"RBC" (space) message & send to 7575

جاڑوں کے یہ دن

ہمارے چار موسم‘ ہر ایک کا اپنا رنگ رنگ‘ اور ہر موسم کے اپنے پھل اور اپنی سبزیاں۔ دنوں اور راتوں کے تغیرات بھی منفرد ہیں۔ شمال سے جنوب اور جنوب مغرب میں دنیا کی بلند ترین برف پوش چوٹیوں سے لے کر مکران کے ساحلوں کے درمیان ہر سال ہم کئی موسموں سے لطف اندوز صرف اس ملک یا ایک ہمسایہ ملک میں ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے کچھ اور ملک بھی ہیں جو رقبے کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں۔ جیسے امریکہ ذہن میں آتا ہے‘ جہاں موسم کی یکسانیت کی بوریت نہیں ہوتی۔ چاہیں تو سخت موسم میں کسی خوش گوار خطے کے لیے رختِ سفر باندھ سکتے ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ایک جگہ رہ کر بھی موسموں کو ہر تین‘ چار ماہ کے بعد تبدیل ہوتا دیکھتے ہیں۔ یہاں زندگی کا بیشتر حصہ گزارنے کے بعد جب تقریباً دس برس کہیں اور گزارنے سے موازنہ کرتے ہیں تو وہ بہت مشکل نظر آتا ہے۔ ایک جگہ ایسی بھی تھی جہاں پورا سال موسم خوشگوار ہوتا ہے‘ نہ زیادہ سردی‘ نہ گرمی‘ سمندرکے کنارے مستقل بہار کی سی کیفیت۔ جب سب دوستوں سے دو تین سال پہلے تعلیم مکمل کر لی تو وہ کہا کرتے تھے کہ اتنی جلدی کیا ہے‘ اس سے بہتر جگہ دنیا میں کہیں اور نہیں ملے گی‘ چند سال اور رہ جائو‘ سب اکٹھے یہاں سے رخصت ہوں گے۔ ہم انہیں کیا بتاتے کہ ہمارے خوابوں کی دنیا بھی تو حقیقت میں حسین سرزمینوں میں سے ایک ہے۔ میرے چند امریکی کلاس فیلوز میری دعوت پر یہاں آئے اور ان میں سے دو نے یہاں ایک ایک سال تدریس بھی کی‘ وہ آج بھی کہتے ہیں کہ یہاں کے پھلوں کا رنگ اور ذائقے کا مقابلہ امریکہ میں اگنے والے پھل نہیں کر سکتے۔ مغربی ممالک کے زرعی سائنسدانوں کا زور اس بات پر ہے کہ پھلوں کی جنیات میں تبدیلی کرکے ان کی شیلف لائف کو بڑھایا جائے۔ شاید ہمارے ہاں بھی آئندہ ایسا ہی ہو‘ مگر ابھی تک ہمارے پھلوں کا قدرتی ذائقہ باقی ہے۔
جاڑوں کے دنوں میں زیادہ سردی کے ساتھ سیب کا رنگ اور شیرینی ہو یا املوک کی نارنجی پھول جیسی شکل اور اس کی نرم جلد ہو‘ وہ زیادہ پُرکشش ہو جاتے ہیں۔ کنو اور کئی اقسام کے مالٹوں کا رنگ بغیر سردی کے نکھرتا ہی نہیں۔ جوں جوں سردی میں اضافہ ہوتا ہے‘ اپنے چھوٹے سے باغ میں‘ جہاں درخت زیادہ اور پھل ہماری غفلت کی بدولت کم ہیں‘ گہرے سبز پتوں کے اندر نارنجی مالٹے ایسے لگتے ہیں جیسے کسی نے کرسمس ٹری کو ان رنگوں سے سجاوٹ دے رکھی ہو۔ چند دن پہلے پنجاب کے صنعتی اور تاریخی شہر‘ جو کبھی لائل پور کہلاتا تھا‘ جانا ہوا تو ایک درجن کنو ایک ریڑھی بان سے خرید لیے۔ راستے میں ایک کھایا تودل میں شکرگزاری کے جذبات پیدا ہونے کے بجائے تلملا اٹھا کہ زیادہ کیوں نہ خرید لیے۔ ایسی نیت اور ایسا دل نہ ہو تو ہم انسان بھلا کیونکر کہلائیں گے۔ مزید کی خواہش میں ہم‘ جو کچھ ہمارے حصے میں اور نصیب میں ہوتا ہے‘ اس کی لذت سے بھی خود کو محروم کر لیتے ہیں۔ اس سرد موسم میں ایک نئی قسم کی ناشپاتی بازار سے خریدی‘ جسے دیکھنے اور چکھنے کا کبھی موقع نہ ملا تھا۔ اپنے جنگل میں بھی چند درخت ہیں جو جولائی میں پوری سال کی محنت کا ثمر ہماری جھولی میں ڈالتے ہیں۔ مگر جو مزہ گلگت بلتستان کے علاقوں کی ناشپاتی اور دیگر پھلوں میں ہے‘ وہ شاید کہیں اور نہ مل سکے۔ وہاں کی خوبانی‘ سیب اور چیری کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں۔ ہمارے جنگل کے مالٹوں کا برا حال ہے‘ اور ذمہ داری کا احساس زیادہ ہے کہ ان کی خدمت وقت پر نہ ہو سکی۔ ایک کونے میں دو بہت ہی نوخیز پیڑوں نے پہلی بار ڈیڑھ درجن پھل عنایت کیے تو ان کے اندر کے گلابی رنگ‘ رس اور حلاوت نے سب کمی دور کر دی۔ دو بڑے اور جنگل میں سب سے پرانے موسمی مالٹوں نے ہماری بے اعتنائی کے باوجود بہت کچھ دیا ہے۔ کئی سالوں کے بعد شکری مالٹوں کے دو پودوں نے بھی ہمارا ہاتھ خالی نہیں رہنے دیا۔ جنگل کے سب درختوں سے اب وعدہ کیا ہے کہ ان کی نگہداشت میں کمی‘ جو ہمارے لاہور کی ہر ہفتے کی مسافت سے دو عشروں تک ہوتی رہی‘ کی اب تلافی کر دیں گے۔
