پٹرولیم مصنوعات‘ ٹیکس اور وی پی این کی بندش کے اثرات

حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ پندرہ روز قبل قیمتیں برقرار رکھی گئی تھیں اور تیس روز قبل بھی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا۔ اضافے کا یہ رجحان شاید جاری رہے لیکن اگلے چند ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہو سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تقاریر اور پالیسی میں واضح کر چکے ہیں کہ وہ کینیڈا اورمیکسیکو سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر 25 فیصد ٹیکس لگائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو کینیڈا اور میکسیکو کی کمپنیاں امریکہ کو تیل برآمد نہیں کر سکیں گی۔ ایسی صورت میں تیل کی رسد کا رُخ ایشیا کی جانب ہو سکتا ہے۔ چین‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور پاکستان اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ یورپی ممالک کی اکثریت کے پاس کینیڈا اور میکسیکو کے خام تیل کو پراسیس کرنے والی ریفائنریز نہیں ہیں۔ صرف سپین میکسیکو کے تیل کو ریفائن کر سکتا ہے۔ یورپی ممالک کی اکثریت سعودی عرب اور ایران کے تیل کو پراسیس کر سکتے ہیں۔ اس فیصلے کے پاکستان سمیت ایشیا کے تمام ممالک کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں لیکن امریکی معیشت مشکلات سے دو چار ہو سکتی ہے کیونکہ امریکہ کی کئی ریفائنریز کینیڈا سے پائپ لائن کے ذریعے پٹرولیم مصنوعات درآمد کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب بھی محدود مقدار میں ہائی گریڈ کروڈ آئل مہیا کر سکتا ہے۔امریکہ اپنی ضرورت کا تقریباً 52 فیصد تیل کینیڈا اور 11فیصد میکسیکو سے حاصل کرتا ہے۔ مستقبل میں ڈونلڈ ٹرمپ کیا فیصلہ کرتے ہیں اس بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ماضی کے فیصلوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جو اعلان کرتے ہیں اسے پورا کرنے کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ فیصلہ لے لیا گیا تو پھر بھی خدشات موجود ہیں کہ پاکستانی بیورو کریسی اور سیاستدان اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے یا پھر ماضی کی طرح ملک کو نقصان پہنچانے کی روایت برقرار رکھی جائے گی۔ پاکستانی وزرا کے ماضی ایسے سینکڑوں واقعات سے بھرے پڑے ہیں جب انہوں نے ملک کو فائدہ دلانے کی بجائے ملکی معیشت کا نقصان کیا۔ چار سال قبل وزیر ہوابازی نے پاکستانی پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان داغ دیا تھا۔ اس وقت پی آئی اے کو حکومتی سپورٹ کی ضرورت تھی اور روٹس کے حوالے سے کچھ بین الاقومی معاہدے بھی زیرِ غور تھے لیکن وزیر صاحب کے ایک بیان کی وجہ سے پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ کی پروازوں پر پابندی لگ گئی۔ آج چار سال بعد یورپ کے لیے پروازیں کھلی ہیں لیکن برطانیہ کے لیے اب بھی پروازیں بحال نہیں ہو سکیں۔ پی آئی اے سے پابندی اٹھنے سے اس کی نجکاری میں فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک ہو۔ سیاستدانوں اور بیورو کریسی کے لیے اس طرح کے فیصلے معمول کی بات بن کر رہ گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا احتساب نہیں ہوتا۔ چار سال تک یورپ کی پروازیں معطل ہونے سے جو مالی نقصان پاکستان کو ہوا‘ اس کا ازالہ کس نے کرنا ہے؟سابق وزیر کو کم از کم کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ اسی طرح ماضی میں عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کا فائدہ بھی نہیں اٹھایا گیا۔ بھارت نے کورونا کے دنوں میں تیل کے معاہدے کیے اور تیل کو سٹور کیا جس سے انہیں اربوں ڈالرز کا فائدہ ہوا مگر پاکستانی وزیر اور مشیر صرف بیانات دیتے رہے کہ جلد معاہدے ہو جائیں گے۔ بیانات دے کر وقت گزار دیا گیا اور مافیاز کو فائدہ پہنچایا گیا۔جب اس بارے سوال اٹھائے جاتے ہیں تو ذمہ داری دیگر اداروں اور افسران پر ڈال دی جاتی ہے اور الزامات کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
آج کل ایف بی آر اور وزارتِ خزانہ کے درمیان معاملات اسی طرز پر چل رہے ہیں۔ ایف بی آر نے اہداف سے 356 ارب روپے کم ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ پچھلے پانچ ماہ میں سے چار ماہ ٹیکس اہداف حاصل نہیں کیے گئے۔نومبر میں بھی 166 ارب روپے کم ٹیکس اکٹھا ہوا ہے۔ دودھ اور افغانستان سے سبزیوں پھلوں کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگادیا گیا۔سٹیشنری پر دس فیصد ٹیکس لگ چکا ہے۔ تنخواہ دار طبقے اور کارپوریٹ سیکٹر پر تقریباً 1.4 ٹریلین ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ ان اقدامات کے باوجود ٹیکس اہداف حاصل نہ ہونا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ وزارتِ خزانہ ایف بی آر کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے اور ایف بی آر کے مطابق‘ جو ٹیکس اہداف طے کیے گئے ہیں وہ غیر حقیقی ہیں۔ جن بنیادوں پر ٹیکس اہداف کا حساب لگایا گیا وہ غلط ہیں اور انہیں دہرائے جانے کی ضرورت ہے۔ یعنی ایف بی آر افسران پرانی ایف بی آر ٹیم اور وزارتِ خزانہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسئلہ ٹیکس اہداف کے غیر حقیقی ہونے کا ہے توایف بی آر کو تقریباً 32 ارب روپے کی مراعات دینے کی کیا ضرورت تھی؟ افسران کو 1300 سی سی کی نئی گاڑیاں دینے کی کیا ضرورت تھی؟ چار ماہ کی تنخواہ بطور بونس دینے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ مراعات اسی لیے دی گئی تھیں کہ ٹیکس اہداف حاصل کیے جائیں۔ اگر ایف بی آر افسران کا دعویٰ درست ہے تو جو حالیہ اضافی مراعات دی گئی ہیں انہیں فوراً واپس لیا جانا چاہیے۔
اسی طرح ملک میں وی پی این کی بندش کا مسئلہ بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ کچھ حکومتی لوگ وی پی این کی بندش کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور کچھ حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ لیکن ان حالات میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ وی پی این کی بندش سے ملک کو جو معاشی نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس حوالے سے کس کا احتساب کیا جانا چاہیے؟ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریبا ًبائیس لاکھ فری لانسرز کام کر رہے ہیں۔جو اوسطا ً100 سے 300 ڈالر کماتے ہیں اور حکومت پر بوجھ بنے بغیر اپنے خاندانوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ وی پی این کی بندش انہیں بُری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ اسی طرح پاکستانی گیمنگ انڈسٹری کا مستقبل بھی داؤ پر لگ سکتا ہے جس سے پاکستان کو تقریباً 50کروڑ ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ حکومت سافٹ ویئر ہاؤسز سے کلائنٹس کے آئی پی ایڈریس بھی مانگ رہی ہے‘ جبکہ کمپنیوں کا بین الاقوامی کلائنٹس کے ساتھ معاہدہ خفیہ ہوتا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے ایک بڑے سرمایہ کار گروپ نے پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ایک بڑا آئی ٹی گروپ‘ جس نے پاکستان میں کم از کم ایک ہزار ملازمتیں دے رکھی ہیں وہ اپنی کمپنیاں ویتنام منتقل کرنے کے بارے سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔ مگر حکومت ان معاملات کی نزاکت کو نہیں سمجھ رہی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ آئی ٹی کی قائمہ کمیٹی اجلاس میں آئی ٹی کی وزیر مملکت اور وزرات کے سیکرٹری غیر حاضر تھے۔ان حالات میں معاملات کیسے حل ہوں گے‘یہ ایک بڑا سوال ہے۔ یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ ملک میں آئی ٹی کرفیو نافذ ہے۔ اگر حالات اسی طرح رہے تو جلد ہی پاکستان کوشمالی کوریا کی صف میں کھڑاکیاجاسکتا ہے۔ وہاں بھی انٹرنیٹ اور وی پی این پر پابندی ہے۔ بلاشبہ ملکی سکیورٹی سب سے زیادہ اہم ہے لیکن معیشت کو نقصان سے بچانا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ آج کے جدید دور میں انٹرنیٹ اور وی پی این پر پابندیاں یورپی اور امریکی ممالک برداشت نہیں کر سکتے۔چین میں اگرچہ پابندیاں ہیں لیکن وہاں کی حکومت نے ان سب کا متبادل بھی فراہم کر رکھا ہے۔ اگر پاکستانی سرکار فائر وال‘ وی پی این اور انٹرنیٹ کے معاملے پر اپنی پالیسی نہیں بدلنا چاہتی تو اس کا متبادل فراہم کیا جانا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں