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے لوگوں کے لیے سختی اور درشتی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات اس حوالے سے واضح ہیں کہ آپﷺ نے کبھی بھی قرابت داری کو عدل کے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ''بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کر لی تھی۔ قریش نے (اپنی مجلس میں) سوچا کہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں اس عورت کی سفارش کے لیے کون جا سکتا ہے؟ کوئی اس کی جرأت نہیں کر سکا‘ آخر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے سفارش کی تو آنحضرتﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل میں یہ دستور ہو گیا تھا کہ جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹتے۔ اگر آج فاطمہ (رضی اللہ عنہا) نے چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا‘‘۔
عدل سے ہٹنے کا ایک بڑا سبب غلو ہے۔ بعض لوگ کسی کی عقیدت اور احترام میں غلو کرنے کی وجہ سے صراطِ مستقیم سے بھٹک جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ کتاب کو غلو چھوڑ کر سچی بات کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت 171 میں ارشاد فرماتے ہیں: اے اہلِ کتاب مت مبالغہ کرو اپنے دین کے معاملہ میں‘ اور مت کہو وہ بات اللہ کی شان میں مگر وہ بات جو سچ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیح عیسیٰ بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ تھے‘ جو بھیجا (اس نے) مریم کی طرف‘ اور روح تھی اللہ کی طرف سے‘ پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر اور مت کہو کہ الٰہ تین ہیں‘ باز آ جائو! بہتر ہوگا تمہارے لیے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف اللہ ہی معبودِ یکتا ہے‘ پاک ہے اس کی ذات اس عیب سے کہ ہو اس کی اولاد‘ اسی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں اور جو کچھ ہے زمینوں میں اور کافی ہے اللہ کارساز‘‘۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں زندگی کے جملہ معاملات میں عدل وانصاف پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ‘آمین!