جاڑوں کی موسم میں ہماری سبزی کی کیاریوں کی رونق بڑھ جاتی ہے۔ دھنیا‘ پودینہ‘ گوبھی‘ سفید مولی‘ پالک اور شلجم ہر صبح آنکھوں کو تراوت بخشتے ہیں۔ جی تو کرتا ہے کہ انہیں ہاتھ نہ لگائیں‘ ان کی رونق اسی طرح قائم رہے‘ مگر کیا کریں کہ ہم اپنی کمزوریوں کے اسیر ہیں۔ اپنی اگائی ہوئی سبزی‘ محدود ہی سہی‘ کا ذائقہ اور تروتازگی‘ اگر آپ کا اپنا ایسا تجربہ ہے‘ بے مثال ہے۔ اس صفحے پر کئی مرتبہ گزارش کر چکا ہوں کہ آپ اپنی سبزی خود اگانے کے لیے وقت نکالیں‘صحن نہیں تو چھت پر جگہ بنا سکتے ہیں۔ مسئلہ صرف ترجیحات اور طرزِ زندگی کا ہے۔ میری طرح کئی کاشتکار ہیں جو اتنی سبزی پیدا کرتے ہیں کہ اپنے تصرف میں لانے کے باوجود بچ جاتی ہے۔ یہ موسم ہو اور سرسوں کا ساگ نہ ہو تو مزہ نہیں آتا۔ ہمارے دوستوں میں ایسے بھی ہیں جن کا پس منظر تو ہماری طرح گاؤں اور زمینوں کا ہے مگر شہروں میں آباد ہونے کے بعد سرسوں کے ساگ کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو ہم مسلمان مغرب کے پسندیدہ گوشت کے ساتھ کرتے ہیں۔ انہیں کیسے سمجھائیں کہ دورِ حاضر کی طبی تحقیق سبز پتوں والی سبزیوں‘ دالوں اور مختلف اناجوں کو اہمیت دے رہی ہے۔ سرسوں کے ساگ کے ساتھ کہیں باجرے یا جوار کی روٹی بھی مل جائے تو کیا بات ہے۔ اس عیاشی کے لیے ہم اسلام آباد چھوڑ کر اپنے آبائی علاقے کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں سرسوں کے ساگ کی کمی ہم پالک سے پوری کرنے کی ناکام کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب تارا میرا کا ساگ ہمارے آبائی گھروں میں تیار ہوتا تھا‘ اور بعض اوقات کئی اقسام کے پودوں کا ساگ بنایا جاتا تھا۔ بزرگ خواتین کے گزرنے کے بعد دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ پرانے فن‘ جن میں سرسوں کا ساگ اور تنور میں پانی سے لگائی گئی روٹی شامل ہیں‘ کے لیے کسی کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔
جاڑوں میں لکڑیوں کی آگ نہ جلے تو طویل راتیں نہیں کٹتیں۔ دیہات اور اپنے مختصر سے جنگل میں لکڑیوں کی کمی نہیں۔ مغرب کے بعد کبھی کبھار آگ کے شعلے‘ سلگتے انگاروں کی تیز تپش اور رنگ بدلتی آگ کی عمودی دھاریاں دل کے ساتھ آنکھوں کو بھی گرم رکھتی ہیں۔ سونے کی طرح دمکتے انگاروں پر اگر کچھ سبزی اور مچھلی نہ لگائی جائے تو جاڑے کے ان دنوں میں کفرانِ نعمت ہی ہو گا۔ چائے اور قہوے کی کیتلی کی گنجائش بھی نکل آتی ہے۔ گڑ والی چائے کے لیے بھی وقت‘ ماحول اور موسم کا ہمارے تجربے کے مطابق کوئی نعم البدل نہیں۔ موسم کے دائمی رفیق ظفر اقبال گوندل صاحب اس جلتی آگ پر کمال کی مچھلی آناً فاناً تیار کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ ہم نے مچھلی کے شوق میں جنگل کے کنارے چند سال پہلے ایک تالاب بنایا تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں مچھلیاں اس میں چھوڑی تھیں‘ مگر انہیں پانی‘ پتوں اور قدرت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ فرصت نہ مل سکی کہ ان کی خوراک کا بھی بندوبست کریں۔ امید ہے کہ دو سال بعد ہم تالاب کے کنارے آگ جلا کر اور تازہ پانی سے نکال کر مچھلی پکانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن دیکھیں‘ پرندوں اور انسانوں نے کچھ رہنے بھی دینی ہیں یا ہمیں صرف آگ کے شعلوں سے لطف اندوز ہونے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ جاڑے کے یہ دن‘ بلکہ سب دنوں اور راتوں کو پرانی کتابیں پڑھنے‘ کاشت کاری کرنے اور موسم کی عنایات سے فیض یاب ہونے میں گزارتے ہیں۔ تہہ خانہ بہت ٹھنڈا ہے‘ اب باہر دھوپ کا مزہ لیتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں